وَاللّٰهُ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ الرِّيٰحَ فَتُثِيۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحۡيَيۡنَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ؕ كَذٰلِكَ النُّشُوۡرُ ۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 9
sulemansubhani نے Wednesday، 18 November 2020 کو شائع کیا.
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاللّٰهُ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ الرِّيٰحَ فَتُثِيۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحۡيَيۡنَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ؕ كَذٰلِكَ النُّشُوۡرُ ۞
ترجمہ:
اور اللہ ہوائوں کو بھیجتا ہے سو وہ بادل کو اٹھا لاتی ہیں، پھر ہم اس بادل کو مردو شہر کی طرف لے جاتے ہیں سو زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو اس بادل سے زندہ کردیتے ہیں، اسی قیاس پر مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے
بنجر زمین کی زرخیزی سے حشر و نشر پر استدلال
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمایا : اور اللہ ہوائوں کو بھیجتا ہے سو وہ بادل کو اٹھا لاتی ہیں، پھر ہم اس بادل کو مردہ شہر کی طرف لے جاتے ہیں سو زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو اس بادل سے زندہ کردیتے ہیں۔ (فاطر : ٩)
قرآن مجید میں حشر و نشر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر اس سے بہت استدلال فرمایا ہے کہ زمین مردہ اور بنجر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بارش نازل فرما کر اس مردہ اور بنجر زمین کو زندہ اور سرسبز بنا دیتا ہے۔ فرمایا :
(الحج : ٥) تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے، پھر جب ہم اس پر بارش نازل فرماتے ہیں تو وہ پھلتی پھولتی ہے اور ہر قسم کا خوش نما سبزہ اگاتی ہے۔
یعنی زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے اور بارش کے بعد کس طرح زرخیز اور شاداب ہوجاتی ہے اور طرح طرح کے غلے اور سبزیاں اگانے لگتی ہے، باغات میں ہرق سم کے پھل اور میوے پیدا ہوتے ہیں اور طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں، تو جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اسی طرح قیامت کے دن بھی وہ مردہ انسانوں کو زندہ کر دے گا۔
ابو زرین اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ مردوں کو سک طرح زندہ کرے گا، آپ نے فرمایا : کیا کبھی تم ایسیو ادی کے پاس سے نہیں گزرے جو پہلے بنجر اور خشک ہو اور دوبارہ اسکے پاس سے گزرے تو وہ سرسبز اور لہلہا رہی ہو۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :16137 دارالحدیث قاہرہ)
حضرت ابوہریرہ (رض) باین کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عجب الذنب کے سوا انسان کا پورا جسم بوسیدہ ہوجاتا ہے اسی سے اس کا جسم (دوبارہ) بنایا جائے گا (پورے جسم کے بوسیدہ ہونے سے انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام مستثنیٰ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر ان کے اجسام حرام کردیئے ہیں۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث :4814)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان کی ایک ہڈی ایسی ہے جس کو زمین کبھی نہیں کھاتی قیامت کے دن انسان اسی میں بنایا جائے گا، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کون سی ہے ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ عجب الذنب ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث بلاتکرار :2955 الرقم المسلسل :7280)
عجب الذنب کی تحقیق
عجب الذنب میں عجب کی عین پر زبر اور ج پر جزم ہے اور ذنب میں ذ اور ن پر زبر ہے، عجب کے معنی ہے ہر چیز کا پچھلا حصہ، دم کی جڑ، ذنب کا معنی بھی دم ہے۔ (المنجد)
علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں :
کمر کے نچلے حصے میں جو باریک ہڈی ہوتی ہے اس کو العسعس اور عجب الذنب کہتے ہیں، انسان میں سبے سے پہلے اسی ہڈی کو پیدا کیا جاتا ہے، اور اسی ہڈی کو باقی رکھا جاتا ہے تاکہ اسی سے انسان کا دوبارہ جسم بنایا جائے۔ (شرح نواوی مع صحیح مسلم ج ١١ ص 7226 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :
عجب الذنب وہ لطیف ہڈی جو دم کے سب سے نچلے حصے میں ہوتی ہے، امام ابن ابی الدنیا نے کتاب البعث میں حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے، آپ سے پوچھا گیا، یا رسول اللہ عجب کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ رائی کے دانہ کی مثل ہے، آدمی کے جس جز کی سب سے پہلے تخلیق کی جاتی ہے وہ یہی جز ہے، اور اسی جز کو باقی رکھا جاتا ہے تاکہ اسی سے انسان کا دوبارہ جسم بنایا جائے، اس جز کو باقی رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ فرشتے پہچان سکیں کہ اس جز میں فلاں انسان کی روح داخل کرنی ہے، جس طرح حضرت عزیز (علیہ السلام) کے گدھے کی ہڈیوں کو باقی رکھا گیا تھا، اگر فرشتوں کے لئے اس جز کو باقی نہ رکھا جاتا تو پھر بعینہ اسی جسم میں روح داخل نہ ہوتی بلکہ اس کی مثل میں داخل ہوتی۔ اسی جزکو باقی رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اسی جز کی تخلیق ہوئی تھی، اور وہ جو بعض روایات میں ہے کہ حضرت آدم کے سر کی سب سے پہلے تخلیق کی گئی تھی اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حضرت آدم کی خصوصیت ہے ان کی اولاد کے اسی جز کی سب سے پہلے تخلیق کی گئی تھی۔ (عمد ١ القاری ج ١٩ ص 209، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1422 ھ)
القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 9
ٹیگز:-
تبیان القرآن , زمین , القرآن , سورہ فاطر , سورہ الفاطر , علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی , بنجر , حشر و نشر , فاطر , حضرت ابوہریرہ , زرخیزی , رسول اللہ , عجب الذنب