ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

” إِذَا أُطْلِقَ عَلِيٌّ فِي آخِرِ الْإِسْنَادِ فَهُوَ الْمُرَادُ كَمَا إِذَا أُطْلَقَ عَبْدُ اللَّهِ فَهُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَإِذَا أُطْلِقَ الْحَسَنُ فَهُوَ الْبَصْرِيُّ”۔

(ترجمہ) جب سند کے آخر میں مطلقاً علی لکھا ہو تو اس سے مراد مولی علی رضی اللہ عنہ ہوتے ہیں ، جیسا کہ جب آخر میں مطلقاً عبد اللہ لکھا ہو تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہوتے ہیں اور جب حسن مطلق لکھا ہو تو اس سے مراد امام حسن بصری رحمہ اللہ ہوتے ہیں۔

[ جمع الوسائل في شرح الشمائل , ج1 ، ص21 ]

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں۔

“وَالْمُطْلَقُ مِنْ هَذَا الِاسْمِ يُرَادُ بِهِ الثَّوْرِيُّ”

(ترجمہ) جب مطلق سفیان لکھا ہو تو اس سے مراد حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ ہوتے ہیں۔

[ جمع الوسائل في شرح الشمائل , ج1 ، ص116 ]

غلام رضا
10-12-2020ء