مَا يَفۡتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنۡ رَّحۡمَةٍ فَلَا مُمۡسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمۡسِكۡ ۙ فَلَا مُرۡسِلَ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِه ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 2
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَا يَفۡتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنۡ رَّحۡمَةٍ فَلَا مُمۡسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمۡسِكۡ ۙ فَلَا مُرۡسِلَ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِه ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞
ترجمہ:
اللہ لوگوں کے لئے جو رحمت کھول دے اس کو کوئی بند کرنے والا نہیں ہے اور جس کو بند کر دے تو اس کے بند کرنے کے بعد اس کو کوئی کھولنے والا نہیں ہے اور وہی غالب، حکمت والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ لوگوں کے لئے جو رحمت کھول دے اس کو کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے تو اس کے بند کرنے کے بعد اس کو، کوئی کھولنے والا نہیں ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے اے لوگو ! تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کیا کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمانوں اور زمینوں سے رزق دیتا ہے، اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، سو تم کہاں بھٹکتے پھر رہے ہو اور اگر یہ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں تو آپ سے پہلے کتنے ہی رسولوں کی تکذیب کی گئی ہے اور تمام کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں (فاطر :2-4)
رحمت اور فتح کی متعدد تفاسیر
اس آیت میں رحمت کی متعدد تفسیریں کی گئی ہیں، ایک تفسیر یہ ہے کہ رحمت سے مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ رسولوں کو لوگوں پر رحمت کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے، اور اللہ کے سوا ان کے بھیجنے پر اور کوئی قادر نہیں ہے، دوسری تفسیر یہ ہے کہ رحمت سے مراد بارش اور رزق ہے اور اللہ کے سوا کوئی بارش نازل کرنے یا رزق پہنچانے پر قادر نہیں ہے، اگر اللہ رسولوں کو بھیجے تو کوئی ان کو روکنے والا نہیں ہے اسی طرح جب وہ بارش نازل کرے یا رزق پہنچائے تو کوئی بارش یا رزق کو روکنے والا نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا رحمت سے مراد توبہ ہے، ضحاک نے کہا رحمت سے مراد دعا ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد توفیق اور ہدایت ہے، اس آیت میں رحمت کا لفظ نکرہ ہے اور عام ہے تو رحمت کا لفظ ان تمام معانی کو شامل ہے۔
علامہ ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری المتوفی 465 ھ لکھتے ہیں :
عارفین کے دلوں میں تحقیق کے جو انوار داخل ہوتے ہیں ان انوار کو کوئی بادل چھپا نہیں سکتا، اور اولیاء کے دلوں میں جو یقین ہے، اس کو کوئی زائل نہیں کرسکتا اور اللہ اپنے کامل بندوں کو جو آسانیاں مہیا فرماتا ہے تو کوئی ان آسانیوں کو مشکلات سے تبدیل نہیں کرسکتا۔ (لطائف الاشارات ج ٣ ص 60، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)
اس آیت میں رحمت کے کھولنے کا ذکر ہے اس سے مراد دنیاوی رحمت کا کھولنا بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے :
(الاعراف :96) اور اگر ان بستیوں میں رہنے والے ایمان لے آتے اور گناہوں سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کو کھول دیتے۔ اور اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے دل پر علوم اور ہدایات کو کھول دے اور اس کے اور اس کے بندے کے درمیان جو حجابات ہیں ان کو اٹھا دے، اور درج ذیل آیت کی ایک یہ تفسیر بھی کی گئی ہے :
انا فتحنالک فتحاً مبیناً (الفتح : ١ ہم نے آپ کو فتح مبین عطا فرما دی ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عموماً نمازوں کے بعد جو ذکر فرماتے تھے اس میں بھی اس آیت کے موافق یہ معنی تھا کہ اللہ جو چیز عطا کرے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جس چیز کو وہ روک لے تو اس کو، کوئی عطا کرنے والا نہیں ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ ذکر فرماتے تھے :
لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شیء قدیر اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لمامنعت ولاینفع ذا الجد منک الجد (اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کا ملک ہے اور اس کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ ! جس چیز کو تو عطا کرے اس کو، کوئی روکنے والا نہیں ہے، اور جس چیز کو تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں ہے اور تیرے مقابلہ میں کسی کی کوشش کام نہیں آسکتی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :844 صحیح مسلم رقم الحدیث :471، سنن الترمذی رقم الحدیث :298)
اللہ کی نعمت کو یاد کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا
اس کے بعد فرمایا : اے لوگو ! تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کیا کرو۔
اس کے معنی ہے اس نعمت کا شکر ادا کرتے رہو، تاکہ وہ نعمت تمہارے پاس ہمیشہ رہے اور نعمت میں اضافہ ہوتا رہے کیونکہ نعمت کا شکر ادا کرنے سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے جب بھی اس نعمت کا ذکر کرو تو یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ کے لئے حمد ہے جس نے ہم کو ہمارے کسی استحقاق کے بغیر یہ نعمت عطا کی ہے، اور اس نعمت کی رعایت اور حفاظت کرو، اللہ تعالیٰ نے جس کام میں اور جس محل میں صرف کرنے کے لئے وہ نعمت عطا کی ہے اس نعمت کو اسی کام میں اور اسی محل میں خرچ کرو، اس نعمت کو اس کے محل اور صحیح مصرف کے عالوہ خرچ نہ کرو، اور نہ کسی گناہ اور ناجائز کام میں خرچ کرو۔
نیز فرمایا : کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمانوں اور زمینوں سے رزق دیتا ہے !
آسمانوں سے رزق دینے سے مراد ہے بارش نزل فرمانا اور زمین سے رزق دینے سے مراد ہے زمین سے اناج، غلہ اور پھل وغیرہ پیدا کرنا۔
اس آیت کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان کو یہ کامل یقین ہوجائے گا کہ اللہ کے سوا کوئی رازق نہیں ہے، تو کسی بھی چیز کو طلب کرنے کے لئے اس کا دل اللہ کے غیر کی طرف متوجہ نہیں ہوگا، نہ وہ کسی کے سامنے جھکے گا اور عاجزی کرے گا اور حق بات کہنے میں وہ کسی سے نہیں ڈرے گا اور اپنی طبیعت اور مزاج اور خلاف شرع کام کرنے میں وہ کسی کی اطاعت اور موافقت نہیں کریگا۔
پھر فرمایا : اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، سو تم بھٹکتے پھر رہے ہو !
یعنی تم توحید کو چھوڑ کر شرک کی وادی میں کیوں بھٹک رہے ہو اور اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کے کیوں در پے ہو ! اس کے بعد فرمایا، اگر یہ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں تو آپ سے پہلے کتنے ہی رسولوں کی تکذیب کی گئی ہے اور تمام کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ (فاطر : ٤)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا
اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ فکار کا عطن وتشنیع کرنا اور دل آزار باتیں کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، آپ اس پر رنج اور افسوس نہ کریں اور جس طرح پہلے انبیاء نے کفار کی باتوں پر صبر کیا تھا آپ بھی صبر کریں۔
عقائد اسلامیہ کے تین اصول ہیں، توحید، رسالت اور آخرت، اس سے پہلی آیت میں توحید کا ذکر تھا اور اس آیت کے پہلے حصے میں رسالت کا ذکر ہے اور اس کے آخری حصہ میں آخرت کا ذکر ہے، کیونکہ فرمایا اور تمام کام اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 2
اس آیت کے مطابق دنیاوی پیروں فقیروں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کریں،پکاریں
مفتی صاحب جو سمجھ آئی عمل کریں آپ کا اسلام آپ کے گھر کا