یزید کی تکفیر
یزید کی تکفیر
یزید (۶۴ھ)کے تعلق سے تین مسئلے بطور خاص زیر بحث آتے ہیں:
۱-اس کے فسق کا مسئلہ
۲-اس کے کفر کا مسئلہ
۳-اور اس پر لعنت کا مسئلہ
فسق یزید کا مسئلہ
یزید کے فسق کے سلسلے میں علماے اہل سنت متفق ہیں اور بہت ہی شاذ افراد نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ انہیں میں ایک نام علامہ ابوبکر بن عربی مالکی (۵۴۳ھ) کا ہے، جنہوں نے یزید کی بیعت کو شرعاً ثابت مانا ہے اور اس کے بعد یزید کو بے غبار ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے، یہاں تک کہ اس کے خلاف جہل اور فسق کے دعوے کو بھی رد کردیا ہے۔
علامہ عبد المغیث حنبلی(۵۸۳ھ) کا شمار بھی اسی طبقے میں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے فضائل یزیدکے نام سے باضابطہ ایک کتاب لکھی تھی، جس کا رد علامہ ابن جوزی (۵۹۷ھ) نے الرَّدُّ عَلَی المُتَعَصِّبِ العَنِیدِ المَانَعِ مِن ذَمِّ یَزِیدلکھی۔ عبد المغیث حنبلی سے متعلق ایک واقعہ علامہ ذہبی (۷۴۸ھ) اس طرح نقل کرتے ہیں:
خلیفہ ناصر[۶۲۲ھ] کو جب یہ بات پتہ چلی کہ شیخ عبدالمغیث لعن یزید سے منع کرتے ہیں تو خلیفہ ناصر [ایک عام شہری کی وضع اختیار کرکے]علامہ عبد المغیث کے پاس گیا اور اس سلسلے میں ان سے استفسار کیا۔ خلیفہ کو دیکھتے ہی علامہ عبد المغیث نے پہچان لیا ، لیکن اس بات کو انہوں نے خلیفہ پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ دراصل میرا مقصد مسلم خلفا اور حکام کو لعنت سے بچانا ہے۔اگر ہم یہ دروازہ کھول دیں تو ہمارا خلیفہ خود ہی لعنت کا سب سے بڑا مستحق ٹھہرے گا۔ چوں کہ اس نے بھی بڑے بڑے جرائم کیے ہیں۔ پھر وہ خلیفہ کے مظالم شمار کرنے لگے یہاں تک کہ خلیفہ نے کہا: شیخ میرے لیے دعا کیجیے اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلتا بنا۔
کفر یزید کا مسئلہ
رہا یزید کے کفر کا مسئلہ تو اس سلسلے میں علما تین گروہ میں بٹے ہوئے ہیں۔ایک گروہ تکفیر کا قائل ہے،دوسرا عدم تکفیر کا، جب کہ تیسرا سکوت کا قائل ہے۔
پہلا گروہـ: یزید کی تکفیر کرنے والے علما میںسب سے نمایاں نام امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) کا لیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہنوز تکفیر کے حوالے سے امام احمد کی صراحت راقم کو نہیں ملی، البتہ لعنت کی صراحت ضرورملتی ہے۔ غالباً جواز لعنت کو ہی مد نظر رکھتے ہوئے بعض اہل علم نے امام احمد کی طرف تکفیر کا قول منسوب کیا ہے.
چوں کہ مذہب محقق یہی ہے کہ صرف کفار پر لعنت جائز ہے، اگرچہ علماے اسلام کا ایک طبقہ لعنت کے لیے کفر کو لازم نہیں مانتا، بلکہ لعنتِ فساق کا بھی قائل ہے، تفصیل آگے آتی ہے۔
تکفیر یزید کے سلسلے میں ایک نمایاں نام علامہ محمود آلوسی بغدادی حنفی(۱۲۷۰ھ)کا ہے۔آپ اپنی تفسیر میں انتہائی سخت تیور میں رقم طراز ہیں:
میرا غالب گمان یہ ہے کہ وہ خبیث رسالت محمدی کا قائل نہیں تھا۔ حرم الٰہی اور حرم نبوی کے باشندگان کے ساتھ اس نے جو کچھ کیا اور حیات و بعد وفات نبی کریم ﷺ کی عترت طاہرہ کے ساتھ اس نے جو کچھ کیااور جو کچھ اس کی بدکاریاں ظاہر ہوئیں، یہ سب اس کے عدم ایمان پر دلیل ہے جو گندگی میں اوراق مصحف ڈالنے سے کمتر درجے کا کفر نہیں ہے۔
محدث دہلوی (۱۰۵۲ھ)کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں:
کاش کہ مجھےاس بات کاعلم ہوتا کہ اس قسم کی باتیں کرنےوالےحضورعلیہ السلام کی ان احادیث کا کیا جواب دیتے ہوں گے جواحادیث اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ فاطمہ اوران کی اولاد کی اہانت کرنا اور ان سےبغض رکھنا رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اوران سے بغض وعداوت کا سبب ہےاور اہانت رسول اورعداوت رسول کفر ہے اور نارجہنم میں خلود کاموجب ہے۔ اِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ﴾ [الاحزاب: ۵۸] جنھوں نے اللہ و رسول کو تکلیف پہنچائی ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
دوسرا گروہ: علماے اسلام کا دوسرا گروہ عدم تکفیر کا قائل ہے۔ فی الواقع یہی گروہ اہل سنت کا اکثریتی گروہ ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ اس کا اسلام اصلاً ثابت ہے، رہا کفر تو اس کے لیے یقینی اور حتمی شواہد نہیں ہیں اور ان کے بغیر کسی بھی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔ ملاعلی قار ی حنفی(۱۰۱۴ھ) شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
امام حسین رضی اللہ عنہ[۶۱ھ] کے قتل کا حکم دینا موجب کفر نہیں ہے،کیوں کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک غیر انبیا کا قتل گناہ کبیرہ ہے،مگر یہ کہ کوئی اسے جائز سمجھ لے۔اور یہ مسئلہ امام حسین رضی اللہ عنہ یا ان جیسے لوگوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔پھر یہ کہ قتل کوجائز سمجھنا یہ ایسا امر ہے جس پر صرف اللہ رب العزت ہی مطلع ہو سکتا ہے۔ اس لیے قتل حسین کا معاملہ حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہما کے قتل جیسا ہے۔
تیسرا گروہ: کہا جاتا ہے کہ تکفیر یزید کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ(۱۵۰ھ) سکوت اورتوقف کے قائل تھے۔ فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
ہمارے امام سکوت فرماتے ہیں کہ نہ ہم مسلمان کہیں گے نہ کافر، لہٰذا ہم بھی سکوت کریں گے۔
تاہم راقم السطور امام کے قول توقف کے اصل ماخذ تک پہنچنے سے ہنوز قاصر ہے۔
لعنت یزید کا مسئلہ
یزید پر لعنت کے سلسلے میں بھی علما دو گروہ میں بٹے ہوئے ہیں۔ایک گروہ جواز لعنت کے حق میں ہے جب کہ دوسرا اس کے خلاف۔
پہلا گروہ: امام احمد بن حنبل(۲۴۱ھ)،علامہ خلال(۳۱۱ھ)، قاضی ابویعلی (۴۵۸ھ)، ان کے بیٹے قاضی ابوالحسین(۵۲۶ھ)، ابن جوزی (۵۹۷ھ)، سبط ابن جوزی (۶۵۴ھ)، امام سیوطی (۹۱۱ھ) اور علامہ سفارینی(۱۱۸۸ھ) کے نام اس سیاق میں لیے جاسکتے ہیں۔پھر لعنت کرنے والے سبب لعنت کے سلسلے میں مختلف الرائے ہیں۔
۱-وہ کافر تھا ، اس لیے اس پر لعنت کی جانی چاہیے۔ علامہ سعد الدین مسعود ابن عمر تفتازانی (۷۹۱ھ) اسی کے قائل ہیں۔علامہ موصوف نے شرح عقائد کے اندر تکفیر یزید کے سلسلے میں اختلاف علماکے ذکر کے بعد نہایت شدو مد سے یزید کی تکفیر کی ہے اور اس پر لعنت بھیجی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
بعض علمانے یزید پر لعنت بھیجی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسی وقت کافر ہو چکا تھا جب اس نے امام حسین کے قتل کا حکم صادر کیا تھا۔امام حسین کے قاتل،اس کے قتل کا حکم یا اس کی اجازت دینے والے اور اس سے خوش ہونے والے پر لعنت کے جواز پر علما کا اتفاق ہےاور درست بات یہ ہے کہ قتل حسین سے یزید کی رضا مندی،اس کی وجہ سے اس کی خوشی و مسرت، اس کی طرف سے اہل بیت کرام کی اہانت،یہ ایسی باتیں ہیں جو معنوی لحاظ سے متواتر ہیں،اگر چہ ان کی تفصیلات اخبار آحاد پر مبنی ہیں۔
اس لیے ہم اس کے تعلق سے بلکہ اس کے ایمان کے تعلق سے کوئی توقف نہیں کرتے۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر اور اس کے اعوان و انصار پر۔
۲- وہ بدترین فاسق تھا اور فساق پر لعنت بھیجنا جائز ہے بطور خاص یزید جیسے فاسق پر۔اس سیاق میں ایک بڑا نام علامہ ابو الفرج ابن جوزی (۵۹۷ھ) کا ہے۔علامہ ابن جوزی نے برسر منبر خلیفہ اور علماے اکابر کی موجودگی میں یزید( ۶۴ھ) پر لعنت بھیجی۔ کچھ لوگ مجلس سے ناراض ہوکر چلے گئے۔
علامہ ابن جوزی نے کہا: جس طرح قوم ثمود راندۂ درگاہ ہوئی، اسی طرح اہل مدین بھی محروم و مردود ہوں۔ اس دن علامہ ابن جوزی سے کچھ لوگوں نے یزید کے سلسلے میں استفسار کیاتھا۔ آپ نے فرمایا:
اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے جو تین سالوں تک حاکم رہا اور پہلے سال امام حسین کو قتل کیا، دوسرے سال مدینہ کو دہشت زدہ اور مباح کیا اور تیسرے سال کعبہ پر منجنیق سے حملے کرکے اسے منہدم کردیا۔ لوگوں نے کہا:ہم اس پر لعنت بھیجیں گے۔ علامہ ابن جوزی نے کہا: لہٰذا یزید پر لعنت بھیجو۔
اس کے بعد الرَّدُّ عَلَی المُتَعَصِّبِ العَنِیدِ المَانِعِ مِن ذَمِّ یَزِید کے نام سے آپ نے اس موضوع پر ایک معرکہ آرا کتاب بھی لکھی۔
دوسرا گروہ: جمہور علماے اسلام عدم لعنت کے قائل ہیں جن میں امام غزالی (۵۰۵)، امام ابن صلاح (۶۴۳ھ)، علامہ ابن تیمیہ(۷۲۸ھ)، علامہ ابن حجر ہیتمی(۹۷۴ھ) اور دیگراساطین امت شامل ہیں۔ لیکن عدم لعنت کے یہ معنی نہیں کہ یہ حضرات یزید کو پسند کرتے ہیں۔ یزید کے فسق و فجور سے بیزاری تو سب کے یہاں قدر مشترک ہے۔ پھر جمہور علماے اسلام یزید پر عدم لعنت کے سلسلے میں اتفاق کے بعد عدم لعنت کے اسباب کے سلسلے میں مختلف ہیں:
۱-ایک طبقہ اس لیے عدم لعنت کا قائل ہے؛ کیوں کہ اس کے نزدیک یہ بات ثابت نہیں ہے کہ یزید نے قتل حسین کا حکم دیا تھا۔ امام محمد الغزالی(۵۰۵ھ) رقم طراز ہیں:
اگر کوئی سوال کرے کہ کیا یزید پر لعنت بھیجنا درست ہے، چوں کہ اس نے امام حسین سے جنگ کی یا جنگ کا حکم دیا؟ہم یہ کہیں گے کہ یہ بات اصلاً ثابت نہیں ہے۔ یزید نے امام حسین کو قتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا، یہ کہنا بھی جائز نہیں جب تک یہ بات ثابت نہیں ہوجاتی، چہ جائے کہ اس پر لعنت کرنا جائز ہو؛کیوں کہ کسی مسلمان کی طرف بغیر تحقیق کے گناہ کبیرہ کا انتساب درست نہیں ہے۔ ہاں! یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابن ملجم [۴۰ھ]نے حضرت علی[۴۰ھ] کو قتل کیا اور ابو لولو [۲۳ھ] نے حضرت عمر[۲۳ھ] کو قتل کیا؛ کیوں کہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔ بہرکیف! بلاتحقیق کسی مسلم پر کسی کفر یا فسق کی تہمت جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص دوسرے کو کفر یا فسق سے متصف نہیں کرتا، مگر یہ کہ وہ کفر یافسق خود اسی کی طرف لوٹ جاتا ہے، اگر دوسرا شخص کافر یا فاسق نہ ہواتو۔
۲- دوسرا طبقہ قتل حسین کو یزید کی طرف منسوب کرتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ لعنت کا قائل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ یزید فاسق ہے اور فاسق معین پر لعنت جائز نہیں ہے۔اس فکر کےامام شیخ ابن تیمیہ (۷۲۸ھ) ہیں۔شیخ ابن تیمیہ اپنی معروف کتاب منہاج السنۃ میں رقم طراز ہیں:
یزید اور اس جیسے بادشاہوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سب فاسق تھے اور ہمیں فاسق معین پر لعنت بھیجنے کا حکم نہیں ہے۔البتہ فساق کی مختلف انواع پر لعنت کے سلسلے میں احادیث وارد ہیں۔ مثلاً: لَعَنَ اللّٰهُ السَّارِقَ يَسرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقطَعُ يَدُه۔۔۔ اورفاسق معین پر لعنت کے سلسلے میں علما کا اختلاف ہے۔ فقہاکی ایک جماعت لعنت کی قائل ہے،امام احمد کے بعض اصحاب اور علامہ ابن جوزی وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ ایک جماعت اس کے عدم جواز کی قائل ہے۔ امام احمد کے بعض اصحاب اور دیگر علما مثلاً ابوبکر عبد العزیز[۳۶۳ھ] وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ امام احمد کا مذہب معروف بھی لعن معین کی کراہت کا ہے۔آپ حجاج بن یوسف [۹۵ھ] وغیرہ پر لعنت کو مکروہ کہتے ہیں۔ آپ اسی طرح لعنت کے قائل ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ.
ابن تیمیہ کے دیگر ہم نوا علامہ ذہبی (۷۴۸ھ)وغیرہ بھی اسی فکر کے حامل ہیں۔
۳- تیسرا طبقہ قول کفر کے باوجود لعنت سے احتراز کرتا ہے کہ کیا عجب مرنے سے پہلے اس نے توبہ کرلی ہو۔ چوں کہ علماے اسلام کا ایک طبقہ کافر پر لعنت کے سلسلے میں بھی بہت محتاط ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (۱۰۵۲ھ) فرماتے ہیں:
بعض علماکہتےہیں کہ اس کاخاتمہ معلوم نہیں شایدکہ اس کفرومعصیت کے بعد اس نےتوبہ کرلی ہو یا زندگی کے آخری لمحات میں توبہ کرلی ہو۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی (۱۳۴۰ھ) لکھتے ہیں:
’’ لعنت بہت سخت چیز ہے، ہر مسلمان کو اس سے بچایاجائے بلکہ لعین کافر پر بھی لعنت جائز نہیں جب تک اس کا کفر پر مرنا قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ ۔‘‘
ائمہ مجتہدین کا موقف
قابل ذکر ہے کہ علامہ الکیاالہراسی شافعی(۵۰۴ھ) کے ایک قول سے جسے ابن خلکان (۶۸۱ھ)نے وفیات الاعیان میں نقل کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یزید پر لعنت کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور امام احمد کے دو دواقوال ہیں۔
امام احمد بن حنبل کی ایک روایت لعنت کی ہے جب کہ دوسری عدم لعنت کی۔لعنت کی روایت علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب الرَّدُّ عَلَی المُتَعَصِّبِ العَنِیدِ المَانِعِ مِن ذَمِّ یَزِید میں قاضی ابویعلی حنبلی (۴۵۸ھ) کی کتاب المعتمد فی اصول الدین کے حوالے سے لکھی ہے اور وہ حسب ذیل ہے:
صَالِحُ بنُ أَحمَدَ بنِ حَنبَلٍ یَقُولُ : قُلتُ لِأَبِي : إِنَّ قَومًا يَنسِبُونَنَا إِلٰى تَوَالِي يَزِيدَ، فَقَالَ : يَا بُنَيَّ! وَهَل يَتَوَلّٰى يَزِيدَ أَحَدٌ يُؤمِنُ بِاللّٰهِ،فَقُلتُ: فَلِمَ لَاتَلعَنُہُ؟ فَقَالَ: وَمَتیٰ رَأَیتَنِی أَلعَنُ شَیئاً وَ لِمَ لا يُلعَنُ مَن لَعَنَهُ اللّٰهُ فِي كِتَابِهِ؟ فَقُلتُ :وَأَینَ لَعَنَ اللہُ یَزیدَ فِی کِتابِہِ؟ فَقَرَأَ : فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (محمد : ۲۲-۲۳) فَهَل يَكُونُ فَسادٌ أَعظَمَ مِنَ القَتلِ؟
امام احمد ابن حنبل کے صاحب زادے صالح بیان کرتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے عرض کی:کچھ لوگ ہمیں محبت یزید کا طعنہ دیتے ہیں۔
آ پ نے فرمایا: کیا اللہ پر ایمان رکھنے والا کوئی بندہ یزید سے محبت کرسکتا ہے؟
میں نے عرض کی: پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں بھیجتے؟
آپ نے فرمایا: بھلا کب تم نے مجھ کو کسی پر لعنت کرتے سناہے؟ اور جس پر اللہ نےاپنی کتاب میں لعنت بھیجی ہے، بھلا اس پر لعنت کیوں نہ بھیجی جائے؟
میں نے عرض کی: اللہ نے اپنی کتاب میں کس مقام پر یزید پر لعنت کی ہے؟
آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی برپا کرو گے اور اپنے قریبی رشتوں کو توڑ ڈالو گے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کو اندھا اور بہرا کر دیا ہے۔‘‘ کیا قتل سے بھی بڑھ کر کوئی فساد ہوسکتا ہے؟
امام احمد سے عدم لعنت والی روایت کو شیخ ابن تیمیہ نے منہاج السنہ اور دیگر کتابوں میں نقل کی ہے۔وہ روایت بھی بعینہ اسی انداز کی ہےجسے ابن جوزی نے نقل کی ہے، البتہ وہ یہیں پر ختم ہوجاتی ہے: ’’بھلا کب تم نے مجھ کو کسی پر لعنت کرتے سنا ہے؟‘‘ ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی روایت ہو جس کو بعض لوگوں نے آدھی نقل کردی جس سے عدم لعنت کا مفہوم پیدا ہوگیا جب کہ جنہوں نے پوری نقل کی تو اس سے امام احمد کا پورا موقف ظاہر ہوا اور جواز لعنت ثابت ہوا۔
یہاں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ یزید کے کفر و فسق اور اس پر لعنت کے سلسلے میں علما کے اس قدر شدید اختلاف کے باوجود یہ اختلاف ان علما کے مابین ایک دوسرے کی تکفیر و تضلیل کا موجب نہیں بنا۔ سب نے دلائل کے ساتھ دوسرے کی تردید کی، لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس رد واختلاف کو باہمی تکفیر و تضلیل کا عنوان نہیں بنایا۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ تکفیر ایک تحقیقی مسئلہ ہے اور تحقیقی مسائل میں صبر کا طریقہ اپنایا جاتا ہے، جبر کاطریقہ نہیں اپنایا جاتا۔
(احقر کی قریب الاشاعت کتاب اصول تکفیر سے ماخوذ)