السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوال ۱ مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ پیری مریدی اسلام میں کتنی ضروری ہے۔

سوال ۲ مرید کو اپنے پیر صاحب سے کیا فیض لینا چاہیے۔اور ۔ پیر صاحب کواپنے مریدکو کیا فیض دیں تاکہ مرید راہ راست پر آے

سوال ۳ جو پیر صاحب اپنے مریدوں کی تعداد اور اپنے لیے دولت بڑھانے میں لگے ہوں تو مرید کو ایسے پیر صاحب کے ساتھ کیا کرنا چاہئے

سوال ۴ مرید اپنے پیر صاحب کی سیرت کا مطالعہ کرے یا رسول اللہ کی سیرت کا مطالعہ کرے کیونکہ جس شخصیت کی سیرت کا مطالعہ کیا جاتا ہے اسی کی محبت دل اترتی ہے

سوال ۔

۵ کوئی مرید سے کہے تمہارا حال کیسا ہے مرید کا یہ کہنا کہ پیر صاحب کا کرم ہے کیسا ہے

سائل نورالهدى ڈینگرپور مراداباد

┄┅═❁🌼🌹🌼❁═┅┄

🌹وعـلـــيــكـــم الــســلام ورحــمــة الـلـه وبــركـاتـــه

┄┅═❁🌼🌹🌼❁═┅┄

🌹بــســم الــلــه الـــرحــــمــــن الــــرحــــــــــــــيــــــــــــــــــــــم.

📚الــــجــــــواب بـــعــون الـلـه

الــعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لــلـــحـــق و الـــــــصـــــــــواب :

1️⃣مروجہ رسمی بیعت تو عموماً ایک نفع بخش کاروبار اور بنامِ دین لوٹ کھسوٹ کا ایک دھندہ ھے.

ھاں صوفیاء کرام اور اھلِ طریقت نے بیعت کے جو شرائط و آداب بیان فرمائے ھیں ان کی رعایت کی جائے ھو تو نسبت قائم کرنے اور روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے یہ بیعت ایک مستحب و مستحسن عمل ھے، فرض و واجب نہیں .

اور اگر یہ بیعت عقائد و مسائل سیکھنے کے لیے ھو تو کبھی فرض، کبھی واجب ،کبھی سنت اور کبھی مستحب ھوتی ھے.

ھاں اس بیعت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کسی کے ھاتھ میں ھاتھ دیا جائے، بلکہ یہ بیعت خواہ مرشد خاص یعنی جامع شرائط شخصیت کے ھاتھ پر ھو یا مرشد عام یعنی کتاب و سنت و اجماع امت و سواد اعظم و قیاس شرعی و عقل صحیح سے مستنبط و ثابت عقائد و احکام و مسائل پر مضبوطی سے گامزن رھنے کی صورت میں ھو.

2️⃣پیر مرید کو دین سکھائے اور مرید پیر سے دین سیکھے. یہی سب سے بڑا فیض ھے.

3️⃣پیر دین سکھانے کے لیے مریدین کی تعداد بڑھائے تو مریدین کو مدد کرنا چاھیے اور بے ضرورت دنیا کمانے کے لیے ایسا کرے تو ھاتھ کھینچ لینا چاھیے.

4️⃣سچے پیر کی سیرت رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم کی سیرتِ طاھرہ کا عکس ھوتی ھے، سچا پیر رسول اکرم صلي الله تعالي عليه وسلم کے علم و حکمت کا وارث ھوتا ھے، سچا پیر رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم کی سیرت کا امین و داعی ھوتا ھے ،سچا پیر رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم کی سیرتِ طاھرہ کا محافظ و مبلغ ھوتا ھے، سچے پیر کی سیرت کا مطالعہ کیے بغیر رسول اکرم صلي الله تعالي عليه وسلم کی سیرت پاک کے مطالعہ کی بات جنون و دیوانگی، جہالت و بیگانگی، شیطنت و آوارگی اور ابلیسی فریب و وھابیائی ڈگڈگی کے سوا کچھ نہیں ھے.

آخر ایسے مجانین سے کوئی پوچھے کہ رسول اکرم صلي الله تعالي عليه وسلم کی سیرتِ طیبہ طاھرہ دنیا بھر میں پہنچانے والا کون ھے؟ اسے روایت کرنے والا کون ھے؟ اسے محفوظ کرنے والا کون ھے؟ اسے امانت عظمیٰ جان کر حرزجاں بنانے والا کون ھے؟ سیرت پاک کے جواھر پاروں سے امت کو آشنا کرانے والا کون ھے؟ جواب صرف اور صرف یہ ھے کہ وہ سچا پیر ھے. اور سچا پیر کسی خانقاہ میں بیٹھا جیب کا وزن ناپنے والا جبے قبے میں ملبوس سجا بنا جاھل مسند نشین نہیں ھوتا ، بلکہ سچا پیر عالم ربانی ھوتا ھے، وقت کا امام و فقیہ ھوتا ھے، حدیث و تفسیر کے معارف و علوم کا دانا ھوتا ھے، کسی اسلامی درسگاہ کا ذی علم مدرس و معلم ھوتا ھے. اور علوم اسلامیہ کا ماھر، کتاب و سنت کا شناور اور اسلاف کی تعلیمات و معمولات کا عالم و عامل اور امین و پاسبان ھوتا ھے، ایسے سچے پیر کی سیرت کے مطالعہ کے بغیر سیرتِ رسول اکرم صلي الله تعالي عليه وسلم کا مطالعہ ممکن ھی نہیں ھوتا، اس قسم کے شیخ کی سیرت کو جس قدر، جتنے قریب سے اور جس گہرائی و گیرائی سے پڑھا جاتا مطالعۂ سیرت کے ابواب کھلتے چلے جاتے اور انوار و تجلیات کا افاضہ ھوتا جاتا ھے .

5️⃣مریدِ صادق شیخِ کامل کو رب کی نعمت اور فضلِ الٰہی کا مظہر جانتا ھے، لہذا مرید اگر شیخ کا شکرگزار ھوکر اس کے فیوض و برکات کا چرچا کرتا ھے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ھے. نبی کریم صلی الله تعالي عليه وسلم ارشاد فرماتے ھیں :

من لم يشكر الناس لم يشكر الله. (جامع ترمذي ،حديث نمبر 1955)

یعنی جو لوگوں کا شکر گذار نہیں ھوا وہ الله تعالى کا شکر گذار نہیں ھوسکا .

ھاں جاھل و گنوار اور مبتدع و غلط کار ھے وہ شخص جو اٹھتے بیٹھتے ھرخیر و عطا، فضل و کرم، نعمت و دولت، صحت و عافیت اور مال و اولاد کی نسبت کسی پیر و بزرگ کی جانب کرتا ھے، اور بات بات پہ کہتا ھے کہ یہ فلاں بزرگ کی عطا ھے، یہ فلاں ولی کا فیضان ھے اور یہ فلاں پیر صاحب کا صدقہ ھے، کبھی اس کی زبان پر الله تعالي کا نام ھی نہیں آتا، اس کا ذکر ھی نہیں کرتا، اس کے فضل کا چرچا ھی نہیں کرتا اور اس کی قدرت و خالقیت و مالکیت کے بیان کے لیے اس کی زبان ھی نہیں چلتی، بس پیر کا ھی قصیدہ پڑھتا ھے، اسی کے گن گان کرتا ھے، ایسا شخص ضرور منزل سے نا آشنا، مطلوب سے غافل، مراد سے محروم، مقصد سے دور اور زینہ پر اٹکا ھوا خطرات کی زد میں ھے. یاد رھے مخلوق میں جو ھے، جس کے پاس جو ھے، جتنا ھے، جب سے ھے، جب تک ھے اور جیسا ھے سب کا سب صرف اور صرف الله تعالي کی عطا، اس کے فضل، اس کے کرم اور اس کی قدرت سے ھے، اس کی تخلیق، اس کی قدرت، اور اس کی ربوبیت میں پوری مخلوق میں سے کسی کی بھی زمین و آسمان اور دنیا و جہان کے معمولی ترین ذرے میں معمولی شرکت تو کجا امکانِ شرکت بھی نہیں ھے.

قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِؕ-اِیْتُوْنِیْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَاۤ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. (سورة الأحقاف، آية 4)

تم فرماؤ: بھلا بتاؤ تو کہ الله کے سوا جن کی تم عبادت کرتے هو ،مجھے دکھاؤکہ انہوں نے زمین کا کون سا ذرہ بنایاهے یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ هے؟ میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کچھ بچا کھچا علم هی لے آؤ اگر تم سچے هو

ھاں وہ اپنے فضل و کرم، جود و عطا، انعام و احسان، اعزاز و اکرام اور خیر و برکت کی تقسیم و ترسیل کا اپنے محبوبوں کو مظہر بنادیتا اب وہ اپنے رب کی نعمتیں اپنے رب کے اذن سے اس کی مخلوق میں بانٹتے ھیں اور خوب بانٹتے ھیں. اگر کوئی بندہ مومن ان کی شان قاسمیت دیکھ کر ان کے کرم کا چرچا کرنے لگے تو عقل و نقل دونوں کے نزدیک بلاشبہ کوئی حرج نہیں ھے. والله تعالي أعلم بالصواب.

🖊️وكـتــــــــبــــه الـــفـــقـــيـــر إلـــــي ربـــــــــــه الــــقــــديــــر :

أبـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري.

خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دهــــــــلـي 94.