🔏استحصال علمی۔
سرقہ علمی
📜حضرت سیدنا امام مالک رحمة الله عليه کی دیانت علمی ۔
🌻 حدثنا إبراهيم بن عبد الله ، ثنا محمد بن إسحاق ، قال : سمعت أبا يحيى ، يقول : سمعت ابن قعنب ، يقول : سمعت مالك بن أنس ، يقول : قال رجل :ما كنت لاعبا فلا تلعبن بدينك
📗 حلية الأولياء

ابن قعنب کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن انس کو کہتے ہوئے سنا کہ
کسی صاحب نے کہا ! تم جو کھلواڑ ، جو دل لگی کرنا چاہو کرتے پھرنا لیکن اپنے دین کے ساتھ کھیل تماشا ہرگز نہ کرنا ۔

📗 ابن البطة کی الابانة اور ابن الحاج کی المدخل میں ایک مزید فائدہ یوں ہے کہ حضرت مالک نے پہلے فرمایا ۔
پیچیدہ اور لا علاج بیماری التنقل فی الدین ہے ۔ اور اس کے بعد فرمایا کہ میں نے ایک صاحب سے سنا کہ اور دل لگیاں کرتے رہنا ۔ دین میں دل لگی ہرگز نہ کرنا
التنقل کا معنی ہے ایک حالت سے دوسری میں منتقل ہونے کی عادت بنا لینا ۔ تو ایک مطلب تو وہی ہوا کہ

  • پہلے کچھ منہ سے نکال دیا ، پھر کہا کہ میں تو مزاح کے موڈ میں تھا ۔ * کوئی نفل عبادت شروع کیا ، پھر بلا سبب ختم کر دی ۔
  • ایک تیسرا مطلب یہ بھی ہے کہ دیکھا دیکھی یا کوئی فتوی پسند نہ آنے کی وجہ سے مسلک ہی تبدیل کر لیا ۔ جس مسلک سے اپنی پسند کا قول مل گیا ، اسی میں چلے گئے ۔

📗اور ایک روایت میں امام مالک کا یہ خطاب عبد اللہ بن وھب کو بھی ہے اس کے شروع میں ایک خوب ہدایت یہ بھی ہے
🌟لوگوں کو اپنے اوپر مت لادنا ۔

  • یعنی دین میں دل لگی کر کے یا کسی اور گناہ کے آغاز سے دوسروں کی گمراہی کا سبب بن کر ان کے گناہوں کا بوجھ اپنے پر نہ ڈال لینا ۔۔
    فقیر خالد محمود عرض گذار ہے کہ اس نے جب یہ اقوال پڑھے تو بہت کچھ آنکھوں کے سامنے آیا ۔
    💥سب سے پہلے تو امام مالک کی دیانت علمی ۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی متعدد نصوص میں یہ مضمون موجود ہے ۔
    اس قول کا قائل بھی امام کو اب یاد نہیں سو آپ اسی سنی ہوئی بات کو ، اسی مضمون کو اپنے الفاظ میں بیان فرما سکتے تھے ۔ لیکن امام نے تصریح کر دی کہ میں نے سنا ہے ۔
    تو پتہ یہ چلا کہ مضمون و مفہوم کا اگرچہ پہلے سے بھی علم ہو لیکن کسی اور کے نتیجہ فکر ، کسی اور کے علمی قول کو اپنا بنا کے بیان کرنا علمی دیانت نہیں بلکہ چوری سینہ زوری ہے خواہ وہ ایک قول کی ہی کیوں نہ ہو ۔
    صاف پتہ چلا کہ
  • اس نوع کا علمی مواد جتنا زیادہ ہو گا یہ جرم اسی قدر زائد شنیع ہوتا چلا جائے گا
  • اور اگر کوئی سرمایہ کے بل بوتے پر کسی کی کوئی کتاب خرید کر اپنے نام سے شائع کرے یا کچھ علماء کو اجرت پر رکھ لے اور ان کی محنت ، ان کی تحریر، ان کی تحقیق کو اپنی بنا کر شائع کرے تو وہ بھی استحصال علمی ہے اور استحصال علمی ہو ، مالی و مادی ہو ، وسائل و ذرائع کا ہو ، انفرادی ہو یا اجتماعی یا کوئی اور ، پسندیدہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا ۔

☀ دین ، اللہ تبارک و تعالی کا نازل فرمودہ ، پسند کردہ ایک نظام ہے ۔ اس کے تمسخر سے اجتناب ضروری ہے خواہ اس کی کوئی بھی شکل ہو مثلا

☆ دین کو منزل من اللہ مذہب کا صحیح مقام دینے کے بجائے موم کی ناک کی طرح آسان اور اپنی خود ساختہ تعبیر دے دی جائے ۔ اس مفہوم کی آیات کا شان نزول کچھ اس طرح سے ہے کہ لوگ کوئی بات کرتے مثلا طلاق دے دیتے ۔ جب حکم شرعی کا پتہ چلتا تو U Turn لیتے ہوئے کہتے کہ میں تو ڈرا رہا تھا ، دل لگی کر رہا تھا ۔
☆ دین کو اس کے مستند ذرائع سے خود حاصل نہیں کیا ادھر ادھر سے اینٹ روڑے جوڑ کر علمی باتیں اور بحثیں کرنا ، دین کے ساتھ کھلواڑ ہے

☆ دین کے شعائر اور مظاہر کو ہلکا لینا ، ان کی تحقیر، ان کی جگ ہنسائی، دین کی ہی تحقیر و تشنیع ہے
🌿 یہ بھی پتہ چلا کہ
سلف صالحین سادہ طرح کے القابات کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کجا اس دور کے واقعیت سے کوسوں دور لمبے چوڑے القابات کی گردان ۔
اور سلف سے کس قدر دور ہیں وہ جو مبالغہ آمیز القابات خود بتاتے ہیں، لکھ کر دیتے ہیں ۔ کوئی بولے تو اپنا سر دھنتے ہیں