ہاں! انقلاب آنے کو ہے
ہاں! انقلاب آنے کو ہے.
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
اس دور پر آشوب میں پیروں اور عالموں کی بے راہ روی کسی سے مخفی نہیں ہے, مگر علماء تو اپنے بیانات و تحریرات سے اپنی جماعت کی بے راہ روی کا سد باب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں, مگر یہ کس کی مجال ہے کہ پیروں کی بے راہ روی پر سوال اٹھا سکے ؟
اگر کوئی ان حضرات کی اصلاح کے متعلق سوچے تو پہلے اپنے جسم کو لات, جوتا, گھونسہ, اور دیگر آلات زد و کوب سے مقابہ آرائی کی خاطر تیار کر لے ورنہ وہ اپنی حالت زار کا زمہ دار خود ہی ہوگا.
جیساکہ حال ہی میں پاکستان میں “پیر لاثانی” کی اصلاح کی کوشش ایک مفتی صاحب کو کافی مہنگی پڑ گئی, جان کے لالے پڑگئے تھے جب پیر صاحب کے مریدوں نے حملہ کر دیا تھا. اوپر سے طریقت کو نا سمجھ پانے کا تمغہ مفت میں حاصل ہوگیا.
اور عوام کی جائز و ناجائز ہر کام میں پیر صاحب کے موافقت نے پیروں کو اتنا جری کردیا ہے کہ اب وہ شریعت اور طریقت کو الگ بتاکر شریعت سے پلہ ہی جھاڑ لیتے ہیں.
یہی وجہ ہے کہ وہ خانقاہیں جو لوگوں کے قلوب پر تصرف کر کے انکو شریعت کا پابند اور مومن کامل بنایا کرتی تھیں, اب وہی خانقاہیں مریدین کی جیبوں پر تصرف کر کے انہیں شریعت بیزار اور اندھ بھکت بنا رہی ہیں.
ایسے پر آشوب دور میں امید کی ایک کرن حضرت پیر طریقت رہبر راہ شریعت سید نجیب حیدر میاں صاحب قبلہ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کی صورت میں اتر پردیش کے شہر اورئی میں نظر آئی, جلسۂ دستار حفظ کے موقع پر حضرت کی تقریر کیا تھی نام نہاد پیروں کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کرنے والی ایک شیر علی کی دہاڑ تھی.
اس خطاب کی چند جھلکیاں آپ کی خدمت میں پیش ہیں ملاحظہ فرمائیں.
“پیروں کے پَیْر چوم چوم کر عوام اہل سنت نے تعزیہ بنا دیا ہے”
“سفید داڑھی والے چچا پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں مجھ جیسے خطا کار اور گنہ گار کے پَیر چومیں گے تو ہمارے بھاؤ نہ بڑھیں گے تو اور کیا ہوگا”.
“پیروں کے ہاتھ پیر چوم کر ان کے دماغ خراب کرنے والو کیا کبھی ماں باپ کے بھی ہاتھ پیر چومے ہیں”
“پِیر غلط کہے تو مانتے ہو, پِیر صحیح کہے تو مانتے ہو.”
,پِیر شریعت کی کہے تو مانتے ہو, شریعت کے خلاف کہے تو مانتے ہو”.
” کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ پِیر کے قدموں کے نہچے جنت ہے, مگر پِیروں کے قدم چومتے ہو, اور ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہو”.
“ہم جیسے پیروں کا یہ حال ہے کہ ہم جلسوں میں جاتے ہیں کمروں میں پڑے رہتے ہیں آپ سے ملاقات تک نہیں کرتے, اور آپ لائین لگا کر ہم سے ملاقات کرتے ہو کہ پیر جی آئے ہیں”.
“پِیر آج کے پیر قوم کے لیئے پِیڑ (باعث تکلیف) ہو گئے ہیں”.
“پیر جی سے دعا کراؤگے پیر کا موڈ ہوگا دعا کر دیگا, موڈ خراب ہوگا جھڑک دیگا”.
پیر کی زیارت کو بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر چلے آتے ہو, اگر پیر کی زیارت اتنی ہی متبرک ہوتی تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ صحابی ہوتے”.
“سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا پیر کون ہے؟”.
ایسی بے باکی سے اپنی بات اگر چند اور پیر حضرات رکھنے لگ جائیں تو انقلاب دور نہیں
اللہ پیر موصوف کو سلامت رکھے اور حق گوئی کی قوت میں مزید اضافہ فرمائے.
(آمین بجاہ سید المرسلین)
محمد شاہد علی قادری مصباحی
shaiddqadri2@gmail.com
(باگی, جالون)