خوش طبعی ( مزاح ) ، بہت پیاری عادت ہے ۔
اس کے پیارا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کائنات کی سب سے پیاری ہستی کے مزاج میں بھی خوش طبعی تھی ۔

سیدنا عبداللہ بن حارث کہتے ہیں:

مارایت احدا اکثر مزاحا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا اکثر تبسما منہ ۔

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو خوش مزاج اور مُتَبَسِم نہیں دیکھا ‌۔

( الانوار فی شمائل النبی المختار ، ت محی السنۃ بغوی رحمہ اللہ ، باب فی سرورہ وضحکہ ومزاحہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، ص 247 ، ر 301 ، ط دارالمکتبی سوریۃ دمشق ، س 1416ھ )

مزاحیہ طبیعت رکھنے والا انسان منکسر المزاج ہوتا ہے ، اور تکبر سے محفوظ رہتا ہے ۔

مولا علی پاک فرماتے تھے:

جس آدمی میں خوش طبعی کی خصلت ہو وہ تکبر سے بچ جاتا ہے ۔

( فلسفہ عقل و حماقت ، بحوالہ: الظراف والمتماجنین لابن جوزی رحمہ اللہ ، ص 53 ، ط کرماں والا بک شاپ لاہور ، س 2007 ء )

اس لیے کبھی کبھی مزاح بھی کرنا چاہیے ، اور ایسا مزاح قبول بھی کرنا چاہیے جو خلافِ شرع نہ ہو ۔
بعض لوگ خشکی کی حد تک سنجیدہ ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ بالکل اچھی عادت نہیں ؛ اس عادت سے جتنا جلدی ہوسکے جان چھڑا لینی چاہیے ۔

المزاح فی الکلام کالملح فی الطعام ۔
گفتگو میں مزاح ایسے مزہ دیتا ہے ، جیسے کھانے میں نمک مزے دار ہوتا ہے ۔

کھانے میں بیسیوں مصالحے ڈال لیں ، ایک نمک نہ ہو تو کچھ مزہ نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ جتنا مرضی فصیح و بلیغ اور عالم فاضل ہو ، اگر اس میں حسِ مزاح نہیں تو وہ رُوکھا ہے ۔

✍️لقمان شاہد
5-1-2021 ء