أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اللّٰهَ يُمۡسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۚوَلَئِنۡ زَالَــتَاۤ اِنۡ اَمۡسَكَهُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖ ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيۡمًا غَفُوۡرًا‏ ۞

ترجمہ:

بیشک اللہ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا، اور اگر وہ اپنے مرکز سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی ان کو اپنی جگہ قائم نہیں کرسکتا، بیشک وہ بہت حلم والا بہت بخشنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اللہ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا اور اگر وہ اپنے مرکز سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی ان کو اپنی جگہ قائم نہیں کرسکتا، بیشک وہ بہت علم والا بہت بخشنے والا ہے اور انہوں نے اپنی قسموں میں سے اللہ کی بہت پکی قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی عذاب سے ڈرانے والا آگیا تو وہ کسی نہ کسی امت کی بہ نسبت ضرور زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے، پھر جب ان کے پاس کوئی عذاب سے ڈرانے والا آگیا، تو اس کی آمد نے صرف ان کی نفرت ہی کو زیادہ کیا زمین میں ان کے تکبر کو اور ان کی بری سازشوں کو (زیادہ ہی کیا ؎) اور بری سازشوں کا وبال صرف سازش کرنے والے پر ہی پڑتا ہے، وہ صرف پہلے لوگوں کے دستور کا انتظار کر رہے ہیں، سو آپ اللہ کے دسوتر میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور کو ہرگز ٹلتا ہوا پائیں گے (فاطر :41-43)

آسمانوں اور زمینوں کی حفاظت فرمانا 

فاطر : ٤١ میں فرمایا ہے : بیشک اللہ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا۔

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ کفار کے باطل معبود آسمانوں اور زمینوں کی کسی چیز کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں، اب یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور پیدا کرنے کے بعد ان کو اپنے مرکز پر برقرار اور ثابت رکھنے والا، اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہے، یعنی یہ صرف اللہ کی قدرت ہے جو اتنے عظیم کر ات کو اپنے مقام، نظام اور محور پر برقرار رکھے ہوئے ہے، اگر بالفرض یہ ہمارے سیارے اپنے اپنے محور سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی اور ان کو اپنے محور پر قائم نہیں کرسکتا، اس سے معلوم ہوا کہ زمین بھی ایک کرہ ہے جو اپنے محور پر گردش کر رہا ہے جس طرح سورج، چاند اور دیگر سیارے اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔

اس تفسیر میں یہ بھی احتمال ہے کہ کفار کے کفر و شرک کا یہ تقاضا ہے کہ آسمان اور زمین اپنی جگہ سے زائل ہوجاتے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

(مریم :90-91) قریب ہے کہ ان کے اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کہ انہوں نے رحمان کے لئے اولاد کا دعویٰ کیا۔

یعنی انہوں نے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کا دعویٰ کیا اس کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق تھے کہ ان کے اوپر آسمان گر جاتا اور وہ زمین اور آسمان کے درمیان پس کر رہ جاتے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ رحیم اور غفور ہے اس لئے اس نے آسمان کے گرانے کے عمل کو قیامت تک کے لئے مئوخر کردیا ہے۔

پھر یہ بتایا کہ اگر بالفرض آسمان اور زمین اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی ان کو اپنی جگہ قائم نہیں کرسکتا اور اللہ تعالیٰ چونکہ حلیم اور غفور ہے اس لئے ان کے اس بھاری اور سنگین قول کے باوجود ان پر فوراً عذاب نازل نہیں فرما رہا بلکہ ان کو مہلت دے رہا ہے۔

زمین کی حرکت پر دلائل 

اس آیت سے بعض قدیم الخیال علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ زمین ساکن ہے لیکن ان کا یہ استدلال مشاہدہ اور دلائل کے خلاف ہے :

زمین چاند اور سورج کی حرکت کے حساب سے سائنس دان یہ متعین کرتے ہیں کہ چاند گرہن کب ہوگا اور سورج کو گرہن کب لگے گا اور ان کا حساب اس قدر صحیح ہوتا ہے کہ وہ کئی کئی مہینے اور بعض اوقات کئی کئی سال پہلے بتا دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بج کر اتنے منٹ پر سورج یا چاند گرہن ہوگا اور تانی دیر تک گرہن لگا رہے گا، اور فلاں ملک میں یہ گرہن اتنے وقت پر دکھائی دے گا اور فلاں ملک میں یہ گرہن اتنے وقت پر دکھائی دے گا اور ان کا یہ حساب اتنا حتمی اور دسرت ہوتا ہے کہ آج تک اس میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں پڑا۔ سورج گرہن کا معنی ہے زمین اور سورج کے درمیان چاند کے حائل ہوجانے سے سورج کا جزوی یا کلی طور پر تاریک نظر آنا، عربی میں اس کو کسوف شمس کہتے ہیں۔ (اردو لغت ج ١٢ ص ١٥٥ )

تین سال پہلے سورج کو گرہن لگا اور مغرب سے کچھ دیر پہلے سورج تاریک ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ سورج مکمل تاریک ہوگیا اور تقریباً پانچ مٹن تک تاریک رہا۔ ہم نے کراچی میں اس کا مشاہدہ کیا اور سائنس دانوں نے کئی ماہ پہلے بتادیا تھا کہ کراچی میں فلاں تاریخ کو اتنی دیر کے لئے اتنے بج کر اتنے منٹ پر سورج مکمل تاریک ہوجائے گا، سائنس دان نہ جادوگر ہیں نہ غیب دان ہیں، ان کی یہ پیش گوئی ان کے حساب پر مبنی ہے، وہ زمین، چاند اور سورج کی حرکات کا مکمل حساب رکھتے ہیں اور ان کی رفتار کا بھی صحیح حساب رکھتے ہیں، اس لئے ان کو معلوم ہوتا ہے کہ چاند کس تاریخ کو اور کس وقت زمین اور سورج کے درمیان حائل ہوگا اور کتنی دیر حائل رہے گا اور انہیں تمام دنیا کے نظام الاوقات کا بھی علم ہوتا ہے اس لئے وہ بہت پہلے اپنے حساب سے بتا دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے سورج کو گرہن لگے گا اور اتنی دیر رہے گا، اسی طرح چاند گرہن کا معنی ہے کہ چاند اور سورج کے درمیان زمین حائل ہوجائے جس کی وجہ سے چاند جزوی یا کلی طور پر تاریک ہوجائے، ابھی چند سال پہلے چاند کو گرہن لگا اور پاسکتان میں رات کو دس بجے چاند مکمل طور پر تاریک ہوگیا تھا اور سائنس دانوں نے کافی پہلے بتادیا تھا کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے چاند گرہن لگے اور فلاں فلاں ملک میں اتنے اتنے بجے نظر آئے گا اور اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کو زمین کی حرکت اور اس کی رفتار کا علم ہوتا ہے اور وہ اس حساب سے جان لیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے زمین چاند اور سورج کے درمیان حائل ہوجائے گی اور اتنی دیر تک حائل رہے گی اور تدریجاً حائل ہوگی اور کس وقت مکمل حائل ہوجائے گی۔ قدیم خیال کے علمئا جو زمین کو ساکن مانتے ہیں اور اس کی حرکت کے قائل نہیں ہیں اور وہ یہ نہیں مانتے کہ زمین اور چاند کی حرکت اور اس کی رفتار کا سائنس دان حساب رکھتے ہیں وہ اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ سائنس دان سالوں، مہینوں اور ہفتوں حرکت اور اس کی رفتار کا سائنس دان حساب رکھتے ہیں وہ اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ سائنس دان سالوں، مہینوں اور ہفتوں حرکت اور اس کی رفتار کا سائنس دان حساب رکھتے ہیں وہ اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ سائنس دان سالوں، مہینوں اور ہفتوں پہلے سورج اور چاند کے گرہن ہونے اور ان کے نظام الاوقات کی بالکل ٹھیک پیش گوئی کرتے ہیں اور آج تک ان کی پیش گوئی غلط نہیں ہوئی، کیا وہ سائنس دانوں کو جادو گر یا غیب دان گردانتے ہیں !

اس دور میں سائنس کی جتنی ایجادات ہیں ہمارے علمئا ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ گھڑیوں کے اوقات سے نماز پڑھاتے ہیں، مسجدوں اور گھروں میں بجلی کی روشنی اور برقی پنکھے لگواتے ہیں، ٹیلی فون پر بات کرتے ہیں، لائوڈ ساپیکر پر تقریریں کرتے ہیں اور نمازیں پڑھاتے ہیں، کاروں، ٹرینوں اور طیاروں میں سفر کرتے ہیں، اس کے باوجود وہ سائنسی علوم کی مذمت کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سائنس کا علم کسی فکر اور نظریہ سے مستفاد نہیں ہوتا۔ سائنس کا علم مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل ہوتا ہے، یہ تمام ایجادات مشاہدہ اور تجربہ سے وجود میں ائٓی ہیں، اسی طرح زمین اور چاند کی حرکت اور ان کی رفتار کا تعین بھی انہوں نے رصد گاہوں میں مشاہدات اور آلات کے ذریعہ کیا ہے، قدیم فلسٹہ کی طرح یہ صرف فکر اور نظریہ کا معاملہ نہیں ہے، قرآن مجید رشد و ہدیات کی کتاب ہے، فلسفہ اور سائنس کی کتاب نہیں ہے، قرآن کریم نے اس سے بحث نہیں کی کہ زمین ساکن ہے یا متحرک ہے کیونکہ دنیا میں صالح حیات اور اخروی فلاح کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے یا حرکت نہیں کرتی، اس لئے علماء کو چاہیے کہ زمین کی حرکت اور سکون کو دین اور اعتقاد کا مسئلہ نہ بنائیں۔ بعض قدیم الخیال علمئا یہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ قرآن اور حدیث میں ہے کہ زمین ساکن ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں اور ترقی یافتہ اقوام پر اس سے اسلام کے متعلق منفی اثر پڑتا ہے، ایسا کہنا کوئی اسلام کی خدمت اور دین کی تبلیغ نہیں ہے بلکہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا ذریعہ ہے اور دوسری اقوام کو اسلام پر ہنسنے کا موقع فراہم کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔

الانبیائ : ٣ و اور لقمان : ١٠ میں بھی ہم نے زمین اور دیگر سیاروں کی حرکت پر مفصل دلائل قائم کئے ہیں، مکمل شرح صدر اور بصیرت حاصل کرنے کے لئے ان ابحاث کا بھی مطالعہ فرمائیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 41