اضطراب روح

کارٹون بنانے میں کیا حرج ہے؟۔۔۔تصویر بنانے سے کیا ہو جاتا ہے؟۔۔ایک کارٹون سے مسلم دنیا اتنا چراغ پا کیوں ہے؟۔۔یہ عقل سے پرے باتیں ہیں۔ جی ہاں!! یہ سب تمہارے لیے عقل سے پرے اور عجیب ہوں گی۔۔ لیکن کیا تم نے کبھی ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی دنیا کا مشاہدہ کیا ہے؟؟ کیا تم نے کبھی مدینہ سے لوٹتے مسافروں کا دھاڑیں مار کر رونا دیکھا ہے۔۔؟ مدینہ جانے کی سکت نہ رکھنے والے عاشق کے رخسار پہ حسرت ویاس کے ڈھلکتے آنسوؤں کو دیکھا ہے؟؟—

اچھا چلو تمہارے لیے یہ چیزیں نئی ہوں گی۔ لیکن تم نے تو بلال حبشی کے بے لوث محبت کا تذکرہ سنا ہوگا؟؟ صدیق اکبر کا سانپ کے بے تحاشہ ڈنک کو برداشت کر لینا، لیکن مصطفی کے جسم نازنین پہ ہلکی سی خراش نہ آنے دینا؟؟ مولا علی کا نماز قضا ہونے دینا، لیکن مصطفیٰ کی نیند میں خلل نہ پڑنے دینا؟؟ سعد بن ابی وقاص کا سرکار کے لیے تیروں کا بوچھار اپنے سینے میں پیوست کرنا؟؟ مصعب بن عمیر کا حضور کے عشق میں دولت وثروت کو ٹھوکریں مار دینا؟۔۔صحابہ کا حضور کے وضو سے گرتے ہوئے پانی کو زمین پر بھی نہ گرنے دینا؟ حضور کی مجلس میں نیچی نگاہوں کے ساتھ ایسے بیٹھنا جیسے سروں پہ چڑیا بیٹھی ہو؟۔؟ حضور کی بارگاہ میں اتنے خفیف لہجہ میں عرض گزاری کرنا کہ حضور کو دوبارہ کہنا پڑے کہ زور سے بولو!!؟

یہ تو خیر انسان ہیں۔ کیا تم نے ہرنی کا یارسول اللہ کی صدائیں لگانا۔۔ بھیڑیا کی گواہی دینا۔۔ درندے جانوروں کا مجبور ہو کر حضور کی زیارت کے لیے حلیمہ سعدیہ کی بکریوں کو پکڑ لینا۔۔ اونٹ کا اپنے مالک کی شکایت لیے حضور کی بارگاہ میں گہار لگانا۔۔ درخت کا اپنی جڑیں گھسیٹ کر حضور کے دیدار کے لیے حاضر ہو جانا۔۔ استن حنانہ کا بچوں کے طرح رونا اور پھر حضور کا اسے گلے لگا کر تھپکیاں دیتے ہوۓ ڈھارس بندھانا۔۔

خیر چھوڑو!! تمہیں یہ جذبات واحساسات کی باتیں کہاں سمجھ آئیں گی۔ پر ہاں تم نے اپنے ماتھے پر انسانیت کا لیبل ضرور لگایا ہے۔ شاید تم نے حضور کا انسانیت کے لیے بے لوث قربانیوں کا تذکرہ ضرور سنا ہوگا۔ کہ کس طرح حضور نے زندہ درگور ہوتی بچیوں کو بچایا۔۔ عورتوں کا حق دلایا۔۔ کالے اور گورے کے فرق کو ختم کیا۔۔ نسبی جاہ کو بے وقعت بتایا۔ لوگوں کو معاف کرنا سکھایا۔ فتح مکہ کے وقت جن کے ہاتھ خون سے سنے تھے، انہیں بھی معاف کر دیا۔۔ چیونٹیوں کے بلوں کو بھی آگ لگانے کی ممانعت کی، چہ جائیکہ انسانوں کو آگ لگانا۔ مظلوموں کی دستگیری کی۔ انسانیت کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے۔۔انسانیت کی تعظیم سکھائی۔ جہالت کے اندھیارے میں بھٹکتی انسانیت کو خود آگہی عطا کی۔۔

تمہارے بقول تمہاری دنیا کو فکری وسعتیں عطا کرنے والے مفکرین جیسے مائیکل ہارٹ، جرمن شاعر گوئٹے، جارج برناڈشا، ٹالسٹائی، اینی بیسنٹ، نیپولین بوناپارٹ، موہن داس گاندھی، تھامس کار لائل، ولیم میور، لا مارٹین، گرو نانک، جان ولیم، کیرن آرم سٹرانگ اور ان کے علاوہ کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ شاید تم نے ان کے تاثرات پڑھیں ہوں گے۔

اگر تم یہ سب پڑھ چکے ہو، پھر بھی تم ان کی گستاخیوں سے باز نہیں آتے، تو سن لو اے مغرب!!! تم انسانیت کے ہتھیارے ہو۔ تم نے انسانی اقدار کا جنازہ نکالا ہے۔ تم بےحسی کی گہری کھائی میں گر چکے ہو۔ تمہارے تعفن زدہ نظریات ہرگز انسانیت کی قیادت نہیں کر سکتی۔ تم نے آزادئ رائے کے نام پہ کروڑوں لوگوں کے دل چھلنی کیے ہیں۔ تم ذاتی فوائد کے لیے ہمارے تقدسات کو سیاست کی منڈلیوں میں لے کر آۓ، اور پھر تم نے وہ کیا جس نے کروڑوں مسلمانوں کو بلبلا کر رکھ دیا۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تمہارے ایک کارٹون نے کتنی روحوں کو مضطرب کر کے رکھ دیا ہے؟؟ کتنوں کی نیندیں اجاڑ کر دھر دیں ہیں؟؟ سکون کی راتیں، رتجگوں میں بدل کر دھر دی ہیں۔ کاش تمہیں اندازہ ہوتا!!!!

کتنے ظالم ہو تم!!! تمہاری قساوت قلبی اللہ کی پناہ!! ہوش کے ناخن لو، اس سے پہلے کہ تمہارے عالی شان محلات پہ “إنا كفيناك المستهزئين” کی بجلیاں کوند جائیں، باز آ جاؤ!!!!!

L✍️ #احمدرضاازہری،

رام گڑھ، جھارکھنڈ

جامعہ ازہر قاہرہ، مصر