میٹرک سسٹم، کیمبرج سسٹم اور درسِ نظامی
میٹرک سسٹم، کیمبرج سسٹم اور درسِ نظامی
اگر آپ میٹرک سسٹم اور کیمبرج سسٹم ( او لیول / اے لیول ) کے مابین فرق نہیں جانتے تو آگے بڑھنے سے پہلے اسے سمجھ لیں اس کے بعد ہم درسِ نظامی پر بات کریں گے۔
او لیول ہمارے میٹرک کے برابر، جبکہ اے لیول، ایف ایس سی کے برابر ہوتا ہے۔
تفصیل میں جائے بغیر اگر موٹی سی بات کریں تو پڑھائی اور نصاب کے اعتبار سے میٹرک اور کیمبرج سسٹم میں کچھ خاص فرق نہیں۔ البتہ امتحانی نظام کے اعتبار ان دونوں میں فرق ہے۔
میٹرک سسٹم میں ( عموماً ) یادداشت کا امتحان لیا جاتا ہے اور کیمبرج سسٹم میں فہم کا۔
مثلا
طلبہ نے جسم کے حصوں کے نام یاد کر لیے۔ اب اس کا امتحان لینا مقصود ہے تو میٹرک سسٹم میں سوال کچھ ہوگا :
س: جسم کے کوئی سے دس حصوں کے نام لکھیے۔
غور کیجیے، اس میں محض یادداشت کا امتحان ہے۔
طالب علم بلا سمجھے رٹا مار کر بھی لکھ دے تب بھی پاس ہو جائے گا۔
درس نظامی میں بھی عموماً اسی طرز پر امتحان لیا جاتا ہے۔
اب آئیے او لیول کی جانب، او لیول میں یہی سوال کچھ یوں ہو گا :
انسانی جسم کا خاکہ بنا ہوگا۔ ایک جانب جسم کے حصوں کے نام پہلے سے لکھے ہوں گے۔ اور طالب علم سے کہا جائے گا
س: لکیر کھینچ کر ناموں کو جسم کے حصوں سے ملائیں۔
جماعت کے اعتبار سے یوں بھی ہو سکتا ہے کہ جسم کے حصوں کے نام ایک جانب کسی خانے میں لکھے ہوں اور طالب سے کہا جائے
س: درج ذیل خانے سے جسم کے حصوں کے نام لے کر اعضاء پر لکھیے۔
بہر دو صورت اس طریقے میں محض فہم کا امتحان لیا جا رہا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس نظام کے تحت لیے جانے والے امتحان میں جوابات پہلے سے لکھے ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات درست جوابات کے ساتھ کچھ ایسے غلط جوابات بھی لکھے ہوتے ہیں جن پر درست ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ کثیر الانتخابی سوالات (MCQs)۔
رٹا کلی طور پر مضر نہیں۔
میٹرک سسٹم کو عموماً رٹا سسٹم کا طعنہ دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں حفظ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو حفظ اور فہم دونوں کی اپنی اپنی ایک اہمیت ہے، کسی ایک کا بھی انکار ممکن نہیں۔
اگر آپ کو کچھ یاد ہی نہ ہو تو آپ محض فہم کے سہارے کوئی بڑا تیر نہیں مار سکتے۔ یونہی یاد تو سب کچھ ہے لیکن سمجھا نہیں تب بھی کچھ زیادہ فائدہ نہیں۔
ریاضی یا اس جیسے دیگر علوم کو سمجھے بغیر یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور تاریخ یا ادب جیسے علوم کو یاد کیے بغیر محض سمجھ لینا کافی نہیں۔
یوں دونوں کی اپنی اپنی ایک اہمیت دکھائی دیتی ہے۔ لہذا ہم رٹے کو کلی طور پر مضر نہیں کہہ سکتے۔ یہی رٹا مستقبل میں اچھی فہم کی بنیاد بن سکتا ہے۔
حفظ کی صلاحیت اور ہمارے اسلاف :
ماضی میں ہمارے اسلاف اپنے شاگردوں کو پہلے مختصر متن یاد کرواتے تھے اور اس کے بعد شرح کی صورت میں اس کی تفہیم کرواتے تھے۔ اور اسی طریقے کی بدولت فنون کے بڑے بڑے امام پیدا ہوئے ہیں۔
یوں دینی علوم میں حفظ کو ایک خاص مقام حاصل ہے، جیسا کہ حفظ القرآن ۔ اگرچہ سمجھ کر پڑھنا ہی افضل ہے لیکن حفظ کی اپنی ایک فضیلت وبرکت ہے جس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا۔
دیکھا جا رہا ہے کہ کیمبرج سسٹم کے عادی افراد حفظ القرآن کے بارے میں دبے دبے الفاظ میں کہنے لگے ہیں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ( العیاذ باللہ ).
حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اسلاف نے حفظ کی اسی طاقت کے بل بوتے پر کثیر تصانیف بطور یادگار چھوڑیں جبکہ ان کے پاس کوئی دوسری کتاب حوالے کے لیے موجود نہ تھی۔
درسِ نظامی میں پڑھائی جانے والی علم الصرف کی مشہور کتاب علم الصیغہ علامہ عنایت احمد کاکوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے جزائد انڈومان کے قید خانے میں لکھی۔
علامہ فضل حق خیر آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے الثورۃ الہندیۃ اور قصائد فتنہ الہند قید کی حالت میں لکھیں۔
اور سب سے بڑھ کر امام سرخسی رحمہ اللہ تعالیٰ کی المبسوط۔ 30 مجلدات پر مشتمل یہ عظیم الشان تصنیف قید خانے میں جس تکلیف کے عالم میں لکھوائی گئی اس کا تذکرہ پڑھ آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔
غرض کہ تلاش کریں تو ایک فہرست ایسے علماء کی ملے گی۔ چونکہ اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں اس لیے یہیں ختم کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے چاہا تو اس پر کسی اور تحریر میں بات کریں گے۔
درس نظامی
اب آتے ہیں درس نظامی کی جانب۔ مندرجہ بالا دونوں نظاموں کا فرق جاننے کے بعد آپ کیا سمجھتے ہیں؟ درس نظامی کو میٹرک سسٹم کے قریب کہا جائے یا کیمبرج سسٹم کے؟
میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگرچہ درسِ نظامی کا نصاب میٹرک سسٹم سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی وجہ ہمارا اندازِ تدریس اور امتحانی نظام ہے۔ درحقیقت اس نصاب میں دونوں نظاموں کی خوبیاں موجود ہیں:
متون پر نظر کی جائے تو درس نظامی کا نصاب میٹرک سسٹم سے قریب دکھائی دیتا ہے اور شروحات کو دیکھیں تو کیمبرج سسٹم کے۔
اگر ہم طریقہ تدریس وامتحانی نظام میں کچھ تبدیلی کر دیں تو درس نظامی پڑھاتے ہوئے میٹرک اور کیمبرج دونوں نظاموں کی خوبیوں سے پوری طرح مستفید ہو سکتے ہیں۔
پہلی تبدیلی :
ہر فن کا کم از کم ایک مختصر اور جامع متن حفظ کروانا شروع کر دیں۔
بادئ النظر میں یہ ناممکن جیسا مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔ متون کو شروحات اور حواشی سے الگ کریں تو گنتی کے چار پانچ صفحات بنتے ہیں۔ مثلا مائۃ عامل، تہذیب المنطق، مناظرہ رشیدیہ اور العقائد وغیرہ۔ آدھا صفحہ روزانہ یاد کروائیں تو دس دن میں یاد ہو سکتا ہے۔ یوں سال بھر میں ایک دو متون کا حفظ بالکل بھی مشکل نہیں۔
طلبہ کو ترغیب دلائیں، حفظ متون کے مقابلے منعقد کروائیں اور کامیاب طلبہ کو انعامات سے نوازیں تو بچے خود اس جانب راغب ہو جائیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم کام شروع کرنے سے پہلے ہی اس کے بارے میں فرض کر لیتے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ اس سوچ کو ختم کر دیں تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔
متن یاد ہونے کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ کتاب شروع کرنے سے پہلے طالب علم کے ذہن میں پوری کتاب کا خلاصہ موجود ہوگا۔ اگر کسی وجہ سے شرح مکمل نہیں ہو پاتی ( جیسا کہ عموماً ہوتا ہے ) تب بھی کتاب کا مفہوم کسی حد تک طالبِ علم کے ذہن میں باقی رہے گا۔
دوسری تبدیلی :
ابتدائی درجات سے ہی ہفتہ وار بنیادوں پر جماعت میں ہفتے بھر کی پڑھائی کا ٹیسٹ لیں اور ریکارڈ مرتب کریں۔ ہفتے میں ممکن نہ ہو تو پندرہ دن یا کم از کم مہینے میں تو ضروری ہے۔
ٹیسٹ ہو یا امتحان خیال رہے کہ سوالات کو ایسے انداز میں مرتب کیا جائے کہ محض یادداشت کا امتحان نہ ہو فہم ( اور صلاحیت ) کا امتحان بھی لیا جائے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ درسِ نظامی کے لیے فہم اور صلاحیت کا امتحان لینے کے لیے سوالات کیسے بنیں گے؟
اس کا جواب بہت تفصیلی ہے۔ اور اس پر تقریبا 100 صفحات کا ایک سلسلہ گزشتہ برس لکھا تھا۔ اس کا مطالعہ فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ اس رسالے کے مطالعے پر لگایا گیا وقت بے کار نہیں جائے گا۔
https://www.facebook.com/groups/almudarris/permalink/2735543496556941
یوسف جمال
26 محرم الحرام 1442ھ