دیوبندی حضرات سے گزارش
دیوبندی حضرات سے گزارش
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مجالس میلاد النبی ﷺ کا انعقاد حسنِ نیت سے کیا جاتا رہا ہے، مطلوب و مقصود تو حصولِ خیر و برکت ہی ہوتا ہے۔ فی زمانہ اس میں جو بدعات بشکل لہو و لعب، پہاڑیاں بنانا، میوزک، بے پردگی، شریعت سے تصادم وغیرہ سے اہل سنت کو ہرگز کچھ تعلق و حمایت نہیں ہے۔ بلاد عرب کے سنی اکابر سے لے کر برصغیر ہند و پاک کے علماء تک سب ہی یہ مجالس مکمل ادب، احترام اور تزک و احتشام سے منعقد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہلاء کی عاداتِ بد، أفعال مکروہہ سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں، بلکہ اس مقدس عنوان پر اگر دلیل لینا دینا چاہتے ہیں تو اس پر ہمارے اکابر علماء کی آراء، اقوال اور معمولات کو میرٹ بنایا جائے، نہ کہ گلیوں میں ناچ بھنگڑا کرنے والوں کو بطور دلیل و مثال پیش کیا جائے۔ اپنے کھانے کے لیے ایک حلال جانور ذبح کرنے کے بعد اس کے جسم میں موجود مکروہ أجزاء و أعضاء ضائع کر دیے جاتے ہیں اور فقط حلال ہی کھایا جاتا ہے، ایسے ہی میلاد النبی ﷺ کے عنوان پر فقط جو حلال ، مستحب اور مباح اعمال ، عادات اور اشغال ہیں انہیں ہی میرٹ بنایا جائے گا۔ دیوبندی مکتب کے معروف بزرگ شیخ اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں؛
“اس محفل کا اصل کام ذکر رسول ﷺ تو سب کے نزدیک خیر و سعادت اور مستحب ہی ہے، البتہ اس میں جو منکرات اور غلط رسمیں شامل کردی گئیں ہیں ان کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے، اصل امر محفل مستحب کو ترک نہیں کرنا چاہیے اور یہ دراصل ہمارے حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا مسلک تھا، حضرت کی غایت شفقت و عنایت اور محبت کے سبب میرا بھی یہی ذوق تھا اور یہی عام طور پر صوفیائے کرام کا مسلک ہے، حضرت مولانا رومی بھی اسی کے قائل ہیں، انہوں نے فرمایا :
بہر کیکے تو گلیمے را مسوز”۔
تو صاحبو! ہم بھی یہی کہتے آئے ہیں کہ میلاد شریف کی محافل میں نیت کی اصلاح درکار ہے۔ حصول برکت و سعادت ہی اصل بات ہے۔ پھر شیخ تھانوی صاحب نے اسی عبارت میں اکابرین اسلام کا مسلک بھی بیان کر دیا ہے۔ لہٰذا موجودہ دور کے دیوبندی حضرات کو چاہیے کہ اکابر کی اطاعت میں 12 ربیع الأول شریف کے دن مجلس ذکر ولادت، درود و سلام اور سیرت مبارکہ کا اہتمام کریں، نہ کہ اس آڑ میں مستحب و مباح اعمال کا ہی رد و انکار کرنا شروع کر دیں، بلکہ موجودہ دور کے شدت پسند دیوبندی حضرات تو اسے مکمل بدعت، حرام اور شرک تک قرار دینا شروع ہو گئے ہیں حالآنکہ اس مقدس مسئلہ میں یہ شدت ان کے اپنے اکابرین کے معمولات سے ہی متصادم ہے۔ آئیے اس مقدس تہوار میں شامل ہونے والی بدعات کا رد کریں، مستحبات پر عمل کریں، محمد مصطفٰی ﷺ کی ذات والا صفات اور ان کی محبت نکتہ اتحاد ہے۔ ضروری ہے کہ ہم علاقائی، گروہی اور فروعی جھگڑوں سے نکل کر پوری قوت، طاقت اور حدت کے ساتھ یومِ میلاد مصطفٰی ﷺ منا کر دنیا کو پیغام دیں کہ ہم محبت رسول ﷺ میں ایک بھی ہیں اور حسبِ ضرورت ہم محمد مصطفٰی ﷺ کی ناموس و عظمت کی خاطر شدت پسند بھی ہیں۔
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
18 اکتوبر 2020
MeeladMustafa #LetsCelebrateMeelad #Unity
IHRizvi