أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَـكُمۡ خَلٰٓئِفَ فِى الۡاَرۡضِ ؕ فَمَنۡ كَفَرَ فَعَلَيۡهِ كُفۡرُهٗ ؕ وَلَا يَزِيۡدُ الۡـكٰفِرِيۡنَ كُفۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ اِلَّا مَقۡتًا ۚ وَلَا يَزِيۡدُ الۡـكٰفِرِيۡنَ كُفۡرُهُمۡ اِلَّا خَسَارًا ۞

ترجمہ:

وہی ہے جس نے تم کو زمین میں (پہلے لوگوں کا) جانشین بنایا، سو جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے، اور کافروں کا کفر ان سے ان کے رب کو زیادہ ناراض ہی کرتا ہے، اور کافروں کا کفر کا وبال اسی پر ہے، اور کافروں کی کفر ان سے ان کے رب کو زیادہ نارض ہی کرتا ہے، اور کافروں کا کفر صرف ان کے نقصان کو زیادہ کرتا ہے

کفار کے نقصان اٹھانے کا محمل 

اس کے بعد فرمایا : وہی ہے جس نے تم کو زمین میں (پہلے لوگوں کا) جانشین بنایا۔

اس آیت میں خلائف کا لفظ ہے، خلائف، خلیفہ کی جمع ہے، خلافت کا معنی ہے دوسرے شخص کی نیابت کرنا، خلافت چار وجہوں سے ہوتی ہے۔ (١) اصل شخص کہیں چلا جائے تو وہ کسی دوسرے کو اپنا خلیفہ بنا دیتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ پہاڑ طور پر گئے تو حضرت ہارون کو اپنا خلیفہ بنا کر گئے (٢) اصل شخص کسی وجہ سے کوئی کام نہ کرسکے تو وہ دوسرے شخص کو اپنا خلیفہ بنا دے، جیسے جب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مرض کا غلبہ ہوا اور آپ کے لئے نماز پڑھانا مشکل ہوگیا تو آپ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو امام مقرر کردیا (٣) اصل شخص فوت ہوجائے تو کسی دوسرے کو اس کا خلیفہ اور قائم مقام بنادیا جائے، جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ مقرر کردیا (٤) چوتھی صورت یہ ہے کہ کسی کو شرف اور فضیلت عطا کرنے کے لئے اس کو خلیفہ بنادیا جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنایا۔ اس آیت میں یہ مراد ہے کہ ایک قوم اور ایک امت کے گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوسری قوم اور دوسری امت کو اس کا خلیفہ بنادیا۔ اس سے پہلے یہ فرمایا تھا کہ ہم نے کافروں کو اتنی مدت کی زندگی دی تھی جتنی مدت میں کوئی شخص دوسرے سے نصیخت حاصل کرسکتا ہے اور ان کے پاس آخرت کے عذاب سے ڈرانے والے رسول بھی بھیجے تھے اور ان کو عقل بھی عطا کی تھی اور ان کو اس پر متنبہ کردیا تھا کہ جو لوگ رسولوں کی تکذیب کریں گے ان پر عذاب نازل کر کے ان کو ہلاک کردیا جائے گا اور کفار مکہ زمین پر سفر کے دوران پہلے گزری ہوئی قوموں پر عذاب کے آثار دیکھ چکے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے کفر پر جمے ہوئے ہیں تو وہ اپنے اوپر اپنے رب کے غضب اور اس کی نارضاگی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں اور کفر سے ان کو صرف نقصان ہو رہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو زندگی عطا کی ہے وہ بہ منزلہ اصل مال ہے، جیسے انسان اگر اپنے مال سے فائدہ کی چیز خرید لے تو اس کو نفع ہوتا ہے ورنہ نقصان ہوتا ہے، اسی طرح یہ کفار اگر اپنی زندگی کو خرچ کر کے ایمان کو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو خرید لیتے تو ان کو فائدہ ہوتا اور جب کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی خرچ کر کے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو خریدا تو ان کے ہاتھ صرف نقصان آیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 39