انبیا علیھم السلام نے جو کافروں کے خلاف ہلاکت کی دعا کی تھی ، اُسے ” بددعا ” کہنا
بعض اہل علم اصرار کرتے ہیں کہ:
” انبیا علیھم السلام نے جو کافروں کے خلاف ہلاکت کی دعا کی تھی ، اُسے ” بددعا ” کہنا درست نہیں ، کیوں کہ بددعا
میں لفظِ ” بد” پایا جاتا ہے ، جس کا استعمال ناجائز اور گناہ ہے ۔ “
اس سلسلے میں عرض ہے کہ:
لفظِ بددعا پر دعاے ضرر کو ترجیح دینا ، اور بددعا کو گناہ پر محمول کرنا بلا دلیل ہے ۔
بددعا باقاعدہ ایک لفظ ہے ، جس کا اردو میں اطلاق اللہ ﷻ سے مانگی جانے والی اُس دعا پر ہوتا ہے جو کسی کے نقصان یا سزا کے لیے کی جائے ۔
اب اس سے ” بد ” کو الگ کرکے نئے معنے اخذ کرلینا کیسے درست ہوگیا !!
اس طرح اگر آدھے آدھے لفظ سے معنی آفرینی کی جائے تو بات بہت دور تک چلی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے تو آپ کا مختار: ” دعاے ضرر ” بھی نہیں بچ پاتا ، کیوں کہ یہ بھی ” ایذا ” کے معنے سے خالی نہیں ۔
انبیا علیھم السلام کی بعض دعاؤں کو کثیر علماے اہل سنت لفظِ بددعا سے تعبیر کرتے آئے ہیں ، اور اسے کسی قسم کی عُرفی و معنوی بے ادبی بھی قرار نہیں دیا ۔
فتاوی رضویہ شریف کی تئیسویں جلد کے ، صفحہ دو سواٹھارہ پر سیدی اعلی حضرت نوراللہ مرقدہ جیسے مودب نے بھی سیدنا موسی علیہ السلام کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہے ۔
اس لیے اگر کوئی اردو خواں اِسے استعمال کرتا ہے تو اس پر جھٹ سے مرتکبِ ناجائز و گناہ کا فتوی نہیں
لگادیناچاہیے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
✍️لقمان شاہد
9-10-2020 ء