جب اشرافیہ غافل ہو جائے تو قومیں تباہ کر دی جاتی ہیں

✍️ مولانا پٹیل عبد الرحمن مصباحی (گجرات, ہند)

اشرافیہ سے کیا مراد ہے اس حوالے سے رائے مختلف ہو سکتی ہے، عام طور پر انگریزی میں اس کے لیے Elite کا لفظ استعمال ہوتا ہے. کبھی سادہ الفاظ میں Cream class بھی بولتے ہیں. ہمارے خیال میں اس کی آسان سی توجیہ یہ ہے کہ “اشرافیہ یعنی قوم کا بااختیار طبقہ، چاہے وہ مالی حیثیت سے بااختیار ہو، سیاسی حیثیت سے یا پھر مذہبی حیثیت سے.” کسی بھی معاشرے کی سمت کا تعیّن اس کی اشرافیہ کے طریقۂ حیات سے ہوتا ہے، اشرافیہ یعنی قافلے کے آگے چلنے والا نمائندہ گروہ، یہ درست راہ پا کر ثابت قدم رہنے میں کامیاب ہو جائے تو قوم کا پورا قافلہ فلاح و نجات کی منزل سے خود بہ خود ہمکنار ہو جاتا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام حیات کی تشکیل میں اس طبقے کا رول کلیدی ہوتا ہے، اس طبقے کے فیصلے تقریباً ساری قوم بلکہ پوری انسانیت پر اثر انداز ہوتے ہیں. لہٰذا اشرافیہ کی شرافت قوم کے لیے نیک فالی اور ان کی شرارت قوم کے لیے تباہی کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے.

اقوام عالم کی جو مرضی تاریخ پڑھ لیجیے، کسی بھی دور میں کسی بھی بھی تہذیب کے ماننے والوں کے مقدّر میں تباہی و بربادی اس وقت تک نہیں لکھی گئی جب تک اشرافیہ غافل، بے کار، شرپسند اور ملت فروش نہیں ہو گئی. عوام کی بھیڑ چال قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ نہیں کرتی، بلکہ وہ تو جانے انجانے میں اشرافیہ کے قائم کردہ سسٹم کی پیروکار ہوتی ہے، قوموں کا مقدر تو اشرافیہ کے ذریعے عمل میں لایا جانے والا طرزِ حیات طے کرتا ہے. گویا قوم کا درخت اسی وقت ثمر بار ہو سکتا ہے جب اشرافیہ کی جڑیں تر و تازہ اور مستحکم ہوں، ورنہ اگر اشرافیہ ہی زنگ آلود ہو تو قوم کا وقت کے تقاضوں اور دشمن طاقتوں کے سامنے سرنگوں ہو جانا بدیہی امر ہے.

آئیے! ذرا تاریخ کے تہہ خانے میں جھانک کر اشرافیہ کا کلیدی کردار سمجھنے کی کوشش کریں. اِدھر مستعصم کے طبقہ اشرافیہ میں بدترین خیانت دار وزراء و امراء کا اثر انداز ہونا تھا کہ ادھر سے تاتاریوں کی قیامت نے بغداد کے دروازے پر دستک دی، اشرافیہ کی اس غفلت کے نتیجے میں تباہی و بربادی کا وہ خونی منظر سامنے آیا کہ سعدی نے آسمان کو خون کے آنسو رونے کا حق دے دیا. متحدہ ہند میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کو شکست نہ ہوتی اگر اشرافیہ میں میر جعفر و میر صادق جیسے ملت فروش نہ پَنپتے. خلافت عثمانیہ اسی وقت تک محفوظ رہی جب تک سلطان محمد فاتح اور سلطان عبد الحمید جیسے لوگ اشرافیہ کی زینت بنے رہے، جیسے ہی تُرک اشرافیہ میں کمال پاشا جیسے مغرب زدہ لوگوں کا وجود ہوا، جنگ عظیم کی ہولناکیوں نے اس عظیم سلطنت کو آ لیا اور جشن فتح میں برطانیہ نے اسلامی خطۂ حکومت کو کیک کی طرح تقسیم کر کے پورے عالم اسلام پر اپنی تہذیب تھوپ دی. اس کے علاوہ رضا شاہ پہلوی سے لے کر ابن سبا تک اور ابو الکلام آزاد سے لے کر مروان تک؛ طبقۂ اشرافیہ کو شرمندہ کرنے والوں کی لمبی فہرست تاریخ کے نوٹس بورڈ پر دیکھی جا سکتی ہے، اگر کوئی تاریخ کا طالب علم اشرافیہ کے واسطے سے اقوامِ عالم کے عروج و زوال کی داستان مرتَّب کرنا چاہے تو یہ ایک مستقل تحقیقی عنوان ہے.

آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے. جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں. انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ. کیمبرج کے مایہ ناز فرزند ڈاکٹر ہارون لکھتے ہیں :

“میرے نزدیک اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام. وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے.”

(میں نے اسلام کیوں قبول کیا)

ہم ذیل میں موجودہ اسلامی دنیا کی سیاسی، معاشی اور مذہبی اشرافیہ کا ایک سرسری تجزیہ پیش کریں گے. جس کے آئینہ میں آنے والے کل کی دھندلی سی تصویر نظر آ جائے تو زہے قسمت.

امت کی موجودہ سیاسی اشرافیہ کی بات کریں تو زمینی حقیقت یہ ہے کہ 54 ممالک کی اشرافیہ ایک ساتھ؛ الحاد کی دُھن پر سُودی معیشت کا چولا پہنے جمہوریت کا ننگا ناچ ناچ رہی ہے، چند ایک مقامات جمہوری بُت کی پرستش سے پاک بھی ہیں تو وہاں بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ کے صنم کی دھوم مچی ہوئی ہے. محمد بن سلمان جیسے یہودی نواز سے لے کر مشرف جیسے الحاد پرست تک، سارے کے سارے خنّاس موجودہ اسلامی برادری کی جھولی میں آئے ہیں یا سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ گلے پڑے ہیں. مشرق وسطیٰ کی سیاست کو ہی لے لیجیے؛ ایسا لگتا ہے جیسے اسرائیل سے رشتہ جوڑنے کا مقابلہ ہو رہا ہے، ایک ابھی گھٹنے ٹیک کر کھڑا بھی نہیں ہوتا کہ دوسرا سجدہ ریز ہو جاتا ہے. مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیا تک کی اکثر مسلم اشرافیہ؛ سیاسی طور پر امریکی یا برطانوی سامراجیت کی پروردہ اور اسلام بیزار یا کم از کم پورٹیبل اسلام پر یقین رکھنے والی ہے. انڈیا میں مسلم سیاست کے نام پر بد ترین خائن افراد؛ ملت فروشی میں مصروف ہیں، ان کا لبادہ مختلف ہو سکتا ہے مثلاً کوئی صوفی کوئی جمیعتی؛ البتہ ذات پروری، مفاد پرستی اور ملت فراموشی میں سب برابر کے حصے دار ہیں. دین کے نام پر پاکستان بن تو گیا مگر اس تقسیم کی لاج صرف عوام نے رکھی ہے ورنہ وہاں کی نوّے فیصد سیاسی اشرافیہ مغرب کے وفادر اور نظام مصطفیٰ کے غدار افراد پر مشتمل ہے. مذکورہ معیار پر سعد حریری سے لے کر عبد الفتاح سیسی اور محمود مدنی سے لے کر غلام رسول بلیاوی تک؛ پورے عالم اسلام کی سیاسی اشرافیہ کا کردار پرکھا جا سکتا ہے. ان چند مثالوں کے بعد اختصار کے پیشِ نظر باقی اسلامی دنیا کی سیاسی اشرافیہ کا تجزیہ ہم قارئین کے ذمے چھوڑتے ہیں.

معاشی اشرافیہ یعنی کہ امت کے سرمایہ دار طبقے کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ سیاسی اشرافیہ کی طرح ان سرمایہ داروں کا بھی دین و ملت سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ ایک کلَب ڈانسر مغنّیہ کا مسجد سے ہوا کرتا ہے. مفلس انسان اپنی بھوک سے عاجز آ کر مجبوراً شراب پیتا ہے جب کہ سیٹھوں کی آوارہ اولاد پیٹ بھر جانے کے بعد تکلّفاََ شراب نوشی کرتی ہے. اپنے آپ کو حرمَین کا خادم کہنے والے فضول خرچی کی اُس سطح پر پہنچے ہوئے ہیں کہ شیطان بھی ان کی اخوّت پر عار محسوس کرتا ہوگا. عربوں کے یہاں سیّال سونا نکلتے ہی عیاشی نے ڈیرے ڈال دیے اور فکرِ امت نے رخت سفر باندھ لیا، اب یہ فکر جنوبی ایشیا کے متوسط و نادار طبقے کے ذہنوں میں تو بھٹکتی ہے مگر عرب کے دولت کدوں میں اسے پَیر رکھنے تک کی اجازت نہیں. کفر دوستی اور یہودیت نوازی نے معاشی اشرافیہ کی رہی سہی غیرت کا بھی جنازہ نکال دیا ہے، اب دُبئی میں امت کے مسائل کا حل کم اور جنسی خواہشات کی تکمیل زیادہ ہوتی ہے. عرب کے اکثر بڑے تاجروں کی دولت امت کے لیے سراب اور سوِیس بنک کے لیے سونے کے سیلاب کی مانند ہے. بر صغیر کی معاشی اشرافیہ میں بڑی تعداد ان کی ہے جو امت کی فکر تو دور کی بات ہے مذہب کے ابجد سے بھی واقف نہیں. دین سے واقف سرمایہ داروں کا حال یہ ہے کہ رسم و رواج اور نام و نمود کے لیے ثانوی درجے کے زائد امور میں حقیر سی رقم خرچ کر کے اپنے آپ کو حاتم طائی کا پرتو سمجھتے ہیں. ایسے میں اسلامی لٹریچر کے بڑے مراکز کی تعمیر، عظیم الشان مدارس کے ذریعے مغربی نظام تعلیم کا مقابلہ، سودی معیشت کے بالمقابل غیر سودی بنکوں کا قیام اور غیر مسلم دنیا تک حقیقی اسلامی تعلیمات پہنچانے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کی فراہمی کی امید؛ موجودہ معاشی اشرافیہ سے لگانا ایسے ہی ہے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ سے فلسطین کی بازیافت کے لیے مدد مانگنا.

طبقہ اشرافیہ میں تیسرا بااثر گروہ مذہبی نمائندوں کا ہے. مذہبی اشرافیہ کا دائرہ چھوٹی سی مسجد کی امامت سے لے کر، عالیشان خانقاہ کی سجادگی تک اور مصر کی ازہری فضاؤں سے لے کر سعودی کی شاہی وزارتوں تک، پھیلا ہوا ہے. مذہبی اشرافیہ کی حالت بھی فی زمانہ کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے. موجودہ مذہبی اشرافیہ میں نیم ملّا محفل کی جان ہے، جاہل صوفی خانقاہ کی پہچان ہے، بڑے ادارے اپنے متعلقین کی کج فکری سے حیران و پریشان ہیں اور سعودی وزارتوں کے مالک بدکردار شہزادوں کے زیرِ فرمان ہیں. بر صغیر میں آدھی مولویت اس بات پر دست و گریباں ہے کہ آزاد، اجمل خان اور سر سید ہمارے مذہبی پیشوا ہیں یا امام احمد رضا، سید سلیمان اشرف بہاری اور محدث سورتی ہمارے مقتدا ہیں. جو مذہبی اشرافیہ سو سال میں ماضی کی قیادت کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام ہے اس سے مستقبل کے حوالے سے قوم کا لائحہ عمل طے کرنے کی امید رکھنا کھلی. آنکھوں کا خواب نہیں تو اور کیا ہے. عرب دنیا میں مذہبی اشرافیہ اتنی آگے نکل چکی ہے کہ آدھی مذہبی اشرافیہ کا حلیہ مغربی بود و باش کی عکاسی کرتا ہے. سعودی وزارتوں پر گامزن مذہبی اشرافیہ کے پاس “کلمۃ الحق عند سلطان جائر” کی توفیق تو پہلے ہی سے نہیں تھی مگر اب تو باقاعدہ شہزادوں کی خوش نودی کی خاطر “إنما الخمر والمیسر والازلام رجس من عمل الشیطان” جیسی قطعی نصوص کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے.

مذکورہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ فی الحال جس طبقے میں وعظ و نصیحت سب سے زیادہ ضرورت اور اصلاحات کے نفاذ کی شدید حاجت ہے، وہ اشرافیہ کا طبقہ ہے. ایک طرف اشرافیہ کی فکری و اخلاقی پسماندگی کا یہ حال ہے اور دوسری طرف صاحبانِ منبر و محراب بلکہ امامِ مسجد کہے جانے پر منہ چڑھانے والے اصحابِ اسٹیج و کانفرنس اور اہلِ خانقاہ بھی، ہمہ وقت اپنی اصلاحی توپوں کا منہ متوسط و نادار طبقے کی طرف کیے ہوئے ہیں اور اشرافیہ کی مغرب زدگی سے بے نیاز ہو کر؛ بے چاری عوام کو نظامِ عبادت سے قریب کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں. یعنی ساری اسلامی مراعات اشرافیہ کی جھولی میں ڈال دیجیے اور باقی ساری قوم کو اعمال صالحہ کی طرف دھکیل لائیے. بقول اقبال ؂

مُریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب،

خدا کرے کہ مِلے شیخ کو بھی یہ توفیق.

اخیر میں اگر اس سنگین مسئلہ کے حل کی بات کریں تو ایسے حالات میں مجموعی طور پر آپ کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو اشرافیہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھائیے یا اشرافیہ کو تبدیل کرنے والا انقلاب برپا کیجیے. عوامی کمزوریوں اور ان کے غیر شعوری رویّوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر سچ یہ ہے کہ جب اشرافیہ باشعور اور دور اندیش نہ ہو تو عوام کی بے داری اور شعور کا رونا رونا ایک فضول سی بات ہے. اگر آپ نے مسلم کہلانے والے پارلیمنٹ کے ممبر، علاقے کے سیاست دان، خانقاہ کے پیر، اسٹیج کے مولوی اور سماج کے سرمایہ دار کو مسلمان کر لیا تو قوم خود بخود مسلمان ہو جائے گی اور اسلام بے شک و شبہ غالب ہو جائے گا. شیخ عبد القادر جیلانی اور شیخ مجدد الف ثانی رحمھما اللہ کی اصلاحی تحریکوں کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں ہستیوں نے اپنے دور کی اشرافیہ کا بھرپور تعاقب کیا. اسلام بیزار حکمران ہوں، علمائے سوء ہوں یا صوفیائے خام، جو بھی بااثر اور بااختیار ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں سے غافل تھے، اشرافیہ کے ان تمام گروہوں کو نہ صرف یہ کہ حق کا تعارف اور حقیقی اسلام کی پہچان کرائی؛ بلکہ ان کو امت کی خیر خواہی اور اس کی صلاح و فلاح کے لیے صحیح طریقے اپنانے اور درست اقدامات کرنے پر مجبور بھی کیا. آج کے حالات میں بھی اسلاف کا یہی کردار ہمارے لیے مشعل راہ اور حوصلے کا سبب ہے.

وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا.

(إسراء، 16)

A. R. Patel

19.03.1442

06.11.2020