مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الۡعِزَّةُ جَمِيۡعًا ؕ اِلَيۡهِ يَصۡعَدُ الۡـكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالۡعَمَلُ الصَّالِحُ يَرۡفَعُهٗ ؕ وَ الَّذِيۡنَ يَمۡكُرُوۡنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ؕ وَمَكۡرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ يَبُوۡرُ ۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 10
sulemansubhani نے Tuesday، 1 December 2020 کو شائع کیا.
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الۡعِزَّةُ جَمِيۡعًا ؕ اِلَيۡهِ يَصۡعَدُ الۡـكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالۡعَمَلُ الصَّالِحُ يَرۡفَعُهٗ ؕ وَ الَّذِيۡنَ يَمۡكُرُوۡنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ؕ وَمَكۡرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ يَبُوۡرُ ۞
ترجمہ:
جو شخص عزت چاہتا ہے تو تمام عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں، اور وہ نیک عمل کو بلند فرماتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی سازش کرتے رہتے ہیں، ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کی سازش ناکام ہونے والی ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو شخص عزت چاہتا ہے تو تمام عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، پاکیز کلمات اسی کی طرفچڑھتے ہیں اور وہ نیک عمل کو بلند فرماتا ہے، اور جو لوگ برائیوں کی سازشیں کرتے رہتے ہیں، ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کی سازش ناکام ہونے والی ہے اور اللہ نے تم کو ابتداء مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تم کو جوڑے جوڑے بنایا اور جو مادہ بھی حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جنتی ہے تو وہ اس کے علم میں ہے اور جس شخص کی بھی عمر بڑھائی جاتی ہے یا جس کی عمر کم کی جاتی ہے، وہ لوح محفوظ میں (لکھی ہوئی) ہے، بیشک یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے (فاطر : ١١-١٠)
تمام عزتیں اللہ کے لئے ہونے کے متعدد محامل
فاطر : ١٠ میں فرمایا جو شخص عزت چاہتا ہے تو تمام عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اس آیت کے حسب ذیل محامل ہیں :
(١) جو شخص یہ چاہتا ہیو کہ اس کو ایسی عزت کا علم ہو جس کے ساتھ کوئی ذلت نہیں ہے تو وہ سن لے کہ تمام عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، کیونکہ جو چعزت کسی ذلت تک پہنچائے وہ درحقیقت ذلت ہی ہے اور جس عزت کے ساتھ کوئی ذلت نہیں ہے وہ صرف اللہ عزوجل کے لئے ہے۔
(٢) جو شخص اللہ سبحانہ کی عبادت کرنے سے عزت کے حصول کا ارادہ کرے اور عزت اللہ سبحانہ ہی کے لئے ہے تو وہ اس کو دنیا میں بھی عزت دے گا اور آخرت میں بھی۔
(٣) اللہ تعالیٰ صاحب اقتدار، صاحب حیثیت اور صاحب منصب لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلب گار ہو اور اس کی طلب میں صادق ہو، اس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضح اور ذلت اور خضوع اور خشوع کو اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو عزت عطا فرمائے گا، کیونکہ جو اللہ کے لئے تواضح کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو سربلند کرتا ہے، حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ مال کو کم نہیں کرتا اور کسی بندہ کے معافی مانگنے سے اللہ اس کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور جو شخص بھی اللہ کے لئے تواضح کرتا ہے اللہ اس کو سربلند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2588، مسند احمد رقم الحدیث :11744)
(٤) جو شخص اللہ کے غیر سے عزت کو طلب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس غیر کے سپرد کردیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے عزت طلب کی، فرمایا :
(النسائ :139) جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان (کافروں) سے عزت کو طلب کرتے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ تمام عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ تمام عزتیں اللہ ہی کے پاس ہیں وہ جس کو چاہے عزت دے دے اور جس کو چاہے ذلت دے دے، جیسا کہ اس آیت میں ہے :
(آل عمران :26) آپ کہیے : اے اللہ ملک کے مالک ! تو جس کو چاہے ملک عطا کر دے اور جس سے چاہے ملک چھین لے، اور تو جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے، تمام اچھائیاں تیرے ہی دست قدرت میں ہیں۔
سو جو شخص کسی عظیم کامیابی کے حصول کے لئے عزت چاہتا ہو اور جنت میں داخل ہونا چاہتا ہوں، اس کے چاہیے کہ وہ عزت کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کا قصد کرے اور اس سے عزت کو طلب کرے، کیونکہ اگر وہ کسی مخلوق سے عزت کو طلب کرے گا تو اللہ عزوجل اس کو ذلت میں مبتلا کر دے گا اور جو اللہ سے عزت کو طلب کرے گا تو اللہ اس کو عزت عطا فرمائے گا۔
الکلم الطیب کی تفسیر میں متعدد اقوال
الکلم الطیب (پاکیزہ کلمات) اس کی طرف چڑھتے ہیں۔
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوری المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں :
الکلم الطیب کی تفسیر میں دو قول ہیں، یحییٰ بن سلام نے کہا اس سے مراد کلمہ توحید ہے یعنی لا الہ الا اللہ، اور نقاش نے کہا اس سے مراد نیک مومنوں کی، کی ہوئی اللہ تعالیٰ کی ثناء ہے جس کو لے کر ملائکہ مقربین چڑھتے ہیں۔ (النکت و الیعون ج ٤ ص 426، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
مخارق بن سلیم نے کہا، ہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو اس کی تصدیق میں تمہارے سامنے کتاب اللہ کو پیش کرتے ہیں، جب مسلمان بندہ یہ کہتا ہے : سبحان اللہ وبحمدہ، الحمد للہ لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، تبارک اللہ تو فرشتہ ان کلمات کو لے کر اپنے پروں کے نیچے رکھ لیتا ہے، پھر ان کلمات کو لے کر آسمان کی طرف چڑھتا ہے، وہ ان کلمات کو لے کر فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ فرشتے ان کلمات کے پھڑنے والے کے لئے استغفار کرتے ہیں، حتیٰ کہ اللہ کے سامنے ان کلمات کو پیش کرتے ہیں، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کو پڑھا :
الیہ یصعد الکلم الطیب (فاطر : ١٠) پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22123)
علامہ زمخشری نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا الکلم الطیب سے مراد ہے لا الہ الا اللہ۔ (الکشاف ج ٣ ص ٦١١)
لا الہ الا اللہ کو طیب فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ قعل سلیم اس کلمہ کو پاکیزہ قرار دیتی ہے اور اس سے محظوظ ہوتی ہے، کیونکہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرتا ہے اور توحید کے ماننے پر ہی نجات کا مدار ہے اور توحید پر ایمان لانا ہی جنت کی دائمی نعمتوں کے لئے وسیلہ ہے، یا اس کلمہ کو طیب فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ شریعت میں یہ پسندیدہ کلمہ ہے اور ملائکہ (علیہم السلام) اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ الکلم الطیب سے مراد قرآن مجید ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ الکلم الطیب سے مراد نیک مسلمانوں کی تعریف اور تحسین ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ایسی دعا ہے جس میں شرعی حدود سے تجاوز نہ ہو، اور مختار قول یہ ہے کہ الکلم الطیب سے مراد ہر وہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل ہو یا ہر وہ کلام ہے جس میں اللہ کے لئے وعظ اور نصیحت ہو۔
کلمات طیبہ کے چڑھنے کی توجیہات
صعود اور چڑھنے کا معنی ہے اوپر کی طرف حرکت کرنا اور اس کو عروج بھی کہتے ہیں اور کلمات اور کلام کا اوپر چڑھنا متصور نہیں ہے، کیونکہ کلمات اور کلام عرض ہیں جو متکلم کے ساتھ قائم ہیں، اپنے محل سے قطع نظر ان کا کوئی وجود نہیں ہے تو پھر فرشتوں کا ان کلمات کو لے کر چڑھنا موجب اشکال ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ چڑھنے سے مردا ان کلمات کا اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہونا ہے، کیونکہ ثواب کی جگہ اوپر ہے اور عذاب کی جگہ نیچے ہے، اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ کلمات کے اوپر چڑھنے سے مراد یہ ہے کہ فرشتے ان صحائف اعمال کو لے کر اوپر چڑھتے ہیں جن صحائف میں انہوں نے کلمات طیبہ لکھے ہوئے ہیں اور اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ اس سے کیا چیز مانع ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کلمات کو مجسم کر دے اور فرشتے ان کو اٹھا کرلے جائیں۔
نیک عمل کے محامل
اس کے بعد فرمایا : اور وہ نیک عمل کو بلند فرماتا ہے۔
عمل صالح سے مراد فرائض کا ادا کرنا ہے، یا اس سے مراد تمام عبادات اور نیک اعمال ہیں اور والعمل الصالح یرفعہ کی تفسیر میں تین قول ہیں :
(١) حسن بصری اور یحییٰ بن سلام نے کہا اس کا معنی ہے الکلم الطیب یعنی پاکیزہ کلمات عمل صالح کو بلند کرتے ہیں۔
(٢) ضحاک اور سعید بن جبیر نے کہا عمل صالح پاکیزہ کلمات کو بلند کرتے ہیں۔
(٣) قتادہ اور سدی نے کہا اللہ تعالیٰ عمل صالح کو بلند کرتا ہے، یعنی عمل صالح کرنے والے کے درجات بلند کرتا ہے۔ (النکت والعیون ج ٤ ص 646، دارالکتب العلمیہ بریوت)
امام ابن جریر متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حرت ابن عباس (رض) نے فرمایا الکلم الطیب سے مراد اللہ کا ذکر ہے اور العمل الصالح سے مراد اس کے فرائض کا ادا کرنا ہے، سو جس شخص نے فرائض کی ادائیگی میں اللہ کا ذکر کیا تو اس کے ذکر کو فرشتے اوپر لے کر چڑھتے ہیں اور جس شخص نے اللہ کا ذکر کیا اور فرائضک و ادا نہیں کیا تو اس کے کلام کو اس کے عمل کی طرف لوٹا دیا جائے گا پس عمل صالح اس کے کلام سے اولیٰ ہے۔
مجاہد نے بھی اس کی تفسیر میں کہا کہ عمل صالح کلام طیب کو بلند کرتا ہے۔
حسن اور قتادہ نے کہا اللہ تعالیٰ کسی کلام کو عمل کے بغیر قبول نہیں کرتا، جس نے کلمات طیبہ کہے اور نیک عمل کئے تو اس کے کلمات طیبہ کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے (ان آثار کی سند ضعیف ہے۔ ) (جامع البیان، جز ٢٢ ص 144 رقم الحدیث :22128، 22126، دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو قرآن نماز میں پڑھا جائے وہ اس قرآن پڑھنے سے بہتر ہے جو غیر نماز میں پڑھا جائے، اور قرآن کو غیر نماز میں پھڑنا ذکر کی دیگر اقسام سے بہتر ہے اور صدقہ کرنا نماز سے بہتر ہے اور روزہ دوزخ سے مضبوط ڈھال ہے اور کوئی قول عمل کے بغیر مقبول نہیں ہوتا اور کوئی عمل نیت کے بغیر مقبول نہیں ہوتا اور کوئی قول اور عمل اور نیت اتباع سنت کے بغیر مقبول نہیں ہے (اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ ) (الکامل فی ضعفاء الرجال ج ٣ ص 480 جدید شعب الایمان رقم الحدیث :2243 مشکوۃ رقم الحدیث :2166 الجامع الصغیر رقم الحدیث :61112 جمع الجوامع رقم الحدیث :15282 کنز العمال رقم الحدیث :2303 الکشاف ج ٣ ص 611-612)
کلام طیب کی وجہ سے نیک عمل کے اوپر چڑھنے کی تحقیق
ان احادیث اور آثار کی بناء پر قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی المالکی اندلسی المتوفی 543 ھ کا مختاریہ ہے کہ اعمال صالحہ کے بغیر کلمات طیبہ مقبول نہیں ہوتے وہ لکھتے ہیں :
اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جو کلام، اللہ کے ذکر کے ساتھ مقترن نہ ہو وہ نفع نہیں دیات، کیونکہ جس شخص کا قول اس کے فعل کے خلاف ہو وہ اس پر وبال ہوتا ہے۔
اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ جب عمل صالح قول کے لئے شرط ہو یا اس کے ساتھ مربوط ہو، تو وہ قول اس عمل کے بغیر مقبول نہیں ہوتا اور اگر عمل صالح قول کے لئے شرط نہ ہو اور نہ اس کے ساتھ مربوط ہو تو اس کے کلمات طیبہ اس کے نفع کے لئے لکھے جاتے ہیں اور اس کے برے اعمال اس کے ضرر کے لئے لکھے جاتے ہیں، پھر اس کی نیک باتوں اور برے کاموں کا وزن کیا جائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ فرمائے گا۔ (احکام القرآن ج ٤ ص ١٦ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1408 ھ)
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
علامہ ابن العربی نے جو کچھ لکھا ہے وہی تحقیق ہے اور ظاہر یہ ہے کہ کلام طیب کے قبول ہونے کے لئے عمل صالح شرط ہے اور آثار میں ہے کہ جب بندہ صادق نیت کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو فرشتے اس کے عمل کی طرف دیکھتے ہیں اگر اس کا عمل اس کے قول کے موافق ہو تو فرشتے اس کے کلام اور عمل دونوں کو لے کر اوپر چڑھتے ہیں اور اگر اس کا عمل اس کے قول کے مخالف ہو تو فرشتے توقف کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اس برے عمل سے توبہ کرے، اس تحقیق کی بناء پر عمل صالح ہی کلام طیب کو اوپر لے جاتے ہیں۔ (الجامع لا حکام القرآن، جز ١٤ ص 297، دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
قاضی ابوبکر بن العربی اور علامہ قرطبی ونوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ایمان کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہنا نیک اعمال کے قبول ہونے کی شرط ہے، نیک اعمال لا الہ الا اللہ کے قبول ہونے کی شرط نہیں ہیں، ان دونوں بزرگوں کی یہ تحقیق قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے :
(النحل :97) جس نے بھی نیک عمل کئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بہ شرطی کہ وہ مومن ہو تو ہم اس کو پاکیزہ حیات کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔
قرآن مجید نے لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے اور اس کی شہادت دینے کو اصل اور نیک اعمال کے مقبول ہنے کی شرط فرمایا اور قاضی ابن العربی اور علامہ قرطبی نے اعمال صالحہ کو اصل اور لا الہ الا اللہ کے مقبول ہونے کی شرط قرار دیا ہے اور جس حدیث اور جن آثار کی بناء پر انہوں نے اصول اہل سنت اور ظاہر قرآن کے خلاف یہ لکھا ہے، ہم بتا چکے ہیں کہ ان کی اسانید ضعیف ہیں۔
نیز قاضی ابن العربی اور علامہ قرطبی کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر کلام طیب کے ساتھ نیک عمل نہ ہوں تو وہ کلام طیب مردود ہوگا، اور اوپر نہیں چڑھے گا اور وہ کلام طیب اس کے لئے باعث ضرر اور وبال ہوگا، بلکہ صحیح یہ ہے کہ اس کا کلام طیب مقبول ہوگا اور اوپر چڑھے گا اور اس کے لئے باعث اجر ہوگا البتہ نیک عمل نہ کرنے کی وجہ سے یا برے عمل کرنے کی وجہ سے وہ عذاب کا مستحق ہوگا قرآن مجید میں ہے :
(الزلزال :7-8) جس شخص نے ذرہ برابر بھی نیکی کی وہو اس کا اجر پائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی وہ اس کی سزا پائے گا۔
قاضی عبدالحق بن غالب عطیہ اندلسی متوفی 546 ھ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، بعض علماء کا قول حضرت ابن عباس کی اس روایت کے موافق ہے کہ جب بندہ اللہ کا ذکر کرے اور کلام طیب کہے اور اس کے ساتھ فرئاض بھی ادا کرے تو اس کے عمل کے ساتھ اس کا قول اوپر چڑھتا ہے ورنہ اس کا قول رد کردیا جاتا ہے۔
یہ قول اہل حق اہل سنت کے اعتقاد کو رد کرتا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) تک اس کی سند صحیح نہیں ہے اور حق یہ ہے کہ وہ فاسق جو فرئاض کا تارک ہو جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے گا اور کلام طیب کہے گا تو اس کا یہ عمل لکھا جائے گا اور اس کی طرف سے قبول کیا جائے گا اس کی نیکیوں کا اس کو اجر وثواب ملے گا اور اس کی برئایوں پر اس کو استحقاق عذب ہوگا، اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کے کلام طیب کو قبول فرماتا ہے جو شرک سے بچتا ہے اور جن صحابہ اور تابعین نے یہ کہا ہے کہ نیک عمل کی وجہ سے کلام طیب مقبول ہوتا ہے ان کے اس قول کی تاویل ہے کہ جب کلام طیب، عمل صالح کے ساتھ مقرون ہو تو وہ زیادہ بلندی کی طرف چڑھتے ہیں اور نہایت حسین مقام پر پہنچتے ہیں جیسے کوئی شخص نماز پڑھتا ہو اور روزے رکھتا ہو، جب وہ اس کے ساتھ ساتھ کلمات طیبہ بھی کہے گا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی کرے گا تو اس کے اعمال زیادہ فضیلت والے ہوں گے۔ (المحر رالوچیز ج ٣ ۃ ص 159 مکتبہ تجاریہ مکہ مکرمہ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی 1270 ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) کی طرف جو حدیث منسوب ہے میرا ظن غالب ہے کہ ان کی طرف یہ نسبت صحیح نہیں ہے، اور برتقدیر تسلیم اس کی یہ تاویل ہے کہ عمل صالح کی وجہ سے کلام طیب کو مزید شرف حاصل ہوتا ہے اور وہ زیادہ بلندی کی طرف چڑھتا ہے اور میرے ذہن میں اس آیت کا متبادور معنی یہ ہے کہ کلام طیب کے ساتھ عمل صالح کے اوپر چڑھنے کی تخصیص اس لئے کی ہے کہ بعض اوقات عمل صالح میں سخت کلفت اور مشقت ہوتی ہے، اسی وجہ سے اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنے کو جہاد اکبر کہا گیا ہے، اور امام رازی کے کلام میں یہ تصریح ہے کہ کلام طیب، عمل صالح سے زیادہ فضیلت والا ہے، کیونکہ کلام طیب (مثلا لا الہ الا اللہ) خود اوپر چڑھتا ہے اور اعمال صالح کو فرشتے اوپر لے کر چڑھتے ہیں اور کلام طیب کے عمل صالح سے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عمل کا تعلق حرکت اور سکون کے ساتھ ہے، جس میں انسان کے ساتھ حیوان بھی شریک ہیں اور کلام طیب کا تعلق نطق کے ساتھ ہے اور نطق ہی کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں سے ممتاز ہے، نیز اگر کوئی کافر لا الہ الا اللہ پڑھ لے اور کوئی تعلق نطق کے ساتھ ہے اور نطق ہی کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں سے ممتاز ہے، نیز اگر کوئی کافر لا الہ الا اللہ پڑھ لے اور کوئی نیک عمل نہ کرے تو دنیا میں اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہوجائے گی اور آخرت میں وہ دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا اور اگر کوئی شخص لا الہ اللا اللہ نہ کے اور عمل صالح کرتا رہے تو اس پر یہ ثمرہ مرتب نہیں ہوگا، لہٰذا کلام طیب ہی عمل صالح سے افضل ہے اور کلام طیب ہی کی وجہ سے عمل صالح اوپر چڑھتے ہیں نہ کہ عمل صالح، کلام طیب کو اوپر چڑھاتے ہیں۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص 226 داراحیاء التراث العربی بیروت) (روح المعانی جز ٢٢ ص 259-260، دارالفکر بیروت، 1419 ھ)
کفار کے مکر کا بیان
اس کے بعد فرمایا : اور جو لوگ برائیوں کی سازشیں کرتے رہے ہیں، ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کی سازش ناکام ہونے والی ہے
اس آیت میں مکر کا لفظ ہے جس کا ترجمہ ہم نے سازش کیا ہے، کیونکہ مکر کا معنی ہے کسی کے خلاف خفیہ تدبیر کرنا، یا کسی کے خلاف دھوکا اور فریب کرنا یا کوئی خفیہ تدبیر کر کے کسی شخص کو اس کے مقصد سے ہٹا دینا، اس آیت میں ان کے مکر اور ان کی سازش پر سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، اس مکر اور سازش کے متعلق امام ابوالعالیہ نے لکھا ہے کہ اس مکر سے مراد وہ سازش ہے جو انہوں نے دارالندوہ میں جمع ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتلک رنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا ذکر اس آیت میں ہے :
(الانفال :30) اور یاد کیجیے جب کافر آپ کے خلاف سازش کر رہے تھے تاکہ آپ کو قید کریں یا آپ کو قتلک ریں یا آپ کو جلا وطن کردیں، وہ اپنی سازش میں لگے ہوئے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔ اور اس آیت میں یبور کا لفظ ہے اس کا مصدر بور ہے، اس کا معنی ہلاک کرنا ہے، یہاں اس سے مراد ان کی سازش کا ناکام ہونا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 10
ٹیگز:-
تبیان القرآن , صعود , اللہ , کلام طیب , کفار , نیک عمل , سورہ فاطر , سورہ الفاطر , امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری , مکر , Tibyan ul Quran , کلمات طیبہ , Allama Ghulam Rasool Saeedi , فاطر , Quran , الکلم الطیب