ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡكِتٰبَ الَّذِيۡنَ اصۡطَفَيۡنَا مِنۡ عِبَادِنَاۚ فَمِنۡهُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِهٖۚ وَمِنۡهُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَمِنۡهُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَيۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَضۡلُ الۡكَبِيۡرُؕ ۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 32
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡكِتٰبَ الَّذِيۡنَ اصۡطَفَيۡنَا مِنۡ عِبَادِنَاۚ فَمِنۡهُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِهٖۚ وَمِنۡهُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَمِنۡهُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَيۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَضۡلُ الۡكَبِيۡرُؕ ۞
ترجمہ:
پھر ہم نے ان لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کرلیا تھا، پھر ان میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض متوسط ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں، یہی بڑا فضل ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر ہم نے ان لوگوں جو اس کتاب کا وارث بنایا، جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کرلیا تھا، پھر ان میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض معتدل ہیں، اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں، یہی بڑا فضل ہے (فاطر : ٣٢)
امت مسلمہ کا قرآن مجید کی وارث ہونا
اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن کو اس کتاب کا وارث بنایا ہے اور جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور اس آیت میں جن منتخب بندوں کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے اور ان کو امت وسط (افضل امت) بنایا ہے تاکہ وہ دیگر امتوں کے متعلق گواہی دیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام رسولوں میں افضل اور اکرم تھے ان کی طرف اس امت کو منسبو فرمایا ہے، اس آیت سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی نازل کرنے کا ذکر فرمایا تھا جو ہر خیر کا منبع اور سرچشمہ ہے اور اس آیت میں فرمایا پھر ہم نے ان لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنایا، کیونکہ آپ پر وحی نازل کرنے کا زمانہ ہی اس امت کو وارث بنانے کا زمانہ ہے اور یہاں پھر کا لفظ تاخیر زمانہ کے لئے نہیں ہے بلکہ تاخیر مرتبہ کے لئے ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ منتخب بندوں سے مراد صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین ہیں اور ان کو قرآن کا وارث بنانے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن کا سمجھنے والا بنادیا اور اس کے حقائق اور وقائق کا واقف کردیا اور اس کے اسرار کا امین بنادیا۔
اللہ کے چنے ہوئے بندوں کے متعقل شیخ طبرسی اور علامہ آلوسی کا نظریہ
مشہور شیعہ عالم ابوالفضل بن الحسن الطبرسی من علماء القرن الساوس لکھتے ہیں :
اس آیت میں ہے : جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کرلیا تھا۔ اس سے مراد انبیاء علہیم السلام ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رسالت اور پانی کتاب کے لئے چن لیا اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کتاب کا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ اپنے علم کا وارث بناتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت مراد ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر آسمانی کتاب کا وارث بنایا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے علماء ہیں کیونکہ حدیث میں ہے علماء انبیاء کے وارث ہیں اور امام باقر اور امام صادق سے مروی ہے کہ یہ آیت خاص ہمارے لئے ہے اور اس آیت سے ہم ہی کو مراد لیا گیا ہے اور یہ قول تمام اقوال میں حق کے زیادہ قریب ہے کیونکہ ائمہ اہل بیت ہی اصطفاء اور اجتباء (منتخب کرنے اور چننے) کے زیادہ قریب ہیں اور علم انبیاء کے وہی وارث ہیں وہی قرآن کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اس کے حقائق کو بیان کرنے والے ہیں اور اس کے معارف اور وقائق کے جاننے والے ہیں۔ (مجمع البیان ج ٨ ص 638 دارالمعرفہ بیروت، 1406 ھ)
علامہ سید محمود الٓوسی حنفی متوفی 1270 ھ اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہیں :
اس قول کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں دو عظمی چیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت (اہل بیت) ہے وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے حتیٰ کہ وہ دونوں حوض پر وارد ہوں گے اور جمہور علماء کا اس آیت کو علماء امت پر محمول کرنا بالخصوص اللہ بیت پر محمول کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور علماء امت میں علماء اہل بیت سب سے پہلے دخل ہیں کیونکہ ان ہی کے گھر میں کتاب نازل ہوئی ہے اور وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے حتیٰ کہ یوم حساب کو وہ دونوں حوض پر وارد ہوں گے۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص 289-290 دارالفکر بیروت، 1419 ھ)
شیخ طبرسی اور علامہ آلوسی کے نظریہ پر مصنف کا تبصرہ
علامہ آلوسی سے اہل بیت کی فضیلت میں جس حدیث کا ذکر کیا ہے اس کو امام طبرانی متوفی 360 ھ نے حضرت ابوسعید خدری سے اس سند کے ساتھ روایت کیا ہے : از حمد ان بن ابراہیم العامری از یحییٰ بن الحسن بن فرات القزاز از عبدالرحمٰن المسعودی از کثیر النواء از عطیہ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :3566: مکتبہ المعارف ریاض) اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔
عبدالرحمٰن المسعودی کی روایات مختلط ہیں اور کثیر النواء اور طعیہ العوفی دونوں ضعیف راوی ہیں۔
اور شیخ طبرسی کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس آیت سے خصوصاً ائمہ اہل بیت مراد ہیں اور یہ آیت خصوصاً ان ہی کے متعلق نازل ہوئی ہے اور وہی مصطفیٰ اور مجتبیٰ ہیں اور وہی علم انبیاء کے وارث ہیں اور وہی اس کے معارف، حقائق اور دقائق کو جاننے والے اور بیان کرنے والے ہیں۔
اور نہ علامہ آلوسی کا یہ کہنا صحیح ہے کہ علماء اہل بیت اس آیت میں سب سے پہلے داخل ہیں، کیونکہ ہر مصنف مزاج شخص کو معلوم ہے کہ قرآن مجید کو سب سے پہلے حضرت عمر (رض) کے مشورہ سے حضرت ابوبکر نے جمع کیا اور آپ نے حضرت زید بن ثابت، حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت ابی بن کعب وغیر ھم پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس نے لغت قریش کے مطابق قرآن مجید کو جمع کیا اور اس کو حضرت ام المومنین حفصہ (رض) کے گھر رکھوا دیا، اس وقت قرآن مجید کو مختلف لغات کے مطابق پڑھا جاتا تھ اپھر جب اختلاف لغات کی وجہ سے فتنہ کا اندیشہ ہوا تو حضرت ابو حذیفہ (رض) کے مشورہ سے صرف اس نسخہ کی اشاعت کی گئی جو لغت قریش میں تھا اور آج تک امت مسلمہ کے پاس وہی قرآن مجید ہے، اور شیعہ علماء کو بھی یہ بات تسلیم ہے اور حضرت صحابہ کرام (رض) سے ہزار اتخلاف کے باوجود ان کے پاس بھی یہی قرآن مجید ہے اس لئے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) ہی قرآن مجید کے جامع اور محافظ ہیں اور وہی قرآن مجید کے حقائق و معارف کے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان کے بعد حضرت علی (رض) و کرم اللہ وجہہ الکریم قرآن مجید کے اسرار و رموز کے سب سے زیادہ عالم اور عارف ہیں پھر ان کے بعد دیگر صحابہ تابعین تبع تابعین اور فقہاء مجتہدین ہیں۔
علامہ آلوسی نے اہل بیت کی فضیلت میں سے ایک ضعیف السند حدیث ذکر کی تھی ہم اس حدیث کو سند صحیح کے ساتھ مع تشریح کے پیش کر رہے ہیں تاکہ کسی شخص کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ہم اہل بیت کے فضائل کا ذکر نہیں کرتے یا اس میں کمی کرتے ہیں کیونکہ ہم اہل بیت کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں اور اپنی نجات کو ان کی شفاعت سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ جس حدیث کا ہم نے وعدہ کیا ہے وہ یہ ہے :
اہل بیت کرام کے فضائل
حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مدینہ کے درمیان غد یر خم کے مقام پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، آپ نے اللہ کی حمد اور ثناء کے بعد وعظ اور نصیحت کی، اس کے بعد آپ نے فرمایا : سنو اے لوگو ! عنقریب میرے پاس اللہ کی طرف لے جانے والا آئے گا اور میں چلا جائوں گا اور میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی عظیم چیز اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے، سو تم اللہ کی کتاب کو لازم رکھو اور اس سے وابستہ رہو، پھر آپ نے کتاب اللہ پر برانگیختہ کیا اور اس کی ترغیب دی، پھر فرمایا اور دوسری عظیم چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث :2408، مسند احمد ج ٣ ص 14-17)
آپ نے قرآن مجید اور اہل بیت دونوں کو ثقلین فرمایا کیونکہ ان دونوں کے ساتھ وابستہ رہنا اور ان کے احکام پر عمل کرنا ثقیل ہے، اور ہر وہ چیز جو نفیس اور عظیم ہو اس کو عرب ثقیل کہتے ہیں، آپ نے ان دونوں کو ثقلین فرمایا کیونکہ یہ دونوں بہت عظیم القدر اور رفیع المرتبہ ہیں۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٧ ص 419، دار الوفاء 1419 ھ)
آپ نے تین بار فرمایا میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہید اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں، ہوسکتا ہے اس سے مراد یہ حکم ہو :
قل لا اسلکم علیہ اجراً الا المودۃ فی القربی (الشوری : ٢٣) آپ کہیے کہ میں تم سے اس تبلیغ دین پر اس کے سوا اور کوئی اجر طلب نہیں کرتا کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔
اس کی مفصل بحث الشوریٰ : ٢٣ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المتوفی 656 ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
آپ نے جو تین بار یہ وصیت فرمائی ہے اس میں بہت عظیم تاکید ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل اور آپ کے اہل بیت کا احترام اور ان کی تعظیم واجب ہے اور یہ ان فرائض میں سے ہے جن کا ترک کرنا کسی شخص کے لئے کسی حال میں جائز نہیں ہے اور اس کا سبب ان کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خصوصیت ہے اور اس وجہ سے کہ وہ آپ کا جز ہیں کیونکہ ان کے بھی وہی اصول ہیں جن سے آپ کی نشو و نما ہوئی اور وہ آپ کے ایسے فروع ہیں جن کی نشو و نما آپ سے ہوئی ہے۔ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فاطمہ میرا جز ہے جو چیز اس کو اذیت پہنچاتی ہے وہ مجھے اذیت پہنچاتی ہے (صحیح البخاری 5278 صحیح مسلم 2449 سنن ابو دائود، 2071 سنن الترمذی 3867) اس کے باوجود بنو امیہ (یزید اور مردانیوں) نے ان کے عظیم حقوق کو پامل کیا اور آپ کے حکم کی نافرمانی کی انہوں نے اہل بیت کا خون بہایا ان کی خواتین کو قید کیا ان کے بچوں کو گرفتار کیا، ان کے گھروں کو ویران کیا اور ان کے شرف اور ان کی فضیلت کا انکار کیا، ان پر لعن طعن کرنے کو مباح قرار دیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس وصیت کی مخالفت کی اور اس پر عمل کرنے کے بجائے اس کے الٹ اور آپ کے حکم اور آپ کی خواہش کے برعکس کام کئے، پس جب وہ بہ روز قیامت آپ کے سامنے کھڑے ہوں گے تو آپ کو کیا منہ دکھائیں گے اور اس وقت ان کی کیسی ذلت اور رسوائی ہوگی ! (المفہم ج ٦ ص 304 مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت، 1417 ھ)
ظالم، مقتصد (متوسط) اور سابق کے مصداق کے متعلق احادیث اور آثار
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر ان میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں اور عض متوسط اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں، یہی بڑا فضل ہے (فاطر : ٣٢)
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے یہ آیت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے متعلق ہے، اب اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اس امت میں تین قسم کے لوگ ہوں گے، بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوں گے، بعض متوسط اور میانہ روی والے ہوں گے اور بعض نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہوں گے، ان کے متعلق حسب ذیل احادیث اور آثار ہیں :
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی فنھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات (فاطر : ٢ و) آپ نے فرمایا یہ سب ایک قسم کے حکم میں ہیں اور یہ سب جنت میں ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٥، مسند حمد ج ٣ ص 78، جامع البیان رقم الحدیث :22186، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :17987، الدرامنثور ج ٧ ص ٢٣ رح المعانی جز ٢٢ ص 292 تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 608)
امام احمد بن حنبل متوفی 241 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ثم اور ثنا الکتب الایۃ (فاطر : ٣٢) پھر اس کی تفسیر میں فرمایا : رہے وہ لوگ جو نیکیوں میں سابق ہیں سو وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے اور رہے وہ لوگ جو مقتصد (متوسط) ہیں تو ان سے بہت آسان حساب لیا جائے گا اور رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے سو ان لوگوں کو میدان محشر میں قید رکھا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت ان سے ملاقات کرے گی اور پھر وہ کہیں گے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم سے غم کو دور کردیا بیشک ہمارا رب بہت بخشنے والا بہت قدر دان ہے۔ (مسند احمد ج ٥ ص 198، حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث :21624، دارالحدیث قاہرہ)
حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ منھم ظالم لنفسہ سے مراد وہ شخص ہے جس سے اس مقام پر رنج اور غم طاری کر کے اس کے ظلم کی سزا دی جائے گی اور منھم مقتصد سے مراد وہ ہے جس سے آسان حساب لیا جائے گا اور منھم سابق بالخیرات سے مراد وہ ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٤٤٤ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : 27378، دارالحدیث قاہرہ، اجمع البیان رقم الحدیث :22185 الدرا المنثور ج ٧ ص ٢٢ روح المعانی جز ٢٢ ص ٢٩٢ حافظ الھیثمی نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٧ ص ٩٦)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی 360 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کی تین تہائیاں ہیں، ایک تہائی وہ ہیں جو جنت میں بغیر حساب اور عذاب کے داخل ہوں گے، دوسری تہائی وہ ہیں جن سے بہت آسان حساب لیا جائے گا پھر وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور تیسری تہائی وہ ہیں جن سے خوب تفتیش کی جائے گی اور ان کو خوب کھنگالا جائے گا، پھر فرشتے آ کر کہیں گے کہ ہم نے ان کو اس حال میں پایا کہ یہ کہہ رہے تھے لا الہ الا اللہ وحدہ (صرف ایک اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے) اللہ فرمائے گا انہوں نے سچ کہا میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، ان کیق ول لا الہ الا اللہ وحدہ کی وجہ سے ان کو جنت میں داخل کردو، اور ان کے گناہ مکذبین پر ڈال دو اور یہ اس آیت کے مطابق ہے :
(العنکبو : ١٣) اور وہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ اور فرشتوں کے ذکر کی تصدیق فاطر : ٣ ۃ میں ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے (میری امت کی) کل تین قسمیں بیان کی ہیں، فرمایا ان میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں، اس سے مراد وہ ہیں جن سے خوب تفتیش کی جائے گی اور ان کو کھنگالا جائے گا اور ان میں سے بعض مقتصد ہیں، اس سے مراد وہ ہیں جن سے آسان حساب لیا جائے گا اور ان میں سے بعض نیکیوں میں اللہ کی اذن سے سبقت کرنے والے ہیں، یہ وہ ہیں جو جنت میں بغیر حساب اور عذاب کے داخل ہوں گے اور (میری امت کے) سب لوگ جنت میں داخل کئے جائیں گے اور اس میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ (المعجم الکبیرج ١٨ ص 80 رقم الحدیث : ١٤٩ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :17988، الدرا المنثور ج ٧ ص 23 مجمع الزوائد ج ٧ ص 96)
امام ابن النجار نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ہم میں سے سابق ہے وہ سابسق ہے اور جو ہم میں سے مقتصد ہے وہ نجات یافتہ ہے اور جو ہم میں سے ظالم ہے وہ بخش دیا جائے گا۔
امام طبراین نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے جو نیکیوں میں سابق ہوگا وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل کیا جائے گا اور جو مقتصد ہے وہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا اور جو اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے اور اصحاب اعراف وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیشفاعت سے جنت میں داخل ہوں گے۔ (الدرا المنثور ج ٧ ص 24، داراحیاء التراث العربی بیروت 1421 ھ)
حضرت عائشہ (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : رہے سابق تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں گزر گئے اور آپ نے ان کے لئے جنت کی شہادت دی، اور رہے مقتصد تو یہ وہ ہے جس نے ان صحابہ کے آثار کی اتابع کی اور ان کی طرح عمل کئے حتیٰ کہ وہ ان کے ساتھ مل گیا اور رہا ظالم تو وہ میری اور تمہاری مثل ہے اور جس نے ہماری اتباع کی اور حضرت عائشہ نے فرمایا یہ سب جنتی ہیں صحضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ وہ میری اور تمہاری مثل ہے یہ ان کی تواضح اور انکسار پر محمول ہے جیسے حضرت آدم نے کہا ” ربنا ظلمنا انفسنا “ ) (المعجم الاوسط ج ٧ ص 56، رقم الحدیث :6090، مکتبہ المعارف ریاض، 1415 ھ)
ان احادیث اور آثار میں بار بار یہ صراحت کی گئی ہے کہ آپ کی امت میں سے جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور جو مقتصد ہیں اور نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں وہ سب جنت میں داخل ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے متصل آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
یہ لوگ دائمی باغوں میں داخل ہوں گے، ان کو وہاں سونے کے کنگن اور متوی پہنئاے جائیں گے اور ان کا لباس ریشم ہوگا (فاطر : ٣ و)
ظالم، مقتصد اور سابق کی تعیین اور اس کے مصداق میں ہم نے احادیث اور آثار کو پیش کیا ہے، مفسرین نے بھی اس مسئلہ میں بہ کثرت اقوال کا ذکر کیا ہے، احادیث اور آثار کے ذکر کے بعد ان اقوال کے ذکر کی ضرورت تو نہیں ہے، لیکن ہم اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے ان اقوال کو بھی پیش کر رہے ہیں، یہ اقوال چالیس سے زیادہ ہیں ہم ان میں سے پچیس اقوال کا ذکر کر رہے ہیں ان میں سے بعض اقوال ناپسندیدہ اور مردود ہیں آخر میں ہم ان بعض اقوال کے مردود ہونے کی وجہ بیان کریں گے۔ اور اس بحث میں ہمارا مختار وہی ہے جس کی ان احادیث میں تصریح کی گئی ہے کہ ظالم سے مراد وہ ہے جس سے سخت حساب لیا جائے گا اور مقتصد سے مراد وہ ہے جس سے آسان حاسب لیا جائے گا اور سابق سے مراد وہ ہے جس کو بلاحساب جنت میں داخل کیا جائے گا اور یہ سب جنتی ہیں۔
ظالم، مقتصد (متوسط) اور سابق کے مصداق کے متعقل مفسرین کے اقوال
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
(١) سہل بن عبداللہ تستری نے کہا سابق (نیکیوں میں آگے بھڑنے والا) سے مراد عالم ہے اور مقتصد (درمیانی درجہ کا نیک) سے مراد متعلم ہے اور ظالم (گنہ کرنے والا) سے مراد جاہل ہے۔
(٢) ذوالنون مصری نے کہا ظالم وہ ہے جو فقط زبان سے ذکر کرے اور مقتصد وہ ہے جو دل سے ذکر کرے اور سابق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو کبھی نہ بھولے۔
(٣) انطا کی نے کہا ظالم صاحب قول ہے مقتصد صاحب عمل ہے اور سابق صاحب حال ہے۔
(٤) ابن عطا نے کہا ظالم وہ ہے جو دنیا کی وجہ سے اللہ سے محبتک رے، مقتصد وہ ہے جو آخرت کی وجہ سے اللہ سے محبت کرے اور سابق وہ ہے جو اللہ کی وجہ سے اللہ سے محبت کرے۔
(٥) ظالم وہ ہے جو دنیا سے بےرغبت ہو کیونکہ وہ دنیا سے اپنے حصے کو رتک کر کے اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہے، مقتصد وہ ہے جو اللہ کی صفات کا عارف ہو اور سابق وہ ہے جو اللہ کی ذات کا محب ہے۔
(٦) ظالم وہ ہے جو مصیبت کے وقت آہ وزاری کرے، مقتصد وہ ہے جو مصیبت پر صبر کرے اور سابق وہ ہے جس کو مصیبت میں لذت آئے۔
(٧) ظالم وہ ہے جو غفلت سے اور عادۃ اللہ کی عبادت کرے، مقتصد وہ ہے جو شوق اور خوف سے اللہ کی عبادت کرے اور سابق وہ ہے جو اللہ کی ہیبت اور جلال کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرے۔
(٨) ظالم وہ ہے جس کو نعمت مل جائے تو وہ دوسروں کو دینے سے منع کرے، مقتصد وہ ہے جو نعمت مل جانے کے بعد اس کو خرچ کرے اور ساق وہ ہے جو نعمت نہ ملے پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرے اور مل جائے تو دوسروں کو دے دے۔
(٩) ظالم وہ ہے جو قرآن مجید کی تلاوت کرے اور اس پر عمل نہ کرے، مقتصد وہ ہے جو قرآن کی تلاوت کرے اور اس پر عمل کرے اور سابق وہ ہے جو قرآن کا قاری ہو، اس کے معانی کا عالم ہو اور اس کے احکام پر عامل ہو۔
(١٠) سابق وہ ہے جو مئوذن کی اذان سے پہلے مسجد میں داخل ہو، مقتصد وہ ہے جو اذان کے دوران مسجد میں داخل ہو اور ظالم وہ ہے جو جماعت کھڑی ہونے کے بعد مسجد میں داخل ہو (یہاں ظالم سے مراد خلاف اولیٰ کا مرتکب ہے) ، کیونکہ اس نے اپنے نفس کو زیادہ اجر سے محروم رکھا، زیادہ صحیح اس کے بعد کا قول ہے :
(١١) سابق وہ ہے جو نماز کو اس کے وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھے، کیونکہ اس نے دونوں فضیلتوں کو حاصل کرلیا، مقتصد وہ ہے کہ ہرچند کہ اس سے جماعت فوت ہوگئی لیکن اس نے وقت میں نماز پڑھ لی اور ظالم وہ ہے جو نماز سے غافل ہو حتیٰ کہ نماز کا وقت اور جماعت دونوں گزر جائیں۔
(١٢) ظالم وہ ہے جو اپنے نفس سے محبتک رے، مقتصد وہ ہے جو اپنے دین سے محبت کرے اور سابق وہ ہے جو اپنے رب سے محبت کرے۔
(١٣) حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : سابق وہ ہے جو ہجرت سے پہلے اسلام لای، مقتصد وہ ہے جو ہجرت کے بعد اسلام لایا، اور ظالم وہ ہے جو تلوار سے ڈر کر اسلام لایا اور ان سب کی مغفرت ہوجائے گی۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص 311-312 دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
امام ابواسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی متوفی 427 ھ نے یہ مثالیں بھی دی ہیں :
(١٤) ظالم وہ ہے جو اپنے مال کے سبب سے مستغنی ہو، مقتصد وہ ہے جو اپنے دین کی وجہ سے مستغنی ہو اور سابق وہ ہے جو اپنے رب کی وجہ سے مستغنی ہو۔
(١٥) ظالم وہ ہے جو اپنے نفس یسم حبتک رے، مقتصد وہ ہے جو اپنے رب سے محبت کرے اور سابق وہ ہے جس سے اس کا رب محبت کرے۔
(١٦) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : سابق مومن مخلص ہے، مقتصد ریا کار ہے اور ظالم وہ ہے جو اللہ کا منکر نہ ہو مگر اس کی نعمت کا شکر ادا نہ کرے۔
(١٧) بکر بن سہل ومیاطی نے کہا ظالم وہ ہے جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو اور اس پر توبہ نہ کرے، مقتصد وہ ہے جو کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور اگر کوئی گناہ ہوجائے تو اس پر توبہ کرے، کیونکہ جس نے کسی گناہ سے توبہ کرلی تو گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا اور سابق وہ ہے جو اللہ کی کوئی معصیت نہ کرے۔
(١٨) حسن بصری نے کہا سابق وہ ہے جس کی نیکیاں اس کی برائیوں سے زیادہ ہوں اور مقتصد وہ ہے جس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں اور ظالم وہ ہے جس کی برائیاں نیکیوں سے زیادہ ہوں۔
(١٩) ظالم مسلم ہے، مقتصد مومن ہے اور سابق محسن ہے۔
(٢٠) ظالم وہ شخص ہے جو دوزخ کے خوف کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرے، مقتصد وہ ہے جو جنت کی طمع سے اللہ کی عبادت کرے اور سابق وہ ہے جو بغیر کسی غرض یا سبب کے اللہ کی عبادت کرے۔ (الکشف والبیان ج ٨ ص 110، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1422 ھ)
(٢١) جن شخص پر اس کا نفس امارہ غالب ہو وہ اس کو معصیت کا حکم دے اور وہ اس کو مان لے تو وہ ظالم ہے اور جو شخص اپنے نفس سے جہاد کرے کبھی نفس امارہ پر غالب ہو کر معصیت کو ترک کر دے اور کبھی نفس امارہ سے مغلوب ہو کر معصیت کا ارتکاب کرلے تو وہ مقتصد ہے اور جو نفس امارہ پر ہمیشہ قاہر اور غالب رہے وہ سابق ہے۔
(٢٢) جو شخص معصیت کو حرام سمجھتے ہوئے معصیت کرے اور صرف فرائض اور واجبات پڑھے اور نوافل نہ پڑھے وہ ظالم ہے، اور جو شخص معصیت سے اجتناب کرے اور فرائض اور واجبات کے علاوہ مستحبات پر بھی عمل کرے وہ مقتصد ہے اور جو ان امور کے علاوہ استغفار، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور درود شریف بھی بہ کثرت پڑھے وہ سابق ہے۔
(٢٣) جو صرف حرام کو ترک کرے وہ ظالم ہے جو صرف مکروہات کو ترک کرے وہ مقتصد ہے اور جو بہات کو بھی ترک کرے وہ سابق ہے۔
(٢٤) جو شخص حلال یا حرام کی پرواہ کئے بغیر کھائے وہ ظالم ہے، اور جو شخص صرف حلال کھائے لیکن نفس کے مرغوبات اور لذائذ سے اجتناب نہ کرے وہ مقتصد ہے اور جو حساب کے ڈر سے ان سے بھی احتراز کرے وہ سابق ہے۔
(٢٥) جو شخص اپنی عمر شہوت اور معصیت میں ضائع کر دے وہ ظالم ہے، اور جو ان سے جنگ کرتے ہوئے عمر گزارے وہ مقتصد ہے اور جو اپنے آپ کو لغزشوں سے بھی بچائے رکھے وہ سابق ہے کیونکہ صدیقین زلالت سے جنگ کرتے ہیں اور زاہدین شہوات سے جنگ کرتے ہیں اور تائبین کبائر سے جنگ کرتے ہیں۔
مفسرین کے ذکر کردہ مردود اقوال
علامہ ثعلبی متوفی 727 ھ اور عالمہ قرطببی متوفی 668 ھ نے لکھا ہے کہ جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرے وہ ظالم ہے اور جو جنت کی طمع سے اللہ کی عبادت کرے وہ مقتصد ہے اور جو کسی غرض اور سبب کے غبیر اللہ کی عبادت کرے وہ سابق ہے۔ (الکشف والبیان ج ٨ ص 110، الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص 311)
قرآن مجید کی متعدد آیات میں دوزخ کے ڈر اور جنت کی طمع دلا کر عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، سو یہ قول ان آیات کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(الصف : ١٢-١٠) اے ایمان والو ! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتائوں جو تم کو درد ناک عذاب سے نجات دے تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں اور تمہیں ان پاکیزہ مکانوں میں داخل کر دے گا جو دائمی جنتوں میں ہیں، یہی عظیم کامیابی ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کے عذاب کا خوف اور جنت کا شوق دلا کر عبادت کی ترغیب دی ہے اور ایسی قرآن مجید میں بہت آیات ہیں، سو دوزخ کے خوف سے عبادت کرنے کو ظلم کہنا بجائے خود ظلم ہے۔
علامہ سید محمود آلوسیم توفی 1270 ھ بہت دقیق النظر مفسر ہیں مگر حیرت ہے کہ اس بحث میں ایک جگہ انہوں نے طالب النجاۃ کو ظالم کہا اور اس کے چند سطر بعد انہوں نے دوزخ کے خوف سے فرئاض ادا کرنے والے کو ظالم کہا۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص 291)
اسی طرح علامہ قرطبی متوفی 668 ھ نے عادۃ عبادت کرنے والے کو بھی ظالم کہا ہے (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص 311) اسی طرح علامہ اسماعیل حقی نے بھی عادۃ عبادت کرنے والے کو ظالم کہا ہے (روح البیان ج ٧ ص 410) اور یہ مثال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی شخص عادۃ نیک کام کرے تو اس کو ثواب ملتا ہے اگر وہ عادۃ گناہ کرے تو عذاب کا مستحق ہوتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے :
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرممایا تمہارے عمل زوجیت میں بھی صدقہ ہے، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت پوری کرنے کے لئے یہ عمل کرے، کیا اس کو پھر بھی اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا یہ بتائو کہ اگر وہ حرام محل میں اپنی شہوت پوری کرتا تو کیا اس کو گناہ ہوتا ؟ اسی طرح جب وہ حلال محل میں اپنی شہوت پوری کرے گا تو اس کو اجر ملے گا۔ (صحیح مسلم، الزکوۃ : ٥٣ رقم الحدیث بلاتکرار : ١٠٠٦ الرقم المسلسل : ٢٢٩٢)
امام رازی نے لکھا ہے :
جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو وہ ظالم ہے اور جو گناہ صغیرہ کا مرتکب ہو وہ مقتصد ہے اور جو معصوم ہو وہ سابق ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص 239 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے متعلق ہے اور امت کا کوئی فرد معصوم نہیں ہے اس لئے یہ قول بھی صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح سے علامہ اسماعیل حقی متوفی 1137 ھ نے روح البیان میں اور شیخ فیض احمد اویسی نے اس کے ترجمہ فیوض الرحمان میں لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو ظالم کہنا ہرچند کہ خلاف ادب ہے لیکن جائز ہے۔
شیخ فیض احمد اویسی لکھتے ہیں :
جملہ اقوال میں عام مومنین ہی مراد ہیں، یہی وجہ ہے کہ جس نے ظالم لنفسہ سے آدم (علیہ السلام) اور مقتصد سے ابراہیم (علیہ السلام) اور سابق سے حضور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد لی ہے اس نے درست نہیں کیا۔ پہلے عام مومنین مراد لے کر بعد میں یہ حضرات مراد لئے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس آیت سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت مراد ہے اور وہ حضرات پیغمبر ہیں۔ ہاں ضمائر مومن کی طرف راجع ہوں تو پھر ضمناً یہ حضرات مراد لئے جاسکتے ہیں۔
سوال : کیا یہ کہنا جائز ہے کہ آدم (علیہ السلام) ظالم لنفسہ تھے ؟
جواب :۔ چونکہ انہوں نے اپنے لئے ربنا ظلمنا الخ کہہ کر خود اعتراف فرمایا تو پھر انہیں ظالم لنفسہ فرمایا ہے۔
با ادب باش : اگرچہ بتاویل اس کا اطلاق جائز ہے لیکن ادب کے خلاف ہے۔ امام راغب نے فرمایا کہ الظلم بمعنے حق سے متجاوز ہونا جو کہ دائرہ کے لئے بمنزلہ نقطہ کے ہے وہ تجاوز قلیل ہو یا کثیر، اسی لئے اس کا اطلاق گناہ صغیرہ و کبیرہ دونوں پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے بھی اپنے تجاوز کے متعلق اپنے آپ کو ظالم کہا تو شیطان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ظالم کہا لیکن ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ (فیوض الرحمان جز ٢٢ ص 525 مکتہب اویسیہ بہاولپور)
ہمارے نزدیک حضرت آدم (علیہ السلام) کو ظالم کہنا صرف خلاف ادب نہیں ہے، بلکہ تصریحات علمائے کے مطابق یہ کفر ہے۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن محمد المالکی الشہیر بابن الحاج المتوفی 737 ھ لکھتے ہیں :
وقد قال علمائونا رحمۃ اللہ علیھم ان من قال عن نبی من الانبیاء فی غیر التلاوۃ و الحدیث انہ عصی او خالف فقد کفر نعوذ باللہ من ذالک۔ ہمارے علماء رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ جس شخص نے قرآن مجید کی تلاوت یا حدیث کی قرأت کے بغیر کسی نبی کے متعقل یہ کہا کہ انہوں نے اللہ کی معصیت کی یا اس کی مخالفت کی تو اس نے کفر کیا، ہم اس سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔
اس کے بعد علامہ ابن الحاج علامہ ابوبکر بن العربی کے حوالے سے لکھتے ہیں : اب ہمارے لئے حضرت آدم (علیہ السلام) کے متعلق اپنی طر سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے، ماسوا اس کے کہ ہم ان کے متعلق کسی آیت یا حدیث کا ترجمہ کریں، اور جب ہمارے لئے یہ جائزہ نہیں ہے کہ ہم اپنیی قریبی آباء کے متعلق کوئی بات کہیں تو جو ہمارے سب سے پہلے باپ ہیں اور تمام نبیوں پر مقدم ہیں ان کے متعلق کوئی ایسی بات کہنا کس طرح جائز ہوگا۔ (احکام القرآن ج ٣ ص 259) (المدخل ج ٢ ص 14، دارالفکر بیروت)
علامہ ابو عبداللہ قرطبی متوفی 668 ھ نے اس سلسلہ میں یہ لکھتا ہے :
اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء (علیہم السلام) کی طرف گناہوں کو منسوب فرمایا ہے اور ان پر عتاب فرمایا ہے اور خود انبیاء علہیم السلام نے ان کاموں پر استغفار فرمایا ہے، ان کاموں سے ان کے مراتب اور منصاب میں کوئی کمی نہیں ہوتی، ان سے یہ کام تاویل اور اجتہادی حطا سے یا نسیان سے صادر ہوئے، دوسروں کے اعتبار سے یہ کام حسنات ہیں اور ان کے بلند مرتبے کے اعتبار سے سیئات ہیں کیونکہ جس کام پر بادشاہ کو چوان کو انعام دیتا ہے وزیر سے اسی کام پر گرفت کرتا ہے، اسی وجہ سے عرصہ محشر میں انبیاء (علیہم السلام) خوف زدہ ہوں گے، حالانکہ ان کو اپنی سلامتی اور امن کا یقین ہوگا، اسی وجہ سے عرصہ محشر میں انبیاء (علیہم السلام) خوف زدہ ہوں گے، حالانکہ ان کو اپنی سلامتی اور امن کا یقین ہوگا، اسی وجہ سے جنید نے کہا نیکیوں کی نیکیاں مقربین (علیہم السلام) خوف زدہ ہوں گے، حالانکہ ان کو پانی سلامتی اور امن کا یقین ہوگا، اسی وجہ سے جنید نے کہا نیکیوں کی نیکیاں مقربین کے گناہ ہوتے ہیں۔ (دراصل یہ ابو سعید احمد بن عیسیٰ الخراز البغدادی المتوفی 286 ھ کا قول ہے انہوں نے کہا تھا، ذنوب المقربین حسنات الابرار، کے گناہ ہوتے ہیں۔ (دراصل یہ ابو سعید احمد بن عیسیٰ الخراز البغدادی المتوفی 286 ھ کا قول ہے انہوں نے کہا تھا ذنوب المقربین حسنات الابرار، تاریخ دمشق ج ٥ ص 205 داراحیاء التراث العربی بیروت، 1421 ھ)
پس انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات نے ان کاموں کی تلافی کی اور اللہ نے ان کو چن لیا، ان کی مدح فرمائی اور ان کا تذکرہ کیا اور ان کو پسند فرما لیا اور ان کو بزرگی دی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١١ ص 166-167، دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
علامہ اسماعیل حقی متوفی 1137 ھ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے متعلق جو لکھا ہے کہ ان کو ظالم کہنا ادب کے خلاف ہے، لیکن جائز ہے، انہوں نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا اور بےتوجہی میں لکھ دیا، اگر وہ اس پر غور اور توجہ کرتے تو ایسا نہ لکھتے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، لیکن شیخ فیض احمد اویسی پر لازم تھا کہ وہ اس عبارت کا ترجمہ کرنے کے بعد اس پر حاشیہ لکھتے اور بتاتے یہ محض خلاف ادب نہیں ہے، بلکہ بہت سنگین بات ہے کیونکہ اصل روح البیان تو عربی میں ہے اور اس کا جب اردو ترجمہ لوگ پڑھیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ حضرت آدم کو ظالم کہنا جائز ہے اور ظاہر ہے کہ تمام اردو دان عالم نہیں ہوتے تو اس ترجمہ اور حشایہ میں وضاحت نہ کرنے کی وجہ سے عام اردو دان لوگوں کے کفر اور گمراہی میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تفسیر میں ایسی سنگین تقصیرات سے محفوظ اور مامون رکھے۔ (آیمن)
ظالم کو مقتصد اور سابق پر مقدم کرنے کی توجیہات
اس آیت میں تین شخصوں کا ذکر ہے (١) اپنی جان پر ظلم کرنے والا (ہ) مقتصد یعنی نیکی اور برائی میں متوسط (و) اور نیکیوں میں سبقت کرنے والا، اور ان میں سب سے پہلے ظالم کا ذکر فرمایا ہے، اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ عموماً اس کا پہلے ذکر کیا جاتا ہے جس کا شرف اور مرتبہ زیادہ ہو پھر ظالم کے ذکر کو متوسط اور سابق سے پہلے بیان کرنے کی کیا توجیہ ہے، اس اشکال کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) کسی چیز کا پہلے ذکر کرنا اس کی فضیلت کو مستلزم نہیں ہے قرآن مجید کی بعض آیتوں میں دوزخیوں کا جنتیوں سے پہلے ذکر ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے : لایستوی اصحاب النار و اصحاب الجنۃ (الحشر : ٢٠ )
(٢) ظالموں اور فاسقوں کی تعداد متوسط نیکی کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے اور متوسطین کی تعداد، نیکی میں سابقت کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے سو جن کی تعداد زیادہ ہے ان کو پہلے ذکر فرمایا ہے۔
(٣) ظالم کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی توقع سب سے زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اس کو اپنی نجات کے لئے اس کی رحمت کے سوا اور کسی چیز پر بھروسا نہیں ہوتا، جب کہ متوسط اللہ تعالیٰ کے ساتھ مغفرت کا حسن ظن رکھتا ہے اور پانی نیکیوں کی وجہ سے ثواب کا امیدوار ہوتا ہے۔
(٤) اظلم کا اس لئے پہلے ذکر کیا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور سابق کا ذکر اس لئے موئخر کیا تاکہ وہ تکبر اور خودپسندی کا شکار نہ ہو۔
(٥) امام جعفر بن محمد بن علی الصادق (رض) نے فرمایا ظالم کا اس لئے پہلے ذکر کیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ اللہ کی رحمت اور اس کے کرم کے سوا نجات کی کوئی صورت نہیں ہے اور چونکہ ان تینوں قسموں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں میں کیا ہے جن کو اس نے چن لیا ہے اور منتخب فرما لیا ہے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ کسی شخص کا اپنی جان پر ظلم کرنا اس کے اللہ کے نزدیک منتخب اور پسندیدہ ہونے کے منافی نہیں ہے، اس کے بعد متوسطین کا ذکر فرمایا تاکہ وہ خوف اور امید کے درمیان رہیں اور آخر میں سابقین کا ذکر فرمایا تاکہ کوئی شخص اللہ کے عذاب سے بےخوف نہ ہو، اگرچہ ان میں سے ہر وہ شخص جنت میں ہوگا جس نے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا ہوگا۔
(٦) ظالم کو اس لئے مقدم فرمایا ہے کہ کتاب کا وارث ہونے سے پہلے بندہ کاملن ہیں ہوتا بلکہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بندوں سے چن لیتا ہے تو ان میں سے بعض اس کے فیض کو کم قبول کرتے ہیں وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض متوسط درجہ کا فیض قبول کرتے ہیں وہ مقتصد ہیں اور بعض سب سے زیادہ فیض کو قبول کرتے ہیں وہ نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔
(٧) اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کو چن لیتا ہے اور ان کو اصطفاء اور اجتباء سے نوازتا ہے تو اس کا کم درجہ اپنی جان پر ظلم کرنے والے کے لئے ہے، پھر اس سے زیادہ درجہ مقتصدین کے لئے ہے اور کامل درجہ سابقین کے لئے ہوگا، گویا یہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی ہے۔
(٨) ابتداء میں ظالم کا ذکر فرمایا اور آخر میں سابق کا ذکر فرمایا تاکہ مقتصد کا ذکر وسط میں ہوا اور جس طرح وہ معنی متوسط ہے لفظاً بھی متوسط رہے۔
(٩) ابوبکر بن وراق نے کہا اس ترتیب کی وجہ یہ ہے کہ بندہ کے احوال تین قسم کے ہیں، غفلت، معصیت، پھر توبہ اور قرب، وہ غفلت کی وجہ سے پہلے معصیت کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہوجاتا ہے، پھر جب اس معصیت سے توبہ کرتا ہے تو مقتصدین میں داخل ہوجاتا ہے اور توبہ کے بعد جب وہ بہ کثرت عبادت اور ریاضت کرتا ہے تو سابقین میں داخل ہوجاتا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 32