جنھیں جرمِ عشق پہ ناز تھا
جنھیں جرمِ عشق پہ ناز تھا
وہ جس کا وجود بلند حوصلگی کی علامت رہا…… وہ جس کی باتیں عشق و احترام کی خوشبوئیں بکھیرتی رہیں….. وہ جو ضعیفی میں بھی جواں مردی کا استعارہ بن کر جیا….. وہ جو خودی کی عمدہ مثال تھا….. وہ جو سراپا خوش خصال تھا……. عمر بھر ناموسِ رسالت کی حفاظت کرتا رہا…… جس کا لمحہ لمحہ وقفِ نعتِ مصطفیٰ رہا…… وہ جس نے ایوانِ خسروی کو زیر و زبر رکھا….. وہ جس کی گھن گرج اور جواں ہمتی سے غدارانِ ختم نبوت کے خیموں میں موت طاری رہی…….وہ علم و فن کا سائبان…..وہ دینِ مصطفوی کا پاسبان…… وہ امتِ ختم الرسل کا نگہبان…… وہ ہمارے لیے رب العزت کا عظیم احسان….. وہ فکرِ اقبال کا مظہرِ جمیل…… وہ باغِ رضا کا عندلیبِ خوشنوا……. جنھیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ خادم حسین رضوی…… آہ آہ! ناموسِ مصطفیٰ کا محافظ…… آہ آہ! ختمِ نبوت کا پہرے دار……وہ عاشقِ شہِ مشرقین چلا گیا….. وہ فدائے شہِ مغربین چلا گیا…… وہ سچا اور مخلص خادم حسین چلا گیا……. یارب ذوالجلال و الاکرام ہم پر اپنا خاص فضل فرما….. رحم فرما……اس مجاہدِ وقت کی بے حساب مغفرت کرتے ہوئے ان کے درجات کو بلند تر فرما……. ہمیں صبر جمیل کی توفیق دے……. عالمِ اسلام کو خادم حسین رضوی کا نعم البدل عطا فرما……. ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت نصیب فرما…… آمین بجاہ النبی الامین الاشرف الافضل النجیب صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وصحبہ وبارک وسلم
…… محمد حسین مشاہد رضوی
20 نومبر 2020ء بروز جمعۃ المبارک بعد فجر