بروز قیامت جوابدہی کیوں
اعتراض: انسان کا خیر یا شر کو اختیار کرنا پہلے سے ہی تقدیر میں لکھا جاچکا تھا تو پھر اس اختیار کے بارے میں بروز قیامت جوابدہی کیوں؟
الجواب: معترض نے کہا کہ جب سب کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے تو پھر بروز قیامت جوابدہی کیوں ، معترض کی اس بات کا دار ومدار اس مفروضہ پر قائم ہے کہ ’’انسان کے عملِ خیر یا شر کے تقدیر میں لکھے جانے سے انسان وہی عمل کرنے کا پابند ہو گیا ‘‘ ، معترض کا یہ مفروضہ ہی غلط ہے ، یہ اعتراض تقدیر کے معنی و مفھوم سے ناآشنائی کے باعث پیدا ہوا، اگر تقدیر کا درست مفھوم معلوم ہوجائے تو اس طرح کے شبہات وہیں دم توڑ جائیں گے۔
تقدیر کا مطلب ہے ’’علم اللہ السابق‘‘ یعنی جو کچھ ہونا تھا وہ اللہ تعالی کے علم ازلی میں موجود تھا اور اس نے ویسا ہی مقدر فرما دیا جیسا وقوع پذیر ہونا تھا ، یہ مطلب نہیں کہ جو اس نے لکھ دیا ہم وہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔
جیسا کہ مدارس اسلامیہ میں علم الکلام کی متداول کتاب فقہ اکبر میں درج ہے :
(وکان اللہ تعالی عالما في الأزل بالأشیاء قبل کونہا )
’’ترجمہ: اللہ تعالی اشیاء کے ہونے سے قبل ہی ازل میں ان کے ہونے کا علم رکھتا ہے۔‘‘
امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
(واعلم : أنّ مذہب أھل الحق إثبات القدر ومعناہ: أنّ اللہ تبارک وتعالی قدّر الأشیاء في القدم وعلم سبحانہ أنّہا ستقع في أوقات معلومۃ عندہ سبحانہ وتعالی وعلی صفات مخصوصۃ فہي تقع علی حسب ما قدّرہا سبحانہ وتعالی )
ترجمہ: اللہ تعالی نے اشیاء کو ازل میں ہی مقدر فرما دیا کیونکہ ان اشیاء کا وقوع وقت مخصوص پر ہونا اللہ تعالی کے علم میں تھا پس ان اشیاء کا وقوع عین اسی طرح ہوا جس طرح اللہ تعالی نے اپنے علم کے مطابق انہیں مقدر کیا تھا۔
(”شرح النووي”، کتاب الإیمان، ج۱، ص۲۷)
یہاں امام خطابی نے بہت خوبصورت بات کہی، آپ فرماتے ہیں:
’’ قال الخطابي: وقد یحسب کثیر من الناس: أنّ معنی القضاء والقدر إجبارُ اللہِ سبحانہ العبد وقہرہ علی ما قدرہ وقضاہ ولیس الأمرکما یتوہمونہ، وإنّما معناہ الإخبار عن تقدم علم اللہ سبحانہ وتعالی بما یکون من اکتساب العبد وصدورہا عن تقدیر منہ ‘‘
ترجمہ: بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تقدیر کا معنی ہے ’’اللہ تعالی کا بندے کو اس پر مجبور کر دینا جو اس نے مقدر کر دیا ہے‘‘ حالانکہ بات یوں نہیں جیسا وہ خیال کرتے ہیں، بلکہ تقدیر کا معنی ہے اللہ تعالی کا اپنے علم ازلی سے اس شیء کی خبر دینا جس کا انسان کسب کرے گا اور اس کا انسان سے صدور ہو گا ‘‘
(تفسیر خازن جلد4 صفحہ 223)
اسی بات کو بہار شریعت میں صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ نہایت سھل انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ ‘‘
سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ تقدیر پر ہونے والے اسی طرح کے ایک شبہے کا الزامی جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
(معترض بر تقدیر کو) کوئی جوتا مارے تو کیوں ناراض ہوتا ہے، یہ بھی تو تقدیر میں تھا۔ اس کا کوئی مال دبالے تو کیوں بگڑتا ہے، یہ بھی تقدیر میں تھا۔ یہ شیطانی فعلوں کا دھوکا ہے کہ جیسا لکھ دیا ایسا ہمیں کرنا پڑتاہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے اُس نے اپنے علم سے جان کر وہی لکھا ہے۔ یہ ابلیس ملعون کا دھوکا ہے جو بددینوں کو دیا کرتا ہے علم کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ عورت زنا کرنے والی تھی اس لیے اس کا یہ آئندہ حال اس نے اپنے علم غیب سے جان کر لکھ لیا۔ اگر وہ حلال کرنے والی ہوتی تو اسے حلال والی ہی لکھا جاتا۔
(فتاوی رضویہ جلد29 صفحہ 285)
معلوم ہوا کہ تقدیر اللہ تعالی کا علم ازلی ہے اور علم کسی کو مجبور نہیں کیا کرتا۔ لہذا بروز قیامت ہم جن اعمال کے جوابدہ ہوں گے وہ ہم نے اپنے اختیار سے کیے ہونگے۔
نوٹ: انسان نہ مجبور محض ہے نہ مختار کل۔
✍️فقیرالمصطفی
03/10/2019