ہیپی کرسمس اور یورپ کے مسلمان

میں نے ہفتہ بھر مختلف پوسٹیں دیکھیں اور علمائے کرام کے کمنٹس کو بغور پڑھا.. مگر

ان میں سے اکثر یورپ کے مسلمانوں کے حالات کو نظر انداز کردیتے ہیں.. میری اس پوسٹ کا تعلق اور مقصد یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے رائے قائم کرنا ہے..

کیونکہ یہاں آپ آفس میں جائیں، فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور ہو، یا کسی دکان، کافی شاپ، بار، پیزا شاپ، یاکسی بھی جگہ بھی جائیں گے تو کم از کم ہفتہ بھر آپ کو ہیپی کرسمس کے الفاظ یا مقامی زبان،جیسے اٹالین میں Buon Natale جیسے الفاظ سنتے ہوں گے اور یقینی بات ہے کہ اخلاقی طور پر اس کا جواب بھی دینا چاہیے، مگر شرعی حدود کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے،

آج تین احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پیش نظر ہیں ان احادیث سے جو نتائج اخذ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اگر درست نہ ہوئے، اورکسی صاحب علم نے رہنمائی کی تو اپنی بات سے رجوع کر لوں گا.

نمبر 1

اہل کتاب کے لئے سلام کا مختصر جواب دینا یعنی و علیکم کہنا

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمہیں اہل کتاب سلام کریں تو تم کہو وعلیکم (صحیح مسلم : ٢١٦٣‘ سنن ابوداؤد ‘ ٥٢٠٧) –

یعنی اس حدیث مبارکہ سے یہ بات سمجھ آئی کہ بہت بڑا معاملہ انسان کی نیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے.

کیونکہ کافر نہ جانے کس نیت سے سلام کہہ رہے ہوں گے تو تم،، وعلیکم،، کے لفظ کے ساتھ انہیں وہیں کچھ لوٹا دو جو وہ تمہیں کہنا چاہتے ہیں.

میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ عیسائی اگر اپنی بد عقیدگی کے سبب اللہ کا بیٹا بھی تصور کریں،

تو ہم اللہ کے بندے، اللہ کے نبی عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کی مبارکباد دے لیں..

مگر یہ طریقہ اختیار نہ کریں …

نہ سدّی نہ بلائی تے میں مُنڈے دی تائی

جب مجبوری نہ ہو تو نظر انداز کریں کیونکہ بہرحال عیسائیوں کا عقیدہ مشرکانہ ہے.

امام فخرالدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ لکھتے ہیں : –

(١) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے یہودی کو سلام کی ابتداء نہ کرو…

اس سے بھی مراد یہی لی جا سکتی ہے کہ بلا ضرورت مبارکباد نہ دیتا پھرے….

امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا :۔

جب تم ان پر داخل ہو تو کہو ” السلام علی من اتبع الھدی،، اور سلامتی اسے جو ہدایت کی پیروی کرے.

“ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ ضرورت کے وقت ان کو ابتداء سلام کرنا جائز ہے..

مثلاکسی کا افسر کافر یا بدمذہب ہو تو اس کو اس کے دائیں بائیں فرشتوں کی نیت کرکے سلام کرے…

حسن رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ کافر کو وعلیکم السلام کہنا تو جائز ہے لیکن وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ مغفرت کی دعا ہے اور کافر کے لیے مغفرت کی دعا جائز نہیں..

نمبر 2

عمامہ شریف ٹوپی کے اوپر باندھنا

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے

فرق ما بیننا وبین المشركين العمائم علی القلانس

ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق، ٹوپیوں پر عمامہ باندھنا ہے. یعنی ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں..

یعنی کام ہم بھی وہی کرتے ہیں جو یہودونصاریٰ کرتے ہیں مگر ہم اپنی نیت اور عمل میں تھوڑی سی تبدیلی کر لیتے ہیں..

اسی طرح ہم ایسے موقع پر جب کوئی عیسائیوں کا خاص دن آجائے، اپنی نیت کو درست رکھ کے ان کو بوقت ضرورت مبارکباد دیں اور وصول کریں..

نمبر 3

عاشوراء کا روزہ رکھنا

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: “اس لئے کہ یہ خوشی کا دن ہے، اس دن میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی، تو موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں موسی علیہ السلام کیساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا، اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا”

اور اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی امید ہے کہ اللہ تعالی تمہارے ایک سال کے گناہوں کو معاف فرما دے.

ایک سال تو اسی طرح روزہ رکھا جس طرح یہود رکھ رہے تھے مگر پھرعمل میں تھوڑا سا فرق ڈالنے کا حکم دیا. فرمایا کہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملا لو…

تو کیا ان تمام احادیث سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ یورپ میں بسنے والے مسلمان تھوڑا نیت کے ردوبدل سے بوقت ضرورت مبارکباد دیں..

مثلا عیسائی نیت کریں کہ اللہ کا بیٹا آیا.

مگر ہم نیت کریں کہ اللہ نے اپنا نبی اور بندہ عیسیٰ کو پیدا فرمایا.

آخری بات

اور یہ تصور کرنا کہ25دسمبر حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کا دن نہیں ہے، اصلی دن کوئی اور ہے.

تو اگر کل کو یہی اعتراض کوئی ہم پر کرے کہ بارہ ربیع لااول ولادت کا دن نہیں کوئی اور دن ہے تو کیا ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام کرنا چھوڑدیں گے؟ ہرگز نہیں!

کیونکہ صرف دن ہی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ نبی کا آنا اہمیت رکھتا ہے…

ایک بات ذہن نشین رہے میں نے یہ تمام باتیں صرف ان لوگوں کے لئے لکھی ہیں کہ جن کی کسی بھی حوالے سے کوئی مجبوری ہے دفتری یا کاروباری یا ورکر ہونے کے ناطے سے..

یہ بات یاد رکھیے :۔

اور اسی سے ملتا جلتا نقطہ نظر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب کا نظر سے گزرا ہے اور علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر تبیان القرآن میں بھی اسی سے ملتا جلتا نقطہ نظر پیش کیا ہے…..

مگر مگر……….

آج کل کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کلچر سانجھے ہوچکے ہیں تو وہ انتہائی احمقوں کی جنت میں بستے ہیں، اس لئے کہ آپ ویلنٹائن ڈے اپنا لیں، بلیک فرائیڈے منائیں، یا ہولی، دیوالی، بسنت، ہیپی کرسمس،

مگر

کوئی آپ کی عیدالاضحیٰ منانے والا نہیں ، نہ ہی کوئی عید الفطر آپ کی طرح منائے گا…

ہمارا معاملہ بھی کچھ اس طرح ہے

شادی کی آدھی بات طے ہو چکی ہے:۔ اچھا

اس کا مطلب ہے وہ مان چکُے، جی نہیں بس آدھی اُن کی طرف سے ہی رہ گئی ہے.

محمد یعقوب نقشبندی اٹلی