اگر دین سریا پر بھی ہوتا تو بعض عجمی اسکو پا لیتے

تحقیق : اسد الطحاوی

امام حاکم اپنی مستدرک میں روایت نقل کرتے ہیں :

أخبرنا أبو الحسين أحمد بن عثمان بن يحيى البزار، ببغداد، ثنا العباس بن محمد الدوري، ثنا هاشم بن القاسم، ثنا عبد الرحمن، عن عبد الله بن دينار، عن زيد بن أسلم، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «رأيت غنما كثيرة سوداء دخلت فيها غنم كثيرة بيض» قالوا: فما أولته يا رسول الله؟ قال: «العجم يشركونكم في دينكم وأنسابكم» قالوا: العجم يا رسول الله؟ قال: «لو كان الإيمان معلقا بالثريا لناله رجال من العجم وأسعدهم به الناس»

هذا حديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجاه “

[التعليق – من تلخيص الذهبي] 8194 – على شرط البخاري

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‏‏‏‏میں نے خواب میں سیاہ رنگ کی بہت زیادہ بکریاں دیکھیں، ان میں بڑی تعداد میں سفید رنگ کی بکریاں داخل ہو گئیں صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس خواب کی کیا تعبیر کی؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجمی لوگ تمہارے دین اور نسب میں شریک ہوں گے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! عجم؟ (کیا واقعی ایسا ہوگا؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ایمان ثریا ستارے کے ساتھ معلق ہوتا تو عجم کے بعض لوگ اس تک بھی رسائی حاصل کر لیتے، وہ انتہائی سعادت مند لوگ ہوں گے۔

(المستدرک الحاکم برقم: 8194)

امام حاکم فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے

اور

امام ذھبی بھی موافقت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بخاری کی شرط پر ہے

سند کے رجال کی تحقیق :

۱۔ امام اب الحسین احمد بن عثمان البزار

امام ذھبی سیر اعلام میں انکی توثیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :

العطشي أبو الحسين أحمد بن عثمان بن يحيى لشيخ، الثقة، المسند، أبو الحسين أحمد بن عثمان بن يحيى بن عمرو البغدادي، العطشي ، الأدمي

(سیر اعلام النبلاء، جلد15، ص568)

۲۔ العباس بن محمد الدوري

یہ امام یحییٰ بن معین کے مشہور و مقدم تلامذہ میں سے ایک ہیں

امام ذھبی انکی توثیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :

الدوري أبو الفضل عباس بن محمد بن حاتم

الإمام، الحافظ، الثقة، الناقد، أبو الفضل، عباس بن محمد بن حاتم بن واقد، الدوري، ثم البغدادي، مولى بني هاشم، أحد الأثبات المصنفين.

۳۔ هاشم بن القاسم

یہ امام شعبہ سمیت کثیر محدثین کے شاگرد تھے امام ذھبی انکی متعدد محدثین سے توثیق نقل کرتے ہیں :

وروى: عثمان الدارمي، عن يحيى بن معين: ثقة

وكذا قال: ابن المديني، وأبو حاتم، وغيرهم

(سیر اعلام النبلاء، جلد9، ص548)

۵۔ عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار

ان پر معمولی جرح بھی ہے جیسا کہ امام ابن معین کہتے ہیں کہ انکی حدیث میں کمزوری ہے اور امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ اس میں کمزوری ہے اور امام ابن عدی نے انکی بعض روایات میں منکرات کی نشاندہی کی ہ

لیکن یہ راوی صدوق ہے

کیونکہ امام ابن معین و امام ابو حاتم متشددین کی معمولی جرح کے برعکس سب سے متشدد امام یحییٰ بن سعید القطان نے ان سے روایت کیا ہے

امام ذھبی دیوان الضعفاء میں انکو ثقہ قرار دیا ہے

عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار: ثقة، قال ابن معين: في حديثه ضعف. -خ، د، س، ق-

(دیوان الضعفاء، برقم: 2459)

امام ابن حجر عسقلانی انکے بارے کہتے ہیں کہ یہ صدوق ہیں اور غلطی کرتے تھے

عبد الرحمن ابن عبد الله ابن دينار مولى ابن عمر صدوق يخطىء من السابعة خ د ت س

(تقریب التہذیب ، برقم: 3913)

اور تہذیب میں نقل کرتے ہیں حربی نے کہا اور ان سے زیادہ ثقہ ہیں

اور امام دارقطنی نے کہا کہ امام بخاری نے (اس راوی کی وجہ سے )لوگوں سے اختلاف کیا ہے (یعنی اس سے اپنی صحیح میں احتجاج کیا )

اور یہ متروک نہیں ہو سکتا

امام علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یہ صدوق ہیں

قلت وقال السلمي عن الدارقطني خالف فيه البخاري الناس وليس بمتروك وقال الحاكم عن الدارقطني إنما حدث بأحاديث يسيرة وقال أبو القاسم البغوي هو صالح الحديث وقال الحربي غيره أوثق منه وقال ابن خلفون سئل عنه علي بن المديني فقال صدوق.

(تہذیب التہذیب ، جلد6 ، ص207)

نیز امام دارقطنی کا فیصلہ بھی اس راوی کی توثیق کی طرف ہے امام بخاری کا اس راوی سے احتجاج کی وجہ سے جیسا کہ انکے متعدد اقوال درج ذیل ہیں :

قال البَرْقانِيّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، فقال: أخرج عنه البخاري، وهو عند غيره ضعيف، فيعتبر به

امام برقانی کہتے ہیں میں دارقطنی نے عبدالرحمن بن عبداللہ کے بارے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ان سے امام بخاری نے روایات لی ہیں اور بخاری کے نزدیک یہ غیر ضعیف ہے اور اسکا اعتبار کیا جائے گا

امام حاکم فرماتے ہیں :

وقال الحاكم: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن عبد اللهِ بن دينار؟ قال إنما حدث بأحاديث يسيرة، وقد احتج البخاري به، وغمزه يحيى بن سعيد.

میں نے دارقطنی نے عبدالرحمن کے بارے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ان سے امام بخاری نے احتجاج کیا ہے اور یحییٰ بن سعید القطان نے بھی

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله برقم: 2096)

تو یہ راوی ہر صورت صدوق درجے سے بالکل نیچے نہیں گرتا

۶۔ عبداللہ بن دینار

یہ پچھلے راوی عبدالرحمن کے والد ہیں یہ بھی ثقہ راوی ہیں امام عقیلی متشدد ناقد نے اس راوی پر حدیث و اسناد میں اضطراب پیدا کرنے کی جرح کی ہے

جسکو رد کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں :

فلا يلتفت إلى فعل العقيلي، فإن عبد الله حجة بالاجماع.

عقیلی کے اس امر کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ عبداللہ بالاجماع حجت راوی ہے

(میزان الاعتدال ، برقم: 4297)

ایسے ہی امام ذھبی تاریخ میں انکے بارے فرماتے ہیں :

عبد الله بن دينار، أبو عبد الرحمن العمري مولاهم المدني

أحد الثقات.

سمع: ابن عمر، وأنس بن مالك، وسليمان بن يسار، وأبا صالح السمان.

(تاریخ الاسلام ،جلد 3 ، ص 441)

۷۔ زید بن اسلم

امام ذھبی انکی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

زيد بن أسلم أبو عبد الله العدوي العمري

الإمام، الحجة، القدوة، أبو عبد الله العدوي، العمري، المدني، الفقيه.

حدث عن: والده؛ أسلم مولى عمر.

وعن: عبد الله بن عمر، وجابر بن عبد الله، وسلمة بن الأكوع، وأنس بن مالك.

(سیر اعلام النبلاء، جلد 5 ، ص 316)

اس درج ذیل تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ اپنی منفرد سند کے اعتبار سے حسن ہے

اور البانی صاحب نے اس روایت کو مختلف شواہد کی وجہ سے تقویت دے کر اپنی سلسلہ صحیحیہ میں لائے ہیں

اور البانی صاحب عبد الرحمن بن عبداللہ کی وجہ سے اس روایت کو منفرد سند کو ضعیف یا کمزور سمجھ کر دیگر شواہد لائے اسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انکے نزدیک صحیحین کے راویوں کو بھی میزان پر پرکھا جائے گا وہ صحیحین کے تمام احتجاج بہ راویان پر اجماع نہیں تسلیم کرتے غالبا

لیکن اس روایت کو دیگر شواہد کی تقویت کی ضرورت نہیں یہ روایت حسن ہے

واللہ اعلم

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی