ڈاکٹر جلالی صاحب کی خیر ہو

از: افتخار الحسن رضوی

تاریخِ اسلام شاہد ہے کہ اکابرین، اسلاف اور فقہاء کے مابین انتہائی حساس و اہم مسائل پر شدید اختلاف رہا ہے لیکن کسی نے ایک دوسرے پر الزام تھونپے، نہ بالجبر احکام نافذ کروائے اور بالخصوص فقہی مسائل کی آڑ میں انسانی جانوں کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار گرم نہیں کیا۔ مثلاً سیدنا امام مالک علیہ الرحمہ سے خلیفہ وقت نے درخواست کی کہ آپ موطا کے متعدد نسخے تیار کردیں، ہم اس کو سلطنت کے ہرشہر میں بھیج دیں گے اور سب کو شاہی فرمان کے ذریعہ اس پر متفق کردیں گے، مگر حضرت امام مالک علیہ الرحمہ اس کے لیے راضی نہیں ہوئے اور اس ارادے سے باز رہنے کی تلقین فرماتے ہوئے کہا “ لوگوں کے پاس مختلف حدیثیں پہنچی ہیں وہ ان روایات کے موافق عمل پیرا ہیں” ۔ بعد کے خلیفہ نے بھی اس قسم کا مشورہ دیا مگر حضرت امام مالک نے اس قسم کا مشورہ پسند نہیں فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے أمت مصیبت میں مبتلا ہوسکتی تھی۔

اگر امام مالک علیہ الرحمہ فقط خود ہی کو اور اپنے پیروکاروں ہی کو حق پر سمجھتے تو امت میں ایک نیا تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا، لیکن ان کا اس انداز میں دیگر علماء اور ذرائع سے روایات کی موجودگی کا احترام ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ جلیل القدر صحابہ کی جماعت سے لے کر علمائے امت تک فروعی مسائل میں اختلاف کرتے آئے ہیں، بسا اوقات ایک ہی عالم زمان ومکان کے فرق اور احوال وتقاضے کے بدلنے سے بھی مختلف نظر آتا ہے، امام ابوحنیفہ وصاحبین کے مابین موجود اختلاف ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ شوافع کے ہاں اقوال جدیدہ و قدیمہ میں کئی اعتبار سے اختلافات موجود ہیں۔ ماضی قریب میں امام احمد رضا علیہ الرحمہ کا امام شامی علیہ الرحمہ سمیت دیگر فقہاء کے ساتھ اختلاف موجود ہے، اس کے ساتھ کئی أصحاب طریقت کے ساتھ بھی امام احمد رضا نے اختلافی نوٹ لکھے ہیں۔

چند ہفتے قبل ملکِ پاکستان کے معروف عالمِ دین ڈاکٹر أشرف آصف جلالی صاحب کی متنازعہ گفتگو کی وجہ سے ایک بھونچال آ گیا تھا۔ اگرچہ جلالی صاحب کی گفتگو یا ان کا اندازِ گفتگو مناسب نہ تھا، لیکن ان کی گفتگو میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس سے انہیں کافر، گستاخ یا ناصبی قرار دیا جائے۔ کربلا کے اصل سرغنہ یزید ملعون سمیت متعدد ایسے عنوانات موجود ہیں جہاں علماء نے لعنت کے جواز، کفر و ایمان اور حق و باطل جیسے حساس عنوانات پر یکسر متضاد و مختلف آراء دی ہیں۔

ڈاکٹر جلالی صاحب بلا شبہ ایک جید، ثقہ، مستند، قابل فخر، مستقل مزاج، صاحبِ استقامت، باعثِ خیر و برکت اور ہزاروں لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت و روشنی ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں ان کے اچھے علمی افکار پر توجہ کرنی چاہیے نہ کہ ان کی ایک غلطی کو پکڑ کر انہیں بالکل خاموش کروا دینا چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود کو سنی مسلمان بتانے والے اندرونی طور پر چھپے ہوئے روافض مفسدین اور منکرین عظمت خلفائے راشدین و تبرائی طبقے کو اس آڑ میں ایک چھت مل گئی ہے۔ أبناء الوقت کو سمجھنا چاہیے کہ جلالی صاحب ساری زندگی جیل میں نہیں رہیں گے، رب تعالٰی انہیں صحت و سلامتی دے تو وہ جلد رہا ہو جائیں گے، لیکن ان شریر عناصر کے چہرے ضرور بے نقاب ہو چکے ہیں۔ کل تک جو ایک دوسرے کو صحابہ کا گستاخ، حب علی کی آڑ میں ایک دوسرے کو بغضِ معاویہ کا طعنہ دیتے تھے، آج وہ سب جلالی صاحب کی مخالفت میں متحد ہیں۔ اشرف آصف جلالی ایک بے لوث، لالچ سے پاک، دنیا سے بے نیاز عالم دین ، رضائے الٰہی سے مالا مال اور استقامت کے جبلِ عظیم ہیں۔

ہم ان کے حالیہ بیان اور انداز بیان سے مکمل اختلاف رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں اس طرح دیوار سے لگا کر اہل سنت کا علمی نقصان کرنا، ہزاروں طلباء کو ان کی سرپرستی سے محروم کر دینا اور ان کے خلاف اصحابِ غلاظت و منافقت، جرثومہ ہائے رفض و تفضیل کا یوں یک زبان و ہم فکر ہو کر دھاوا بولنا کسی صورت بھی قبول نہیں کرتے۔

اللہ تعالٰی ان کی غلطیاں معاف فرمائے، انہیں صحت و سلامتی سے نوازے، ان کے اہل خانہ کو خیریت سے رکھے اور قید سے جلد رہائی عطا کرے۔ آمین

۵ نومبر ۲۰۲۰

IHRizvi