أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَةٍ ثُمَّ جَعَلَـكُمۡ اَزۡوَاجًا ؕ وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِه ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ ۞

ترجمہ:

اور اللہ نے تم کو (ابتدائ) مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے، پھر تم کو جوڑے، جوڑے بنایا اور جو مادہ بھی حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جنتی ہے تو وہ اس کے علم میں ہے، اور جس شخص کی بھی عمر بڑھائی جاتی ہے یا جس کی عمر کم کی جاتی ہے وہ لوح محفوظ میں (لکھی ہوئی) ہے، بیشک یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے

مٹی اور نطفہ سے انسان کی پیدائش 

اور اللہ نے تم کو ابتداء مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر تم کو جوڑے جوڑے بنایا۔ قتادہ نے کہا اس سے مراد ہے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور تم کو پیدا کرنے سے مراد ہے تمہاری اصل کو مٹی سے پیدا کیا، حدیث میں ہے :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الدیث :3270 صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :2781)

پھر حضرت آدم کے بعد انسان کو نطفے سے پیدا کیا، نطفہ اس پانی کو کہتے ہیں جو مرد کی پشت اور عورت کے سینہ سے نکلتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

(الطارق :5-7) انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پشت اور سینہ کے درمیان سے سے نکلتا ہے۔

مرد کیپشت اور عورت کے سینہ سے دو قسم کے پانی نکلتے ہیں لیکن رحم میں پہنچ کر وہ دونوں پانی ایک ہوجاتے ہیں۔

حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا پھر ان کی اولاد کو توالد اور تناسل کے ذریعہ نطفہ سے پیدا فرمایا۔

عمر میں اضافہ کر کے لوح محفوظ میں لکھے کے ہوئے کو مٹانا 

اس کے بعد فرمایا : اور جو مادہ بھی حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جنتی ہے تو وہ اس کے علم میں ہے اور جس شخص کی بھی عمر بڑھائی جاتی ہے، یا جس کی عمر کم کی جاتی ہے وہ لوح محفوظ میں (لکھی ہوئی) ہے، بیشک یہ اللہ کے لئے آسان ہے عمر بڑھائے جانے کا ذکر ان احادیث میں ہے : 

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو اس سے خوشی ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے یا اس کی عمر زیادہ کی جائے اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں سے میل جول رکھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2067 صحیح مسلم رقم الحدیث :2557 سنن ابو دائود رقم الحدیث :1993، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :11429)

حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمر صرف نیکی سے زیادہ ہوتی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2139 المعجم الکبیر رقم الحدیث :6128)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا عمر کو بڑھاتا ہے۔ (الترغیب للمنذری ج ٣ ص 596، الکامل لابن عدی ج ٣ ص 43، الجامع الصغیر رقم الحدیث :3137 اس حدی کی سند ضعیف ہے)

تقدیر کی دو قسمیں ہیں تقدیر مبرم اور تقدیر معلق، تقدیر مبرم اللہ تعالیٰ کا علم ہے اس میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں ہوتا، اور اس میں تغیر ہونا اللہ تعالیٰ کے علم میں تغیر ہونے کو مستلزم ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں تغیر ہونا اس کے علم کے حدوث کو بلکہ جہل کو مستلزم ہے اور تقدیر کی دوسری قسم تقدیر معلق ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی صفت نہیں ہے، کسی کی دعایا کسی نیکی سے تقدیر بدل جاتی ہے، مثلاً پہلے لوح محفوظ میں ایک شخص کی عمر ساٹھ سال لکھ دی اس نے کوئی نیکی کی تو ساٹھ سال کو مٹا کر ستر سال لکھ دی اگر نیکی نہ کی تو اس ساٹھ سال کو برقرار رکھا یہ قضاء معلق میں تبدیلی ہے کہ لیکن اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ وہ نیکی کرے گا یا نہیں اور وہی قضاء مبرم ہے اسکا ذکر اس آیت میں ہے :

(الرعد :39) اللہ جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے برقرار اور ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

ام الکتاب سے مراد تقدیر مبرم ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 11