ذہانتوں کا ترک وطن
ذہانتوں کا ترک وطن:
نصف صدی ادھر کی بات ہے کہ امریکہ کو سات سمندر پار اور کینیڈا کو کالے کوسوں سمجھا جاتا تھا ۔60 کے عشرے میں گنے چنے لوگ ہی بیرون ملک جایا کرتے تھے ۔
70 کی دھائ میں گوروں کے دیس جانے والوں کی تعداد میں تھوڑا اضافہ ہو ا،لیکن ایک بہت بڑی تبدیلی مشرق وسطی کے حوالےسے آئ، شرق اوسط کے ممالک میں روزگار کے دروازے کھلے اور سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں نے عرب ممالک کا رخ کیا، ہر دوسرے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد عرب ممالک میں اپنی ہنر مندیوں کے چراغ جلانے پہنچ گیا ۔اس طرح گھر والوں کو اپنے کسی ایک بیٹے کی جدائی کے عوض خوشحالی میسر آ گئ اور حکومت پاکستان کو زر مبادلہ!
گویا راوی چین ہی چین لکھتا تھا ۔
شاید ہی کسی حکومت نے درد مندی سے یہ سوچا ہو کہ اگر ہنر مندی اور ذہانت اسی طرح ترک وطن کرتی رہیں تو ملکی صلاحیتوں کا کیا ہو گا ۔
80 کے عشرے میں فارغ التحصیل نوجوانوں کی کھیپ کی کھیپ نے ملک چھوڑنا شروع کر دیا، یہ وہ نوجوان تھے جن کے لئے اپنے ملک میں روزگار کے مواقع نہیں تھے ۔ملک کی باگ دوڑ نا اہل سے نا اہل تر کی طرف منتقل ہوتی رہی جن کی ترجیحات میں نہ تعلیم و تحقیق شامل تھی اور نہ برین ڈرین کو کم کرنے کے لیے اقدامات ۔
میرٹ کا قتل ہوتا رہا۔۔۔نا اہل عہدوں پر براجمان ہونے لگے اور لائق افراد ترک وطن پر مجبور ہوئے ۔جانے والوں میں جو لوگ مادی آسایشوں اور بہتر معیار زندگی quality life کےلئے گئے، یہ ان کی اپنی چوائس تھی لیکن جو لوگ مجبورا اس لئے گئے کہ وطن عزیز میں ان کے لئے روزگار کے مواقع نہیں تھے، ان کی ذمہ دار ہر حال میں حکومت وقت ہی کو گردانا جائے گا ۔
90 کی دہائی کے بعد تو تو چل میں آیا ۔
گرین کارڈ اسٹیٹس سمبل بن گیا ۔یہاں تک کہ شادی کے لئے بھی سب سے بڑی “فضیلت ” گرین کارڈ ہی ہو گیا ۔
ایک طرف تو قانونی طور پر جانے والے تھے، دوسری طرف غیر قانونی تارکین وطن کی ایسی ہوا چلی کہ کتنے ہی اشیانے برباد ہو گئے ۔
اب تو صورت حال یہ ہے کہ بچوں کے ہاتھ میں ڈگری آئ نہیں کہ والدین نے انہیں مزید تعلیم یا ملازمت کے لیے باہر بھیجنے کےلئے پاپڑ بیلنے شروع کر دیئے ۔
نوجوان کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، انہیں ملک ہی میں روکنے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے ۔خاص طور پر پڑھے لکھے اعلی دماغوں کو ۔
موجودہ حکومت اگر اس حوالےسے سنجیدہ ہو تو سب سے پہلے ایک سروے کرائے تاکہ درست اعداد و شمار جانے جا سکیں کہ ہمارے ملک سے پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد کس تعداد میں باہر جا رہے ہیں ۔جب تک ایسی کوئی رپورٹ مرتب نہیں کی جاتی، مسئلہ کی ہولناکی کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔
سروے رپورٹ کو دیکھتے ہوئے پھر دوسرا قدم اٹھایا جا سکتا ہے مثلا باہر جانے والوں کا کوٹہ مقرر کر دیا جائے کہ ہر سال اتنے ڈاکٹر اور اتنے انجینئر ہی ملک سے باہر جا سکیں گے ۔۔۔۔۔یا یہ کہ ایک معینہ مدت کے لیے انہیں پاکستان کو سرو کرنا ہو گا ۔
پھر جنہیں کوٹہ کے تحت روکا جائے ان کےلئے ملک میں گنجائش بھی پیدا کی جائے ۔ باہر جانے والوں کو بھی یہ سمجھانا ضروری ہے کہ ان پر اپنے ملک کا بڑا حق ہے، بھاری تنخواہیں اور اعلی سہولیات سے پرے قومی اور سماجی ذمہ داری بھی اہمیت رکھتی ہے ۔
نگار سجاد ظہیر