کلچر کی سرد جنگ، مسلمانوں کی بربادی کا سبب
کلچر کی سرد جنگ، مسلمانوں کی بربادی کا سبب
از: افتخار الحسن رضوی
مجھے دنیا کے اکثر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا ہے، مثلاً عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ، قادیانی، اسماعیلی، آغا خانی، ملحد، بہائی، دروز، جین، مانچو وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن سے میرا تعلیمی تعلق ہے، بعض کے ساتھ دفتری و کاروباری امور کا تعلق اور بعض کے ساتھ سیاحتی واقفیت رہی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان تمام لوگوں کو اپنے کلچر اور ثقافت کا پابند دیکھا ہے۔ فقط مسلمان ہی اس فکری کمزوری کا شکار ہیں جو اپنا اصل کلچر اور تہذیب بھول چکے ہیں۔ چند مثالیں درجِ ذیل ہیں؛
ہندو مذہب کے ماننے والے یورپ اور خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنے کھانے تبدیل نہیں کرتے۔ ہندو خوراک ہی کھاتے ہیں، ہاتھوں میں دھاگے، ماتھے پر تِلک، دیوالی و ہولی کی مناسبت سے وضع قطع بنانا یہ ان کا شعار ہے۔ حتٰی کہ مشرقی افریقی ممالک میں ہندو لوگوں نے اپنے کلچرز سنٹرز بنا لیے ہیں۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ابو ظبی میں ہندو مندر بن چکا ہے، دبئی اور ابو ظبی کے مالز اور بازاروں میں ہندو کلچر پر مبنی مواد و اشیاء بآسانی دستیاب ہیں ، حتیٰ کہ بت اور بھگوان بھی مارکیٹ میں مل جاتے ہیں۔
افریقی ممالک میں آغا خانی لوگوں نے اپنے ہسپتال، سکولز اور مراکز قائم کر رکھے ہیں، جہاں وہ اپنے کلچر پروان چڑھانے کے لیے مہم جاری رکھتے ہیں۔ دہلی شہر میں خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر قادیانیوں کے ساتھ ساتھ آغا خان فائونڈیشن کی مدد سے فن پارے اور تزئین و آرائش کا سامان کیا گیا ہے جو مستقبل میں مزار کو بابا گورونانک کے مزار جیسے رنگ میں ڈھال دے گا۔ پہلے سے اس مزار پر ساڑھی پہنے دعوتِ گناہ دیتی خواتین کا مجمع لگا رہتا ہے، یہی حال اجمیر کا ہے، وہاں بھی ناچ گانا معمول کی بات ہے۔ اور یہ ناچ گانا ہندو مذہب کا لازمی جز ہے، جب کہ اسلام اس کی مذمت کرتا ہے۔
جرمنی، انگلینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں قادیانی حضرات کی عبادت گاہیں الگ تھلگ نظر آتی ہیں۔ سر پر ٹوپی، واسکٹ اور داڑھی کا مخصوص سٹائل انہیں معاشرے کے دیگر لوگوں سے نمایاں کرتا ہے۔ قادیانی خواتین کا نقاب، حجاب اور برقع جداگانہ ہے۔
دبئی شہر کے معروف علاقے میں بوہری جماعت کی خوبصورت و بڑی مسجد واقع ہے۔ جب کہ متحدہ عرب امارات میں ہی اہل سنت کے دو گروہوں کے باہم تصادم کی وجہ سے مساجد بند ہو چکی ہیں۔ بوہری لوگوں کا لباس، ٹوپی، رومال اور داڑھی انہیں معاشرے کے دیگر لوگوں سے جدا کرتی ہے۔ بوہری خواتین کا برقع مختلف ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، سیاحت کے لیے جائیں یا بزنس کے لیے، وہ اپنی پہچان اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ شارجہ کے بہت بڑے انڈسٹریل گروپ کی ملکیت ایک ہندوستانی بوہری خاندان کے پاس ہے، سحر و آسیب کی وجہ سے دو فیکٹریاں برباد ہو گئیں ، کسی دوست کے ذریعے مجھ تک پہنچے، علاج کے دوران میں نے ان کی اصلاح کی بہت کوشش کی، ان کے مالی معاملات سدھر گئی، فیکٹریاں بحال ہو گئیں، لیکن وہ اپنے بوہری کلچر سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔
اسرائیل نے حال ہی میں خلیجی عربی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں، فوری طور پر جو اقدامات اٹھائے گئے اس میں یہودی کھانا “ کوشر” ، یہودی لباس اور ان کی عبادت گاہوں کا قیام شامل ہے۔ کوشر پکانے کے لیے یہودی مذہب کے مطابقت تمام انتظام مکمل کر لیے گئے ہیں اور اسرائیل سے ماہرین بحرین اور متحدہ عرب امارات پہنچا دیے گئے ہیں۔ اسی طرح بحرین اور متحدہ عرب امارات کی منڈیوں میں اسرائیل کے کھیتوں اور فارمز میں اگائے گئے پھل اور سبزیاں پہنچا دی گئی ہیں۔ بحرین میں اسرائیلی آلو میں نے اٹھا کر شاپنگ بیگ میں ڈال لیے، میری اہلیہ کی توجہ دلانے پر معلوم ہوا کہ یہ اسرائیلی آلو ہیں۔
چینی قوم نے اپنے ہر طرح کے کھانے خلیجی ممالک میں حاصل کر رکھے ہیں اور وہ کسی بھی صورت چائنیز کے علاوہ کچھ نہیں کھاتے، تاہم ان کے مسلمان کاروباری پارٹنرز ان کے ساتھ چائنیز کھا کر خود کو بڑا محسوس کرتے ہوئے سیلفیاں ضرور شئیر کرتے ہیں۔
یورپی اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ دیگر ممالک میں جا کر اپنا لباس تبدیل کرتے ہیں نہ ہی طرزِ زندگی پر کوئی اثر پڑنے دیتے ہیں۔ مثلاً لاہور کے ایک پوش علاقے میں مقیم ایک امریکی خاتون nutritionist ہیں، ان کی شادی ایک پاکستانی کے ساتھ ناکام ہو گئی تھی، تاہم وہ بچوں کی وجہ سے لاہور میں رک گئی تھی۔ اس کے کلینک پر آنے والی خواتین نے سمارٹ ہونے کے چکر میں جینز پہننا شروع کر دی ہے، پاستے ، پیزے ، امریکی اور مغربی کھانے شروع کر دیے ہیں، نتیجتاً یہ خواتین منہ سے افریقی اور وضع قطع سے امریکی لگتی ہیں۔ لیکن امریکی خاتون آج بھی صد فیصد امریکی کلچر میں ہی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی زبان، لباس، طعام اور زندگی میں پاکستان جھلک مفقود ہے۔ لیکن پاکستانی خواتین اس کی پاس ڈائیٹ لینے اور سمارٹنس کے نسخے لینے صرف اس لیے جاتی ہیں کہ ڈاکٹر گوری ہے۔
برطانوی انگریزوں کو ہند و پاک سے گئے ہوئے ستر سے زائد برس ہو گئے ہیں، لیکن ان کا کلچر آج بھی ہماری عدالت، کچہری، تھانہ، فوج، بازار، تعلیمی نصاب اور اب سوشل میڈیا کی صورت میں ہر وقت ہماری جیب میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو اسلامی کلچر دیا؟ ہم دوسروں سے اتنی جلدی متاثر کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہم فکری اعتبار سے اس قدر کمزور کیوں ہیں؟ ہماری بیٹیاں فلمی لباس، ہمارے بیٹے ہندی و یورپی ایکٹرز کی طرز اور ہم خود غیر مسلم لیڈرز کے لباس و اقوال اور طرز زندگی اختیار کرنے کی خاطر کیوں مرے جاتے ہیں؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ اقوام مغرب ہمارے معاشرے میں جس چیز کو پروموٹ کرنا چاہیں، اس کی ایڈورٹائزمنٹ میں عورت شامل کر لی جاتی ہے، بسکٹ ہو یا چائے، موٹر سائیکل ہو یا پراپرٹی کی خرید و فروخت، لوگ عورت نچا کر مسلمان کو چیز بیچ جاتے ہیں۔
اگر یہی کلچر اور تہذیب ہے تو پھر محمد مصطفٰی ﷺ کی محنت کا کیا فائدہ؟ یہ سب کچھ تو چودہ برس قبل بھی تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے کلچر میں تو حیا ہے، ہم تو وہ ہیں جو اپنے پسند، نا پسند، لباس، کلام، طعام اور طرزِ بود و باش سے دنیا کو بدلنے والے تھے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم اغیار کی پیروی سے خود کو بدل رہے ہیں؟ ہماری صبح سے لے کر رات بستر پر جانے تک ہونے والے ہر ہر فعل میں چٹی چمڑی، یہود و نصاری کے طرزِ گفتگو، لباس ، اٹھنا بیٹھنا وغیرہ ہی کی پیروی ہے؟ آج ہماری شادیوں میں دلہے کا لباس، دلہن کا لباس میک اپ وغیرہ کس کا کلچر ہے؟ کیا ہماری عادات و اطوار میں کوئی ایک ایسا کام جو واقعی ریاست مدینہ سے تعلق رکھتا ہو؟ یہ گوری عورتیں اتنی آسانی سے مسلمانوں کے ساتھ شادی کیوں کر لیتی ہیں؟ یہ جھٹ سے اپنا مذہب کیوں بدل لیتی ہیں؟
کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری ثقافتی و تہذیبی موت واقع ہو چکی ہے؟ کیا اغیار کا یہ حملہ ہمیں اتنا کمزور نہیں کر چکا کہ فرانس میں سرکاری سطح پر رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہوئی، سوئٹزرلینڈ میں سرکاری سطح پر قرآن کریم کے نسخے جلائے جانے کی حمایت کی گئی لیکن آج پورا عالمِ اسلام اس لیے چپ ہے کہ اغیار کا کلچر ہمارے خون میں شامل ہے، اس لیے ہمیں بولنے کی ہمت ہی نہیں ہو پارہی؟
ذرا سوچیے، کلچر کی یہ سرد جنگ اوراغیار کی یہ خاموش مہم ہمیں کس قدر
کھوکھلا کر چکی ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ان کی جمیعت کا ہے قوم و نسب پر انحصار
قوتِ مذ ہب سے ہے جمیعت تیری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۸ نومبر ۲۰۲۰
IHRizvi