اَفَمَنۡ زُيِّنَ لَهٗ سُوۡٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ۖ فَلَا تَذۡهَبۡ نَـفۡسُكَ عَلَيۡهِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 8
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَفَمَنۡ زُيِّنَ لَهٗ سُوۡٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ۖ فَلَا تَذۡهَبۡ نَـفۡسُكَ عَلَيۡهِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ ۞
ترجمہ:
تو کیا جس شخص کے لئے اس کے برے عمل کو خوش نما بنادیا گیا سو اس نے اس عمل کو نیک سمجھا، (کیا وہ ہدایت یافتہ کی طرح ہے) سو اللہ جس کو چاہے گم راہ کردیتا ہے اور جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے، لہٰذا آپ کا دل ان پر حسرت زدہ نہ ہو، بیشک اللہ ان کے کاموں کو خوب جاننے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تو کیا جس شخص کے لئے اس کے برے عمل کو خوش نما بنادیا گیا سو اس نے اس عمل کو نیک سمجھا (کیا وہ ہدایت یافتہ کی طرح ہے ! ) سو اللہ جس کو چاہے گم راہ کردیتا ہے اور جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے، لہٰذا آپ کا دل ان پر حسرت زدہ نہ ہو، بیشک اللہ ان کے کاموں کو خوب جاننے والا ہے اور اللہ ہوائوں کو بھیجتا ہے سو وہ بادل کو اٹھا لاتی ہیں، پھر ہم اس بادل کو مردہ شہر کی طرف لے جاتے ہیں، سو زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو اس بادل سے زندہ کردیتے ہیں، اسی قیاس پر مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے (فاطر :8-9)
برائی کو اچھائی سمجھنے والے اور ان کا شرعی حکم
فاطر : ٨ کے شروع میں جملہ استفہامیہ ہے اور اس کا جواب محذوف ہے اور اس کی دو تقریریں ہیں :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ شیطان نے جس شخص کے لئے کفر، معصیت اور بت پرستی وغیرہ کو خوش نما بنادیا ہے، سو وہ شخص ان ناجائز کاموں کو مستحسن سمجھتا ہے، اور شیطان کے خوش نما بنا دینے کی وجہ سے ان برے کاموں کو اچھا جانتا ہے، تو کیا ایسا شخص ہدایت یافتہ شخص کی مثل ہوسکتا ہے ! اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ جس شخص کے لئے اس کے برے اعمال مزین کردیئے گئے ہیں اور وہ برے کاموں کو اچھا سمجھتا ہے تو ایسے شخص کے لئے آپ کا دل غم زدہ نہوہ، کیونکہ اللہ جس کو چاہے گم راہ کردیتا ہے اور جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔
امام عبدالرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ لکھتے ہیں :
ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے اس آیت کے متعلق سوال کیا گیا کہ اس آیت میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے آیا وہ ہم میں سے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو معلوم ہوتا تھا کہ فلاں کام حرام ہے اس کے باوجود وہ اس کام کو کرتے تھے، ان کو معلوم تھا کہ زنا حرام ہے اور بےقصور شخص کو قتل کرنا حرام ہے پھر بھی وہ ان کاموں کو کرتے تھے، یہ لوگ یہود، نصاریٰ اور مجسوس ہیں اور میرا گمان ہے کہ خوارج بھی ان ہی میں سے ہیں، کیونکہ خارجیوں نے تمام اہل بصرہ کے خلاف اپنی تلوار سے خروج کیا اور وہ مسلمانوں کے قتل کرنے کو جائز سمجھتے تھے اور اگر ان کے دین میں یہ مطولب نہ ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :17931)
(١) ابوقلابہ نے کہا اس سے مراد یہود، نصاریٰ اور مجسوس ہیں، اور برے اعمال سیم راد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عناد رکھنا ہے۔
(٢) عمر بن القاسم نے کہا اس سے مراد خوارج ہیں اور برے عمل سے مراد باطل تاویل اور تحریف ہے۔
(٣) حسن بصری نے کہا اس سے مراد شیطان ہے اور برے اعمال سے مراد اس کا بہکانا اور گم راہ کرنا ہے۔
(٤) کلبی نے کہا اس سے مراد کفار قریش ہیں اور برے عمل سے مراد ان کا شرک کرنا ہے، اس نے کہا یہ آیت العاص بن وائل السہمی اور الاسود بن المطلب کے متعلق نازل ہوئی ہے، اور دوسروں نے کہا یہ آیت ابوجہل بن ہشام کے متعلق نازل ہوئی ہے۔
علامہ قرطی فرماتے ہیں زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ اس سے مراد کفار قریش ہیں کیونکہ اس مضمون کی زیادہ تر آیات کفار قریش کے متعلق نازل ہوئی ہیں جیسا کہ حسب ذیل آیات سے ظاہر ہے۔
(البقرہ :272) ان کو ہدایت یافتہ بنانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے۔
(آل عمران :176) کفر میں جلدی کرنے والے لوگ آپ کو غمگین نہ کریں، یہ اللہ کو بالکل ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ انکے لئے اجر آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔
(الکہف : ٦) اگر یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہ لائے تو لگتا ہے کہ آپ ان کے پیچھے غم سے اپنی جان دے دیں گے۔ اور اسی مضمون کی آیت یہاں ہے، لہٰذا آپ کا دل ان پر حسرت زدہ نہ ہو۔
یعنی ان کے کفر پر ڈٹے رہنے اور شرک پر جمے رہنے سے جو آپ کو غم ہو رہا ہے، اس غم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ جب انہوں نے کفر کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان میں گم راہی کو پیدا کردیا، اگر یہ ہدایت کو قبول نہیں کرتے تو آپ اس پر افسوس نہ کریں کیونکہ ہدایت کا پیدا کرنا اللہ کا کام ہے آپ کا فریضہ نہیں ہے اور نہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔
حرام کام کو حرام سمجھتے ہوئے کرنا گناہ کبیرہ ہے اور حرام کا کام کو جائز اور مستحسن سمجھ کر کرنا کفر ہے، بعض ممنوع کاموں کی حرمت ظنی ہوتی ہے اور بعض ممنوع کاموں کی حرمت قطعی ہوتی ہے مثلاً ڈاڑھی منڈانے اور سایہ خضاب لگانے کی حرمت ظنی ہے اور زنا اور قتل کی حرمت قطعی ہے اور حرامق طعی کو حلال سمجھنا کفر ہے اور حرام ظنی کو جائز اور اچھا سمجھنا ہرچند کہ کفر نہیں ہے، لیکن اس کے ضلالت اور گم راہی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، عورتوں کا بےحجاب بازاروں میں پھرنا، دفتروں میں کام کرنا، اجنبی مردوں سے باتیں کرنا، مردوں کا ڈاڑھی منڈانا، اور مردوں اور عورتوں کا موسیقی سننا اور بجانا، فحش گانیح گانا، تصویر کھینچنا اور کھینچوانا، گالی گلوچ اور فحش باتیں کرنا، ناجائز کام کے لئے رشوت دینا اور لینا، چوری بازاری، ذخیرہ اندوزی، دوائوں اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنا، غیب اور چغلی کرنا، یہ تمام کام حرام ظنی ہیں اور ان میں اول الذکر تمام وہ کام ہیں جن کو اچھا سمجھ کر کیا جاتا ہے، یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم نے برائی کو اچھا سمجھ کر کرنا شروع کردیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان لوگوں کو مطلقاً گم راہ فرمایا ہے جو برے کاموں کو اچھا سمجھ کر کرتے ہیں، خواہ ان کے وہ کام کر فر کی حد تک پہنچے ہوں یا نہ ہوں۔
اس آیت میں حسرات کا لفظ ہے، یہ حسرت کی جمع ہے، جو نیکی اور اچھائی فوت ہوجائے اس پر غم کو حسرت کہتے ہیں، پشیمانی اور پچھتانے اور نادم ہونے کو بھی حسرت کہتے ہیں، انحسر کا معنی تھکنا ہے گویا فرط غم سے وہ نڈھال ہوگیا اور تھک گیا اور اس کی قوتیں کمزور ہوگئیں، مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ کے برے عقائد اور برے اعمال دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پے در پے غم ہوتا تھا، اس لئے فرمایا آپ کے دل میں ان کے لئے حسرتیں نہ آئیں، یعنی آپ کو یہ حسرت تھی کہ وہ شرک نہ کرتے اور یہ حسرت تھی کہ وہ زمانہ جاہلیت والے فحش کام نہ کرتے اور آپ کو یہ حسرت تھی کاش وہ ایمان لے آتے اور صالح عمل کرتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ یہ حسرتیں نہ کریں، ان کے اپنے اختیار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان میں گم راہی کو پیدا کردیا ہے، اب وہ ایمان نہیں ائیں گے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 8