حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک رفع الیدین کی حدیث اور غیر مقلد زبیر زئی کے اعتراضات کا رد بلیغ

امام بخاری اور امام مسلم کے استاد امام ابوبکر بن ابی شیبہ حدیث روایت کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ»

ترجمہ: امام ابوبکر بن ابی شیبہ بیان فرماتے کہ ان سے وکیع (بن الجراح)نے اور ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف النہشلی نے اور ان سے عاصم بن کلیب نے اور ان سے ان کے والد (کلیب بن شہاب) نے روایت کرتے ہیں کہ بےشک حضرت علی کرم اللہ وجہہ نماز کی پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا کرتے تھے اس کے بعد (پھر) رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار

المؤلف: أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستي العبسي (المتوفى: 235هـ)

مَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ

كِتَابُ الصَّلَوات

جلد#1 – صفحہ#213

حدیث#2442

اس حدیث کی سند پر تحقیق

1۔اس حد یث کے پہلے راوی خود امام بخاری اور امام مسلم کے استاد امام ابوبکر بن ابی شیبہ ہیں جو ثقہ ترین حافظ الحدیث ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

وکیع بن الجراح ہیں جن کے بارے میں محدثین یہ فرماتے ہیں: اس حدیث کے دوسرے راوی امام -2

امام عجلی فرماتے ہیں : “ثقہ عابد” (معرفۃ الثقات رقم#1938)

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: “مطبوع الحفظ” (الجرح والتعدیل رقم#168)

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں : “ثقہ” (الجرح والتعدیل رقم#168)

امام ذہبی لکھتے ہیں : “حافظ الثبت محدث” (تذکرۃ الحفاظ 1/223)

امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: “ثقہ حافظ” (تقریب التہذیب رقم#7414)

امام الخزرمی فرماتے ہیں: “الحافظ” (خلاصہ تہذیب تہذیب الکمال 1/415)

امام الکلا باذی نے لکھا: “فی رجال البخاری” (رجال صحیح البخاری رقم #1288)

امام ابن منجویہ لکھتے ہیں : “فی رجال المسلم” (رجال صحیح مسلم رقم#1775)

امام ابن حبان فرماتے ہیں: “من الحفاظ المتقنین” (مشاہیر علماء الامصار1/272)

امام ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں: “وکیع احفظ الناس” (شرح علل الترمذی 1/170)

امام سہل بن عثمان فرماتے ہیں: “ما رایت احفظ” (الجرح والتعدیل رقم#168)

3- اس حدیث کے تیسرے راوی ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف النہشلی ہیں جن کے بارے میں محدثین یہ فرماتے ہیں:

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: “ثقہ” (تاریخ ابن معین 1/47)

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: ” ثقہ” (العلل والمعرفۃ رقم#4371)

امام ابو حاتم فرماتے ہیں: “شیخ صالح” (الجرح والتعدیل رقم#1536)

امام ذہبی لکھتے ہیں : ” ثقہ” (الکاشف رقم#6548)

امام احمد بن یونس فرماتے ہیں: “شیخا صالحا” (تاریخ الدوری رقم#943)

امام ابن منجویہ لکھتے ہیں : “فی رجال المسلم” (رجال صحیح مسلم رقم#1961)

امام ابوداود فرماتے ہیں : ” ثقہ” (تہذیب التہذیب رقم#8329)

امام عجلی فرماتے ہیں : “ثقہ ” (معرفۃ الثقات رقم#2102)

امام ابن الحماد الحنبلی لکھتے ہیں : “صدوق” (شذرات الذہب 1/254)

امام ابن مہدی فرماتے ہیں : “ثقات مشیخۃ الکوفۃ” (تہذیب التہذیب رقم#8329)

امام عسقلانی لکھتے ہیں : “صدوق” (تقریب التہذیب رقم#8001)

اس حدیث کے چوتھے راوی عاصم بن کلیب ہیں جن کے بارے میں محدثین یہ فرماتے ہیں:-4

امام عجلی فرماتے ہیں: “ثقہ” (معرفۃ الثقات العجلی رقم #815)

امام ابو حاتم لکھتے ہیں: “صالح” (الجرح والتعدیل رقم#1929)

امام احمد فرماتے ہیں: “لا باس بہ” (الجرح والتعدیل رقم#1929)

امام ابن شاہین لکھتے ہیں: “ثقہ” (تاریخ اسماء الثقات رقم#833)

امام احمد بن صالح المصری فرماتے ہیں: “من الثقات” (تاریخ اسماء الثقات رقم#833)

امام ابن منجویہ لکھتے ہیں : “فی رجال المسلم” (رجال صحیح مسلم رقم#1245)

امام عسقلانی لکھتے ہیں : “صدوق” (تقریب التہذیب رقم#3705)

امام ذہبی فرماتے ہیں: “ثقہ” (ذکر من تکلم رقم#170)

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: “ثقہ” (من کلام ابی زکریا رقم#63)

امام ابن حبان نے کہا: “متقنی الکوفین” (مشاہیر علماء الامصار رقم#1305)

5- اس حدیث کے پانچویں راوی کلیب بن شہاب ہیں جن کے بارے میں محدثین یہ فرماتے ہیں:

امام عجلی فرماتے ہیں : “تابعی ثقہ” (معرفۃ الثقات العجلی رقم #1555)

امام ابوزرعہ نے کہا : “ثقہ” (الجرح والتعدیل رقم#946)

امام ابن سعد فرماتے ہیں: “ثقہ” (طبقات الکبریٰ 6/123)

امام ابن حبان نے ثقات میں درج فرمایا (الثقات لابن حبان رقم#5111)

امام عسقلانی لکھتے ہیں : “صدوق” (تقریب التہذیب رقم#5660)

6- اسی حدیث کے چھٹے راوی خود امیر المومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ہیں جو بھی ان پر جرح کرے گا وہ ضرور منافق ہوگا سرکار مدینہ ﷺ کے فرمان کے مطابق۔

اس حدیث کے تمام راوی صحیح مسلم کے ہیں سوائے کلیب بن شہاب کے جو کہ ثقہ تابعی ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس حدیث کی سند بے غبار اور صحیح ہے۔ آج تک کوئی بھی غیرمقلد محدث اس حدیث میں سے ایک راوی ضعیف ثابت نہ کر سکا نہ ہی قیامت تک ثابت کر سکے گا۔(انشاءاللہ)

اب آتے ہیں غیر مقلد زبیر زئی کے اعتراضات پر پھر ایک ایک اعتراض کو چن چن کررد بلیغ کرتے ہیں۔

غیر مقلد زبیر زئی نے اپنی کتاب نورالعینین ص165 پر اس حدیث پر اور اعتراضات تو کیے ہیں لیکن سند پر کوئی اعتراض نہیں کیااور نہ ہی اس حدیث میں سے کوئی راوی جمہور محدثین سے ضعیف ثابت کر پایا ۔ لہذا اور اعتراضات کا جائزہ لے کر اس کا رد بلیغ کرتے ہیں۔

اعتراض 1: زبیر زئی نور العینین ص 165 پر پہلا اعتراض نقل کرتا ہے۔

“مروی ہے کہ سفیان ثوری نے اس اثر کا انکار کیا ہے۔” (جزءرفع الیدین للبخاری:11)

اس اعتراض کا رد:

زبیر زئی نے یہاں بڑی چالاکی اور منافقت سے اس اعتراض کی سند چھپا لی اگر سند ظاہر کر دیتا تو اس کا اعتراض عام لوگوں کے لیے گمراہی کا باعث نہ بنتا لہذا ہم اس اعتراض کی سند نقل کر کے زبیر زئی کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔

محمود بن اسحق (مجہول راوی) امام بخاری سے یہ بات نقل کرتا ہے۔

وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: ذَكَرْتُ لِلثَّوْرِيِّ حَدِيثَ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبِ، فَأَنْكَرَهُ

(جزءرفع الیدین للبخاری:11)

ترجمہ: اور عبدالرحمن بن مہدی نے کہا: میں نے امام (سفیان) ثوری کے سامنے النہشلی عن عاصم بن کلیب کی حدیث بیان کی تو انہوں نے انکار کیا۔

اس جرح میں امام بخاری کا سماع عبدالرحمن بن مہدی سے ثابت نہیں کیونکہ امام بخاری کی پیدائش 194 ہجری میں ہوئی اور عبدالرحمن بن مہدی کی وفات 198 ہجری کو ہوئی ۔لہذا امام بخاری نے چار سال کی عمر میں پتہ نہیں یہ جرح کیسے سن لی جب کہ اس عمر میں ان کو حدیث کے علم کی خبر تک نہیں۔لہذا جرح منقطع اور ضعیف مردود ہے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود جزءرفع الیدین للبخاری کا راوی محمود بن اسحق مجہول ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک اس کا ثقہ ہونا ثابت نہیں۔

اب آپ خود جان جان گئے ہوں گے کہ زبیر زئی نے سند کیوں چھپا لی تھی کیونکہ اس سے اسکا جھوٹ پکڑا جاتا لیکن اس کو یہ پتہ نہیں تھا کہ حق اور سچ کبھی چھپ نہیں سکتا۔

اعتراض2: زبیر زئی دوسرا اعتراض نورالعینین ص165 پر لکھتا ہے۔

“امام عثمان بن سعید الدارمی نے اس کو وااہی (کمزور) کہا۔” (السنن الکبری للبیہقی 2/80-81 و معرفۃ السنن والآثار1/550)

اس جرح کا رد:

ہم اوپر تحقیق سے ثابت کر چکے ہیں کہ جمہور کے مطابق اس حدیث میں ایک راوی بھی ضعیف نہیں پھر اس روایت کو امام دارمی کا واہی (کمزور)کہنا خود ضعیف ہے کیونکہ اس روایت میں ضعیف کوئی راوی نہیں۔ پھر بھی ہم امام دارمی کا اعتراض نقل کر کے پھر انکے اعتراض کا رد آئمہ حدیث سے ثابت کرتے ہیں۔

امام بیہقی امام دارمی کی جرح نقل کرتے ہیں:

قَالَ عُثْمَانُ الدَّارِمِيُّ: فَهَذَا قَدْ رُوِيَ مِنْ هَذَا الطَّرِيقِ الْوَاهِي، عَنْ عَلِيٍّ وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” يَرْفَعُهُمَا عِنْدَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَمَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ” فَلَيْسَ الظَّنُّ بِعَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ يَخْتَارُ فِعْلَهُ عَلَى فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(السنن الکبری للبیہقی 2/80-81 )

ترجمہ: امام عثمان الدارمی نے کہا: یہ حدیث اس سند سے کمزور ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور عبدالرحمن بن ہرمز الاج روایت کیا ہے عبیداللہ بن ابی رافع سے اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو رکوع ادر رکوع کے بعد سر اٹھاتے رفع یدین کرتے دیکھا۔تو یہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود نبی ﷺ سے رفع یدین کرنے کی روایت کریں پھر اس کی مخالفت کریں۔

اب ہم امام دارمی کے اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں کہ جو حدیث انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کی نقل کی وہ خود ضعیف ہے کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن ابی الزناد ضعیف راوی موجود ہے۔امام ترمذی نے یہ سند روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلاَّلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الهَاشِمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(جامع الترمذی رقم#3423)

اسی سند میں عبدالرحمن بن ابی الزناد موجود ہے جس کو امام دارمی نے نقل کیا ہے ۔اب عبدالرحمن بن ابی الزناد کے بارے میں محدثین یہ فرماتے ہیں:

قال صالح بن أحمد بن حنبل ، عن أبيه : مضطرب الحديث

قال أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز ، عن يحيى بن معين : ليس ممن يحتج به

أصحاب الحديث ، ليس بشىء .

و قال المفضل بن غسان الغلابى ، و معاوية بن صالح ، عن يحيى بن معين : ضعيف .

و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : ابن أبى الزناد دون الدراوردى ، لا يحتج

بحديثه۔

قال محمد بن عثمان بن أبى شيبة ، عن على ابن المدينى : كان عند أصحابنا ضعيفا

و قال يعقوب بن شيبة : ثقة ، صدوق ، و فى حديثه ضعف ، سمعت على ابن المدينى

يقول : حديثه بالمدينة مقارب ، و ما حدث به بالعراق فهو مضطرب ، قال على : و قد

نظرت فيما روى عنه سليمان بن داود الهاشمى ، فرأيتها مقاربة .

قال محمد بن سعد : قدم بغداد فى حاجة له ، فسمع منه البغداديون ، و كان كثير

الحديث ، و كان يضعف لروايته عن أبيه .

قال النسائى : لا يحتج بحديثه .

قال أبو أحمد بن عدى : و بعض ما يرويه ، لا يتابع عليه .

قال الحاكم أبو أحمد : ليس بالحافظ عندهم .

(تہذیب الکمال رقم#3861)

لہذا امام دارمی کا اعتراض اور پیش کردہ روایت خود ضعیف ہے۔

اس لیے امام ابن ترکمانی امام دارمی کی جرح کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قلت كيف يكون هذا الطريق واهيا ورجاله؟؟ ثقات فقد رواه عن النهشلي جماعة من الثقات ابن مهدى واحمد بن يونس وغيرهما واخرجه ابن ابى شيبة في المصنف عن وكيع عن النهشلي والنهشلي اخرج له مسلم والترمذي والنسائي وغيرهم ووثقه ابن حنبل وابن معين وقال أبو حاتم

شيخ صالح يكتب حديثه ذكره ابن ابى حاتم وقال الذهبي في كتابه رجل صالح تكلم فيه ابن حبان بلا وجه وعاصم تقدم ذكره وابوه كليب بن شهاب اخرج له أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجة وقال محمد بن سعد كان ثقة

ترجمہ: میں (ابن ترکمانی) کہتا ہوں اس کی سند اور رجال کمزور کیسے ہو سکتے ہیں؟؟؟

جب کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اس کو نہشلی سے روایت کیا ہے ثقہ لوگوں کی جماعت نے ابن مہدی اور احمد بن یونس وغیرہم نےاور تخریج کی اس روایت کی امام ابن ابی شیبہ نے مصنف میں وکیع عن النہشلی سے۔اور امام مسلم ، امام ترمذی اور امام نسائی وغیرہم نے نہشلی سے روایت لی۔ امام احمد اور ابن معین نے توثیق کی ہے۔ اور امام ابوحاتم نے شیخ صالح کہا اور امام ابن ابی حاتم نے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔اور امام ذہبی اپنی کتاب میں کہا کہ نیک آدمی ہے ابن حبان نے بلاوجہ اس پر کلام کیا۔

عاصم کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور اس کے باپ کلیب بن شہاب سے امام ابوداود، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت لی اور امام محمدبن سعد نے ثقہ کہا۔

(الجوہر النقی 2/79)

آگے لکھتے ہیں:

فكيف يكون هذا الطريق واهيا بل الذى روى من الطريق الواهي هو ما رواه ابن ابى رافع عن على لان في سنده عبد الرحمن بن ابى الزناد وقد تقدم ذكره في الباب السابق

ترجمہ: یہ سند کیسے کمزور ہو سکتی ہے بلکہ کمزور سند وہ ہے جو کہ ابن ابی رافع نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔کیونکہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن ابی الزناد( ضعیف) ہے ۔اس کا ذکر پچھلے باب میں گزر چکا ہے۔ (الجوہر النقی 2/79)

اور جگہ لکھتے ہیں:

قلت ابن ابى الزناد هو عبد الرحمن قال ابن حنبل مضطرب الحديث وقال هو وابو حاتم لا يحتج به وقال عمرو بن على تركه

ترجمہ: میں (ابن ترکمانی )کہتا ہوں کہ ابن ابی الزناد عبدالرحمن ہے اور امام احمد نے کہا کہ وہ مضطرب الحدیث ہے اور انہوں نے اور امام ابوحاتم نے کہا اس سے احتجاج (دلیل) نہیں کیا جا سکتا۔اور عمرو بن علی نےاسکو ترک کردیا۔ ۔ (الجوہر النقی 2/73)

امام طحاوی امام دارمی کی جرح کا رد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَحَدِيثُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , إِذَا صَحَّ , فَفِيهِ أَكْثَرُ الْحُجَّةِ لِقَوْلِ , مَنْ لَا يَرَى الرَّفْعَ

ترجمہ: پس جب حدیث علی رضی اللہ عنہ صحیح ہوچکی ہے تو اس میں تارکین رفع یدین کے لیے بھاری حجت ہے۔ (شرح معانی الآثار 1/255 رقم#1356)

امام دارمی کی پیش کردہ رفع یدین کے بارے میں فرماتے ہیں:

وَحَدِيثُ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ خَطَأٌ

ترجمہ: اور (عبدالرحمن) بن ابی الزناد کی( رفع یدین والی ) روایت (اس کے ضعیف ہونے کی وجہ سے) خطا ہے۔ (شرح معانی الآثار 1/255 رقم#1356)

اور جگہ فرماتے ہیں:

أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِهِ سَقِيمًا

ترجمہ: کہ یہ روایت (امام دارمی کی رفع یدین کی پیش کردہ حدیث) خود اپنے آپ میں ضعیف ہے۔ (شرح معانی الآثار 1/255 رقم#1354)

امام دقیق بن العید شافعی امام دارمی کی جرح کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وتعقبه ابن دقیق العید فی الامام بان مَا قَالَهُ ضَعِيفٌ، فَإِنَّهُ جَعَلَ رِوَايَةَ الرَّفْعِ – مَعَ حُسْنِ الظَّنِّ بِعَلِيٍّ – فِي تَرْكِ الْمُخَالَفَةِ، دَلِيلًا عَلَى ضَعْفِ هَذِهِ الرِّوَايَةِ، وَخَصْمُهُ يَعْكِسُ الْأَمْرَ، وَيَجْعَلُ فِعْلَ عَلِيٍّ بَعْدَ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَلِيلًا عَلَى نَسْخِ مَا تَقَدَّمَ، (التعلیق الممجد صفحہ92، نصب الرایۃ 1/413)

امام ابن دقیق العید نے اپنی کتاب الامام میں اس کا تعاقب کیا اور کہا کہ امام دارمی نے جو کچھ کہا ہے وہ ضعیف ہے کیونکہ انہوں نے بقول خود رفع یدین کی روایت کو جو کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے ترک رفع یدین کے عمل کے ضعیف ہونے پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر حسن ظن کرتے ہوئے دلیل پکڑی ہے تو اس صورت میں مخالف (احناف) کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ معاملہ میں اس کے برعکس کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ترک رفع یدین کے عمل کو رسول ﷺ کے بعد حسن ظن کرتے ہوئے دلیل کے طور پر رفع یدین کے لیے ناسخ بنا ڈالے ۔

اعتراض3: زبیر زئی نور العینین ص165 پر تیسرا اعتراض نقل کرتا ہے۔

“امام شافعی نے اسے غیر ثابت کہا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 2/81)

اس اعتراض کا رد:

اس جرح میں زبیر زئی نے منافقت اور مکاری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے کیونکہ زبیر زئی نے اس جرح کی سند نقل نہیں کی کیونکہ اس جرح کی سند امام بیہقی سےلے کر امام زعفرانی تک نا معلوم ہے ۔ لہذا زبیر زئی کو اس جھوٹ کا ایوارڈ ملنا چاہیئے کیونکہ وہ نامعلوم اسناد سے عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔کیونکہ امام بیہقی نے اس جرح کی سند کو معلق اور منقطع نقل کیا ہے جو کہ جمہور کے نزدیک ضعیف اور مردود ہے۔

امام بیہقی اس طرح نقل کرتے ہیں اس جرح کو۔

قَالَ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ: الشَّافِعِيُّ فِي الْقَدِيمِ: وَلَا يَثْبُتُ عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ، يَعْنِي مَا رَوَوْهُ عَنْهُمَا مِنْ أَنَّهُمَا كَانَا لَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الِافْتِتَاحِ

(السنن الکبریٰ للبیہقی 2/81)

اس جرح کی سند منقطع ہے کیونکہ امام بیہقی اور امام حسن بن محمد بن الصباح الزعفرانى کے درمیان ملاقات ثابت نہیں کیونکہ امام زعفرانی کی وفات 259 یا 260 ہجری میں ہوئی اس دن تو امام بیہقی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کیونکہ امام بیہقی کی پیدائش 384 ہجری کو ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام بیہقی اور امام زعفرانی کے درمیان سند نامعلوم اور مجہول رواۃ سے پر ہے ۔لہذا یہ جرح ضعیف اور مردود ہے۔اور اس سے زبیر زئی کےجھوٹ کا پول بھی کھل گیا ہے۔

اعتراض4: زبیر زئی اپنا چوتھا اعتراض نقل کرتا ہے اپنی کتاب نورالعینین ص165 پر۔

“امام احمد نے گویا اس کا انکار کیاہے۔” (المسائل لاحمد ج1 ص 343)

اس اعتراض کا رد:

یہ اعتراض نقل کرنے میں زبیر زئی نے بہت زیادہ مکاری اور منافقت کا ثبوت دیا ہے۔امام احمد نے تو اس حدیث کی سند اور متن کا انکار تک نہیں کیا مگر وہابی زبیر زئی نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے یہ اعتراض لکھ ڈالا۔ آیئے اس اعتراض کی حقیقت دیکھتے ہیں۔

امام عبداللہ بن احمد اپنے والد امام احمد سے لکھتے ہیں:

قال ابی لم یروہ عن عاصم غیر ابی بکر النھشلی ما اعلمہ (العلل و معرفۃ الرجال رقم#717)

ترجمہ: میرے والد (امام احمد) نے کہا کہ عاصم (بن کلیب) سے ابوبکر نہشلی کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی جو میں جانتا ہوں۔ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ترک رفع یدین والی حدیث عاصم بن کلیب سے ابوبکر نہشلی نے روایت کی ہے)۔

دیکھا آپ نے کہ امام احمد نے حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ سند میں عاصم بن کلیب سے ابوبکر نہشلی کے اکیلے روایت کرنے کر بارے میں کہا ہے۔

حدیث میں یہ اصول ہے کہ ثقہ راوی کی روایت قبول ہوتی ہے چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو ایک ہی سند میں۔

دوسری بات یہ کہ امام احمد نے یہاں “اعلمہ” کہا ہے یعنی اپنے علم کے مطابق کہا ہے ورنہ ابو بکر نہشلی کی متا بعت محمد بن ابان (ضعیف راوی) نے کر رکھی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے اس حدیث کی سند میں ابوبکر نہشلی اکیلا راوی نہیں ہے۔

اگرچہ اس روایت میں ابو بکر نہشلی اکیلا کیونکہ نہ ہو پھر بھی اس کی روایت قبول کی جائے گی جب تک کوئی اس سے زیادہ اوثق راوی ا مخالفت نہ کرے اس کی روایت میں۔

اور یہ قول امام احمد کا نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے عبداللہ بن احمد کا ہے کیونکہ المسائل لاحمد ان سے روایت ہے۔اور ان کا فہم امام احمد کے فہم سے زیادہ مضبوط نہیں۔

عرب کے ایک مشہور محدث بشیر علی عمر اس روایت میں امام احمد کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“و فی ھذہ الروایۃ ینفی الامام احمد العلم بوجود متابع لابی بکر النھشلی ، و ھذا دون مطلق النفی و مع ذلک فہم ابنہ عبداللہ انہ ینکرہ ، و ھذا لمعرفۃ بان من منھجۃ اطلاق الانکار علی الحدیث الذی تفرد بہ روایۃ۔ و ابو بکر النھشلی ھو ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف و قد ثقۃ احمد و الصحیح ان ھذاالحدیث لم ینفرد بروایتہ عن عاصم بن کلیب ، فقد تابعہ محمد بن ابان عن عاصم بمثلہ، اخرجہ محمد بن الحسن الشیبانی و ذکرہ الدارقطنی تعلیقا ، و لعل من اجل ھذا لم یجزم امام احمد ینفی وجود المتابع لہ، بل نفی علمہ بذلک فحسب۔”

(المنہج امام احمد 2/789)

ترجمہ: اس روایت میں امام احمد اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ان کے علم کے مطابق ابو بکر نہشلی کے لیےکوئی متابع نہیں ۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ھوتا کہ اس کا کوئی دوسرا متابع موجود نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ ان کے بیٹے نےیہ سمجھا کہ امام احمد نے متابع کی نفی کی لہذا یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ان کا بیٹا جو سمجھے وہ صحیح بھی ہو۔ابو بکر نہشلی سے مراد ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف ہیں ان کوامام احمد نے ثقہ قرار دیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عاصم بن کلیب سے یہ حدیث کلیب سے روایت کرنے میں منفرد نہیں بلکہ عاصم سے محمد بن ابان نے ان کی متابعت کی ہے۔ امام محمد نے اس کی تخریج کی اور امام دارقطنی نے اسے تعلیقا ذکر کیا۔اس لیے امام احمد نے یقینی طور پراس کی متابع کی نفی نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ میرے علم کے مطابق اس کا کوئی متابع نہیں۔

لہذا امام احمد نے متابع کا انکار کیا ہے (حدیث کا نہیں )مگر اس کا متابع بھی ثابت ہوچکا ہے۔اگر متابع نہ بھی ہوتا پھر بھی یہ روایت اصول حدیث کے مطابق صحیح ہے۔

5- غیرمقلد زبیر زئی پانچواں اعتراض نقل کرتا ہے نورالعینین ص165 پر۔

“امام بخاری نے جرح کی۔” (جزءرفع یدین:11)

اس اعتراض کا رد:

زبیر زئی نے اس جرح کو نقل کرنے میں بہت جھوٹ بولا ہے امام بخاری نے اس حدیث کی سند پر کوئی کلام نہیں کیا یہاں ترجیح دی ہے۔

امام بخاری کی اصل عربی عبارت یہ ہے۔

وَحَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَصَحُّ مَعَ أَنَّ حَدِيثَ كُلَيْبٍ هَذَا لَمْ يَحْفَظْ رَفْعَ الْأَيْدِي , وَحَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ هُوَ شَاهِدٌ.

ترجمہ: اور عبیداللہ کی حدیث زیادہ صحیح ہے ساتھ اس کے کلیب کی اس حدیث میں رفع یدین کو یاد نہیں رکھا گیا اور عبیداللہ کی حدیث گواہ ہے۔

دیکھا آپ نے امام بخاری نے اپنے علم کے مطابق ایک حدیث کو دوسری حدیث پر ترجیح دے رہے ہیں۔

لیکن امام بخاری سے خود یہاں تساہل ہوگیا کیونکہ عبیداللہ کی حدیث کیسے زیادہ صحیح ہو سکتی ہے جب کہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن ابی الزناد ضعیف موجودہے جس کو ہم اوپر جمہور محدثین سے ضعیف ثابت کرآئے ہیں۔

اور دوسرا جواب یہ کہ اس جرح کی امام بخاری تک صحیح سند نہیں ہے۔ اس کی سند یہ ہے۔

امام عسقلانی اس سند کو نقل کرتے ہیں:

أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ الْإِمَامُ الْعَلَّامَةُ الْحَافِظُ الْمُتْقِنُ بَقِيَّةُ السَّلَفِ زَيْنُ الدِّينِ أَبُو الْفَضْلِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْعِرَاقِيِّ وَالشَّيْخُ الْإِمَامُ الْحَافِظُ نُورُ الدِّينِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْهَيْثَمِيُّ بِقَرَاءَتِي عَلَيْهِمَا قَالَا: أَخْبَرَتْنَا الشِّيخَةُ الصَّالِحَةُ أُمُّ مُحَمَّدٍ سِتُّ الْعَرَبِ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ الْبُخَارِيِّ قَالَتْ: أَخْبَرَنَا جَدِّي الشَّيْخُ فَخْرُ الدِّينِ بْنُ الْبُخَارِيِّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا حَاضِرَةً وَإِجَازَةً لِمَا يَرْوِيهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَعْمَرِ بْنِ طَبَرْزَدَ سَمَاعًا عَلَيْةِ أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ الْبِنَاءِ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَسْنُونَ النَّرْسِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى الْمَلَاحِمِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ مَحْمُودُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ مَحْمُودٍ الْخُزَاعِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْإِمَامُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْبُخَارِيُّ

(جزءرفع یدین:11)

اس سند میں ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی ہے اس کی جمہور محدثین سے توثیق ثابت نہیں۔باقی زبیر زئی کا یہ کہناکہ امام عسقلانی نے اسکی ایک روایت کو نقل کر کے اسے “حسن” کہا ہے اور یہ امام عسقلانی کے نزدیک صدوق ہے۔

یہ بھی جھوٹ ہے زبیر زئی کا کیونکہ امام عسقلانی نے دو ضعیف روایت کی اسناد کو لکھ پھر متابع کو دیکھا تو اسی حدیث کی سند میں محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی کی متابعت ایک ضعیف راوی کر رہا تھا تو اس لیے امام عسقلانی نے اس حدیث کو حسن کہا وہ بھی حسن لغیرہ کی قسم میں۔دیکھیں حوالے کے لئے امام عسقلانی کی کتاب موافقۃ الخبرالخبر ج2 ص417۔

لیکن امام عسقلانی نے اپنی کسی بھی کتاب میں محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی کو “صدوق” نہیں لکھا۔

لہذا یہ جرح ضعیف اور مردود ہے۔

6-زبیر زئی اپنا چھٹا اعتراض نقل کرتا ہے نورالعینین ص165 پر۔

“ابن ملقن نے اسے ضعیف لایصح عنہ کہا۔” (البدرالمنیر 3/499)

اس اعتراض کا رد:

امام ابن ملقن نے یہاں تحقیق سے کا م نہیں لیا بلکہ امام بخاری اور امام سفیان ثوری کی ضعیف اسناد والی جرحوں سے دھوکہ کھا گے جس سے انھوں نے ایک صحیح سند حدیث کو ضعیف کہے دیا۔اگر یہاں خودتحقیق کرتے راویوں پر توپھر کبھی ضعیف نہ کہتے حا لانکہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی بھی ضعیف نہیں۔

امام ابن ملقن کی ہم جرح نقل کر کے اس کا رد بیان کرتے ہیں۔

امام ابن ملقن کی جرح یہ ہے۔

وأما الْآثَار فأثر عَلّي رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ضَعِيف لَا يَصح عَنهُ، وَمِمَّنْ ضعفه البُخَارِيّ ثمَّ رُوِيَ تَضْعِيفه عَن سُفْيَان الثَّوْريّ، وَرَوَى الْبَيْهَقِيّ فِي سنَنه و خلافياته عَن عُثْمَان الدَّارمِيّ أَنه قَالَ: قد رُوِيَ هَذَا الحَدِيث عَن عَلّي من هَذَا الطَّرِيق الواهي

(البدرالمنیر 3/499)

دیکھا آپ نےامام ابن ملقن نے وہی پرانی ضعیف جرحوں کو نقل کیا ہے۔ امام بخاری کی جرح کی سند میں محمود بن اسحاق مجہول راوی ہے۔امام سفیان کی سند میں امام بخاری کی ملاقات امام عبدالرحمن بن مہدی سے ثابت نہیں سندمنقطع ہے اور امام دارمی کی جرح خود ضعیف ہے کیونکہ ان کی پیش کردہ روایت میں عبدالرحمن بن ابی الزناد ضعیف موجود ہے اور امام شافعی کی جرح کی سند میں امام بیہقی سے لے کر امام زعفرانی تک سند نامعلوم اور منقطع ہے۔ اور امام ابن ملقن ان تمام ضعیف جرحوں سے خطا کھا گے اور خود ان سے دلیل لے بیٹھے لہذا جب تمام جرحیں ضعیف ہیں تو امام ابن ملقن کی جرح خود بخود ضعیف اور غیرمفسرثابت ہو جاتی ہے۔ ہم اس تمام اسنادکواوپر ضعیف ثابت کر آئے ہیں۔لہذا اس حدیث پر تمام جرحیں ضعیف اور مردود ہیں۔

اور ترک رفع یدین کی حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سےثابت ہے۔

7۔ زبیر زئی کا ساتواں اعتراض نورالعینین ص 165 پر یہ ہے۔

“جمہور محدثین کے نزدیک یہ اثر ضعیف و غیر ثابت ہے لہذا اس سے استدلال مردود ہے۔”

خود دیکھ لیں کہ زبیر زئی وہابی نے کتنا بڑا جھوٹ بولا ہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ حالانکہ اس کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں یہ سب جرحیں ضعیف و مردود ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ اس زبیر زئی وہابی کے نزدیک ضعیف جرحیں ہی جمہور ہیں۔اللہ بچائے ان جیسے کذاب اور دجالوں سے۔(امین)

اس حدیث کی تصحیح کرنے والے ائمہ حدیث اور ان کے حوالہ جات:

امام طحاوی نے کہا: “فحدیث علی اذا صح” (شرح معانی الآثار 1/155 رقم#1356)

امام بدرالدین عینی نے کہا: ” صحیح علی شرط مسلم” (عمدۃ القاری 5/273)

امام دارقطنی نے کہا: ” موقوفا صوابا” (العلل الدرقطنی 4/106)

امام ابن ترکمانی نے کہا: ” رجالہ ثقات” (الجوہر االنقی 2/78)

امام ابن دقیق العید: مائل بہ تصحیح (نصب الرایۃ 1/413)

امام زیلعی نے کہا: “و ھو اثر صحیح ” (نصب الرایۃ 1/406)

امام ابن حجر عسقلانی نے کہا: “رجالہ ثقات” (الدرایۃ 1/153)

امام مغلطائی: مائل بہ تصحیح (شرح ابن ماجہ 1/1473)

امام قاسم بن قطلوبغا نے کہا: “سندہ ثقات” (التعریف والاخبار ص309)

ملاعلی قاری : مائل بہ تصحیح (اسرار المرفوعۃ 1/494)

تحقیق سے ثابت ہوا زبیر زئی جھوٹا ہے اور اس حدیث پرتمام جرحیں ضعیف اور مردود ہیں۔

رضاء العسقلانی