آپ دین کس سے سیکھ رہے ہیں؟
از: افتخار الحسن رضوی

عصرِ حاضر میں اسلامی معاشرہ اور مسلمان جوان نسل مختلف مسائل کا شکار ہے، ان میں سے ایک اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا اور سکرین پر نظر آنے والے رنگین سکالر ہمیں بہت بھاتے ہیں اور ان کی گفتگو میں موجود شیرینی سے متاثر ہو کر ہم بحیثیت قوم زہر پی رہے ہیں۔ ہم کس قدر حماقت اور غفلت کے مرتکب ہیں کہ ایک موبائل فون کی رپئیر کے لیے دس بار تصدیق کرتے ہیں ٹیکنیشن واقعی کام جانتا ہے یا نہیں، بیماری کی صورت میں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان کسی اناڑی اور عطائی ڈاکٹر کے سپرد نہیں کرتے، بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہر سپیشلسٹ کنسلنٹنٹ ڈاکٹر تک رسائی چاہتے ہیں، مہنگی فیس ادا کرتے ہیں، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دینی مسائل دریافت کرتے وقت ہم شریعت کا پروٹوکول بھول جاتے ہیں، چائے کے ڈھابے پر بیٹھے سگریٹ لگاتے، دھواں پھونکتے لوگ فقہی مسائل پر زبان درازیاں کرتے اور پھبتیاں کستے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ لوگ بھی دین کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں جنہیں یقیناً سورۃ الحمد بھی درست نہیں آتی۔
سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر متعدد مغرب زدہ چہرے دینی مسائل بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان لوگوں کے پاس کوئی سند ہے نہ اجازت، بلکہ یہ راہ چلتے مجتہد غلط اور باطل فکر لوگ ہیں جو دین کی حدود و قیود سے واقف ہیں نہ مفتی کے میرٹ پر پورا اترتے ہیں۔ جب آپ نائی سے پلمبنگ کا کام نہیں کرواتے، موچی سے بال نہیں کٹواتے، حجام سے الیکٹریشن کا کام نہیں لیتے، کار ڈرائیور کو ہوائی جہاز کا پائلٹ قبول نہیں کرتے، ophthalmologist کو urologist اور internist کو neuro surgeon قبول نہیں کرتے تو ایسے ادھ پڑھے، متروک و معذور افراد کو دین کا ترجمان اور مفتی کیسے تسلیم کر لیتے ہیں؟ جب تک ایک ڈاکٹر پانچ سال میڈیکل کالج میں سر نہ دھنے، پھر پاس ہو کر متعلقہ شعبے سے تخصص کی سند حاصل نہ کرے، آپ اپنا کان ایسے بندے کو دکھانے کے لیے تیار نہیں، اچانک سے ایک بندہ اٹھ کر ٹی وی سکرین، یو ٹیوب یا فیس بک پر آ کر لیکچر دینا شروع کر دے تو آپ بلا تصدیق و تفتیش اسے کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ دین کو اس قدر ہلکا کیوں لیا جا رہا ہے؟
سال ۲۰۲۰ میں متعدد علماء دنیا سے تشریف لے گئے، قیامت قریب ہے اور ہماری غفلت بے حد ہے، علماء کی صحبت میں بیٹھیے، ان سے مسائل پوچھیے، دین سمجھ لیجیے اس سے قبل کہ آپ دنیا سے اٹھ جائیں اور علماء بھی رخصت ہو جائیں، درجِ بالا ساری گفتگو کا نچوڑ اس حدیث شریف میں ہے جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے؛
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُهٗ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰـکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءوْسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے، بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا راہنما بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(متفق علیہ)
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۷ دسمبر ۲۰۲۰

IHRizvi