مہربان انگریز

۔
انگریز کتنے مہربان تھے پہلے ہم پر حملہ آور ہوئے۔۔۔
۔
ہمارا تاج وتخت ہم سے چھین لیا ……پھر 100 سال ہمارے اوپر حاکم بن کر حکومت کرتے رہے ۔۔۔۔
۔
پھر 1947 میں آزادی دے کر چلے گئے ۔۔۔۔
۔
ذرا سوچئے ! جب ہم طاقت میں تھے، زمامِ اقتدار ہمارے ہاتھ تھا، برّصغیر کے سرخ وسفید کے ہم مالک تھے تو اُس وقت انگریزوں نے ہم پر حملہ کیا اُس وقت انگریزوں کو رحم نہیں آیا ۔
۔
2020 میں بھی انگریز مہربان نہیں ہیں ،جھاد اور خلافت کی بات کرنے والے مسلمانوں پر زمین تنگ کردیتے ہیں، داڑھی والے مسلمانوں کو ائیرپورٹس پر برے طریقے سے چیک کرتے ہیں، اسلام سے سخت قسم کی نفرت آج بھی اُن کے دلوں میں موجود ہے ۔۔۔۔۔
۔
سوال یہ ہے کہ 1947 میں انگریز ہم پر مہربان کیسے ہوئے؟ ہمیں آزاد وطن کیسے دی کہ ہم اُس وطن کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں۔۔۔۔
۔
ہمارا حال تو یہ تھا کہ ہم کمزور تھے ،معاشی ،معاشرتی ،تعلیمی ،اقتصادی ہر اعتبار سے ۔۔۔۔۔۔1947 یا اس سے پہلے ہم نے کوئی جنگ انگریزوں سے جیتی بھی نہیں تھی پھر بھی انگریز ہمیں آزادی دےکر چلے گئے بات حیران کردینے والی ہے ۔۔۔۔۔۔
۔
اسلام کی تجربہ گاہ کے لئے لاالہ الااللہ کے نام پر ہم نے آزادی حاصل کی ایسا لوگ کہتے ہیں۔۔۔۔
۔
بظاہر بات آسان ہے لیکن معنوی اعتبار سے غور کریں تو اسلام کی تجربہ گاہ سے مراد خدا کی زمین پر خدا کا نظام ۔۔۔
۔
جہاں تک زمین ہے وہاں وہاں تک اسلام کا نفاذ اور کفروشرک کا خاتمہ ۔۔۔دوسرے معنوں میں یوں سمجھیں اسلام کی حکومت اور انگریزوں کی حکومت کا خاتمہ ۔۔۔
۔
کیا انگریز اتنے بُدُھو(پاگل) تھے کہ ہمیں اسلام کے نفاذ کےلئے آزادی دےکر گئے کہ ہم اِس وطن کے ذریعے اُن کی حکومت کا خاتمہ کرنے کا تجربہ کریں؟
۔
جنابِ مَنْ! بات یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنی حکومت کے قیام کےلئے ہم پر حملہ کیا اور اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لئے 100 سال تک وہ ہمیں اسکولی تعلیم کے ذریعے پڑھاتے رہے، نصابِ تعلیم اُن کی، ٹیچرز اُن کے، بچے ہمارے ۔۔۔۔۔۔۔
۔
ہمارے ہی بچوں کو پڑھا پڑھا کر اُنہوں نے اپنی پلاننگ ترتیب دی جب دیکھا کہ 100 سال میں ہماری محنت کامیاب ہوگئی کثیر تعداد میں ہماری غلامی کرنے والے لوگ پیدا ہوگئے ہیں تب وہ اُنہی اسکولی بچوں کو حکومت دےکر برّصغیر کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کرکے چلتے بنے ۔
۔
حکومت اب بھی اُن کی ہے، نظامِ تعلیم اُنہی کا ہے۔
۔
مملکت چلانے کے اصول وقوانین سارے کے سارے اُنہی کے ہیں لیکن ہم آزاد ہیں اور جھوم جھوم کر پڑھ رہے ہیں یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئ حیران ۔۔۔۔
۔
میں پوچھتا کہ کیا 1857 سے پہلے مسلمان جاھل تھے ؟
.
کیا مسلمانوں میں ایسے مِعْمار وانجنیئر نہیں تھے جو عالیشان عمارتیں، پل، محل، سڑک وغیرہ بناتے تھے؟
۔
کیا بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے طبیب موجود نہیں تھے کہ وہ مسلمانوں کی بیماریوں کا علاج کرتے تھے ؟
۔
کیا مسلمانوں اپنی حفاظت کےلئے عالیشان قلعے تعمیر نہیں کرتے تھے؟
۔
کیا ذراعت وآبپاشی کی خاطر بارش کے پانی کو اسٹاک کرنے لئے مسلمان ڈیم اور عالیشان بڑے بڑے تالاب، ندیاں نہیں بناتے تھے ؟
۔
مسلمانوں کےپاس انجنیئر بھی تھے، طبیب بھی تھے، آپریشن کےلئے جراح بھی تھے، خطرناک جان لیوا بیماریوں کےعلاج کےلئے حکیم حکماء بھی تھے سب کچھ تھا اور اِن سب کو تعلیم مدرسے سے ملتی تھی ۔
۔
جب مسلمانوں کے پاس مدرسہ کی تعلیم کی برکت سے ڈاکٹر، انجنیئر، ساست دان، سفارتکار، سیّاح،جنگی سپاہی وکمانڈوز، ماہرینِ معاشیات، جیّد علماء ومفتیانِ کرام سب تھے تو پھر آج ہم ہر چیز میں انگریزوں کا محتاج کیوں ہیں؟
۔
اے مسلمانو! ہم حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہیں اگر ہم اسلام کا غلبہ واعلاءکلمۃ الحق چاہتے ہیں ،،،،، اگر ہم طاغوت کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مدرسہ کی تعلیم کا سسٹم وہی بنانا پڑے گا جیسا انگریزوں کی آمد سے پہلے تھا ۔
۔
ہمارے امام سیّدی اعلیٰ حضرت واُن کے خلفاء نے انگریز حکومت کے ہوتے ہوئے بھی مدرسہ کی تعلیم کا سسٹم وہی رکھا جو پہلے سے چلاآرہا تھا جبھی تو ہمیں جیّد علماء، ثقہ مفتیانِ کرام ،ماہر توقیت دان ملے ۔
۔
ذرا سوچئے! ہم نے جو تعلیمی سسٹم رکھا ہے کہ اِس تعلیم کے ذریعے وہی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جو امام کے زمانے میں برآمد ہوئے؟
۔
جدّت کے پیچھے اتنا مت بھاگیئے ۔۔۔قوم تو پہلے سے ہی ذہنی طور پر فرنگیوں کی غلامی اختیار کرچکی ہے اللہ ناکرے اِسی جدّت ومرعوبیت کے تحت قوم کے رہنماء بھی غلام بن جائیں ۔
۔
مدرسہ کی نظامِ تعلیم کو بچائیے ،اپنے مدارس میں عالیشان لائیبریری قائم کیجئے، اہم اہم موضوعات کی کتابیں اپنے مطالعہ میں رکھئے ۔
۔
قرآن وحدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ ،علم الکلام، توقیت، ھیئت، جغرافیہ، ریاضی اورتاریخ کی تعلیم کی طرف بالخصوص توجہ فرمائیے ۔
۔
قومیں بنتی بھی تعلیم سے ہیں بگڑتی بھی تعلیم سے ہیں ۔
۔
فرنگی اپنی تعلیم کے ذریعے ہمیں تباہ کرگئے ہمیں اپنی تعلیم اختیار کرکے پھر سے عروج پانا چاہیئے ۔
۔
سیاست کا موجودہ نظام، دھرنے، ووٹنگ وغیرہ یہ سب فرنگیوں کی غلامی اختیار کرنے کا نام ہے،،، جو عالمِ دین محکماتِ اسلامیہ میں جتنا ثقہ ہوگا وہ اِن سب چیزوں سے دور رہے گا وہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے اسلامی طریقے اپنائے گا ۔
۔
اُنگی کٹوا کر شہیدوں میں نام نہیں لکھوائے گا کہ میں نے بھی دھرنا لگایا ۔
۔
ہوسکتا ہے عقیدت کا بھنگ پی کر علم سے بالکلیہ دور رہنے والا کوئی شخص اعتراض کرے جو باتیں تم نے لکھی ہیں وہ اکابرین کی سمجھ میں کیوں نہیں آئیں؟ ۔۔۔اِس کا جواب ہے لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے ۔
✍️ ابوحاتم
25/12/2020/