شیخ عماد الدین ابی حجلہ کا سانحہ ارتحال
از: افتخار الحسن رضوی
فضیلۃ الشیخ علامہ عماد الدین ابی حجلہ علیہ الرحمہ اسطنبول میں انتقال کر گئے۔ تقریباً ایک ماہ تک کورونا میں مبتلا رہے۔ بلند ہمت، صحت مند، طویل قامت اور خوبصورت عالم دین تھے۔ ان کی زندگی مسلسل سفر میں کٹی، فلسطین میں پیدا ہوئے، شام اور یمن سے تعلیم حاصل کی، امریکہ میں اقامت اختیار کی، گزشتہ کچھ برسوں سے ترکی منتقل ہو چکے تھے۔ یورپ اور ایشیاء کے متعدد ممالک میں لیکچرز کے لیے سفر کرتے رہے۔
ان کے ساتھ میری واقفیت کا سبب کچھ امریکی دوست اور علامہ عمر حیات قادری (صفہ فاونڈیشن ہڈرس فیلڈ، برطانیہ) بنے۔ فون پر رابطہ ہوا تو بہت خوشی سے بات چیت کی اور فوراً اسطنبول میں گھر پر دعوت دی۔ اسطنبول کی ٹریفک ہمیشہ پریشان کن ہوتی ہے، اس لیے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانا بھی اڈونچر ہوتا ہے، لیکن شیخ کی محبت میں ہم اپنی قیام گاہ ْ فاتحْ سے ان کی رہائش واقع Esenyurt پہنچے۔ اس علاقے میں معروف ترک رہنماء ، اتحاد بین المسلمین کے داعی، سابق وزیر اعظم ڈاکٹر نجم الدین اربکان علیہ الرحمہ سےمنسوب ایک پارک اور کالج بھی موجود ہے۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ میرے لیے مزید دلچسپی کا ذریعہ بن گیا۔ شیخ علیہ الرحمہ دراز قد تھے، باہر پہنچ کر استقبال کیا۔ میں ان کے لیے اندلسی اور ترکی مٹھائی لے کر گیا تھا، ایک درمیانے درجے کے فلیٹ میں مقیم تھے۔ بہت مہمان نواز عالم تھے۔ ان کے ساتھ آخری رابطہ ۲۰ نومبر ۲۰۲۰ کو حضرت شیخ الحدیث بابا جی علیہ الرحمہ کے وصال پر ہوا تھا، شاید یہی وہ دن تھے جب ان کی حالیہ بیماری کی ابتداء ہوئی ہو گی۔
دو گھنٹوں کی نشست میں مختلف فکری، دعوتی ، تبلیغی، اشاعتی اور سیاسی عنوانا ت پر بات چیت ہوئی۔ برطانیہ میں رویت ہلال کا مسئلہ، شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ میں در آنے والی کچھ بدعات اور تصنیفی میدان میں ترجیحات پر مفصل گفتگو ہوئی۔ نوجوان مسلمانوں میں تقلیدی کنفیوژن کی وجہ سے غیر مقلدین کا بڑھتا ہوا اثر اور الحاد کے اسباب پر بھی کلام ہوا۔ مجھے عرب اور یورپ کے علماء سے ملتے جلتے پندرہ برس گزر گئے ہیں، میں نے کسی نظریاتی سُنی عرب عالم کو اس درجے حاضر دماغی کے ساتھ ان سلگتے ہوئے عنوانات پر گفتگو کرتے نہیں دیکھا۔ وہ خود تو شافعی تھے، لیکن وہ تقابل میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ شمال افریقی مسلمان مالکی ہیں، مجھے کئی بار مالکی مذہب سمجھنے کی ضرورت پیش آئی، شیخ عماد الدین حنفی، مالکی اور شافعی مذہب کی comparison sheet چند لمحات میں بنا دیتے تھے۔
انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے، عربی مادری زبان تھی، ترکش بھی سیکھ چکے تھے اور مختصر وقت میں اسطنبول میں اپنا حلقہ اثر قائم کر چکے تھے۔ شیخ علیہ الرحمہ نے تین شادیاں کیں۔ مجھے یاد ہے اسطنبول میں ان کے گھر پر عشائیہ تھا تو ان کی ایک ننھی منھی شہزادی فاطمہ زہرا کھانا دستر خوان پر لگا رہی تھی۔ ان کی یمنی اہلیہ بھی بہترین عالمہ ، ماہر تعلیم اور مبلغہ ہیں، انہوں نے میرے بچوں کی اسطنبول میں تعلیم، اقامت اور سہولیات کے لیے بہترین رہنمائی کی تھی۔ شیخ نے اسطنبول میں اپنے نام سے ہی ایک تعلیمی ادارہ ْموسسۃ عماد الدین لتعلیم والتربیۃْ قائم کیا تھا، جس میں دنیا بھر کے طلباء کو بورڈنگ سہولت کے ساتھ مختصر اور طویل دورانیے کی دینی تعلیم کا انتظام تھا۔
شیخ نے متعدد بار مجھے مشورہ دیا کہ مصلحت کا شکار ہوئے بغیر مستقل اسطنبول میں ہی رک جاو، یہاں کام کے مواقع زیادہ ہیں، یہ اسلامی دنیا کا مرکز ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ عالم دین دنیا سے رخصت ہو گئے، میں ان کی موجودگی اور رفاقت سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ مجھے شدید افسوس ہے کہ ایسے قابل جید اور ماہر عرب علماء سے ہم درست سمت میں مدد نہیں لے پا رہے۔
شیخ کی متعدد تصنیفات میں سے دو کتب کا ترجمہ پاکستانی عالم دین علامہ سجاد شامی صاحب نے کیا۔ ان میں کتاب الاربعین فی ارشاد السالکین اور مرشد الانام الٰی رویۃ الھلال و احکام الصیام شامل ہیں۔
رب تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے، لواحقین کو صبر و استقامت عطا کرے اور ان کے بچوں کی مدد و نصرت فرمائے۔ آمین
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۴ دسمبر ۲۰۲۰