وَلَوۡ يُـؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوۡا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهۡرِهَا مِنۡ دَآ بَّةٍ وَّلٰـكِنۡ يُّؤَخِّرُهُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيۡرًا۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 45
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَوۡ يُـؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوۡا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهۡرِهَا مِنۡ دَآ بَّةٍ وَّلٰـكِنۡ يُّؤَخِّرُهُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيۡرًا۞
ترجمہ:
اور اگر اللہ لوگوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے ان پر گرفت فرماتا تو روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک وقت مقرر تک انہیں ڈھیل دے رہا ہے، پس جب ان کا وقت آجائے گا تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ لے گا
بنو آدم کے گناہوں سے جانوروں کو ہلاک کرنا
فاطر : ٤٥ میں یہ فرمایا ہے : اور اگر اللہ لوگوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے ان پر گرفت فرماتا تو روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔ الآیۃ
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ انسانوں کے گناہوں کا اثر جنگلوں میں جانوروں پر اور فضا میں پرندوں پر بھی پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو ہلاک کردیا تھا ماسوا ان جانوروں کے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں تھے، بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ بنو آدم کے گناہوں کو وجہ سے اللہ تعالیٰ جانوروں کو ہلاک کردیتا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بنو آدم کے نفع کے لئے پیدا کیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ بنو آدم کے کفر اور شرک کی وجہ سے گرفت فرما کر تمام بنو آدم کو ہلاک کر دے گا تو ان کے نفع کے لئے جو جانور پیدا کئے تھے ان کو بای رکھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا سو بنو آدم کو ہلاک کرنے کے بعد وہ تمام جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کو بھی ہلاک فرما دے گا۔
اللہ تعالیٰ کے ڈھیل دینے کی حکمتیں
اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ ہر انسان سے کوئی نہ کوئی ایسی خطا یا تقصیر ضرور صادر ہوتی ہے جو گرفت کا تقاضا کرتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو ڈھیل دیتا رہتا ہے، پھر جو نادم ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے اس کو معاف کردیتا ہے اور اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو گناہوں پر اصرار کرتا ہے اکڑتا ہے اور سرکشی کرتا ہے اس سے مواخذہ فرماتا ہے اور اس پر گرفت فرماتا ہے، اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے حلم اور اس کے درگزر کرنے کا بھی پتا چلتا ہے اور اس میں بندوں کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ وہ بھی اپنی مرضی اور مزاج کے خلاف باتوں اور کاموں سے مشتعل نہ ہوں، غضب میں نہ آئیں اور ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔
اس کے بعد فرمایا پس جب ان کا وقت آجائے گا تو اللہ پانے بندوں کو خوب دیکھ لے گا۔
اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو جو ڈھیل دے رہا ہے اس کا کوئی یہ مطلب نہ لے کہ وہ اپنے بندوں کے اعمال سے غافل ہے، بلکہ وہ اپنے بندوں کے اعمال پر پوری بصیرت رکھتا ہے اور ان کو قوت مقرر پر پوری پوری جزا دے گا، نیک عمل کرنے والوں کو اجر وثواب سے نوازے گا کفار اور مشرکین کو دئامی سزا دے گا، اور فساق مومنین اس کی مشیت پر موقف ہیں اگر وہ چاہے گا تو اپنے عفو و درگزر اور فضل و کرم سے کام لے کر ان کو معاف فرما دے گا اور اگر چاہے گا تو ان کو عاضری عذاب میں مبتلا کر کے ان کو بخش دے گا اور اس عارضی عذاب کی کئی صورتیں ہیں، دنیا میں مصائب کا نزول، قبر کا عذاب، حشر میں حساب کو مئوخر کر کے اس کو دیر تک محشر میں محبوس رکھنا، اور آخری صورت یہ ہے کہ اسے کچھ وقت کے لئے دوزخ میں داخل کیا جائے حتیٰ کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجائے اور پھر اس کو جنت میں داخل کردیا جائے گا، مومنوں کو دوزخ کا عذاب دیا جائے گا اس میں بھی اس کے کرم سے یہ توقع ہے کہ وہ صورۃ عذاب ہوگا حقیقتۃ عذاب نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے ادراک اور شعور کو مائوف اور معطل کر دے گا جس کی وجہ سے اس کو اس عذاب کا درد اور اس کی اذیت نہیں ہوگی، جیسے کسی شخص کو کلورو فارم سنگھا کر بےہوش کردیتے ہیں پھر اس کے جسم کی سرجری کی جاتی ہے اس کا جسم اور اس کے اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں اور اس کو کوئی تکلیف ہوتی ہے نہ درد محسوس ہوتا ہے۔
اختتام سورت
الحمد للہ رب العلمین علی احسانہ وکرمہ آج بہ روز جمعرات مورخہ 12 ذوالقعدۃ 1423 ھ /16 جنوری 2003 ء کو سورت فاطر کی تفسیر مکمل ہوگئی، 13 دسمبر 2002 ء کو اس سورت کی تفسیر شروع کی تھی، اس طرح تقریباً ایک ماہ میں اس سورت کی تفسیر اختتام پذیر ہوگئی، انواع و اقسام کے امراض لاحق ہونے کی وجہ سے اور ان کے پرہیز کے نتیجے میں صرف بھوسی کی ڈبل روٹی کے تین سلائس اور ابلی ہوئی سبزی ہی کو ایک وقت میں کھا پاتا ہوں، دماغی کام کے لئے گلوگوز اور فاسفورس اشد ضروری ہیں لیکن جن چیزوں میں گلوکوز اور فاسفورس ہوتا ہے ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے میں انہیں کھا نہیں سکتا، کمر کی طاقت کے لئے گوشت بہت ضروری ہے مگر کلسٹرل سے پرہیز کی وجہ سے وہ بھی نہیں لے سکتا، کئی مقوی چیزیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے نہیں کھا سکتا، بس اللہ کا فضل اور قارئین کی دعائیں ہیں جو اس تفسیر کا کام ہو رہا ہے، ورنہ جسمانی توانائی اور قوت کار کے جو ظاہری اسباب ہیں وہ بالکل حاصل نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس طرح یہاں تک پہنچا دیا ہے باقی تفسیر بھی مکمل کرا دیں اور اس تفسیر کو موافقین کے لئے استقامت اور مخلاین کے لئے ہدایت کا سبب بنادیں اور اس کو تاقیامت فیض آفریں رکھیں اور محض اپنے فضل اور اپنے حبیب کریم کی شفاعت سے میری، میرے والدین کی، میرے اساتذہ کی، میرے احباب اور تلامذہ کی اور میری کتابوں کے قارئین کی اور ناشر اور صمحح کی مغفرت فرما دیں۔
میرے والدین میرے اساتذہ میرے احباب، میرے قرابت دار اور جمہ مسلمین کو بخش دیں۔ اے میرے رب ! قیامت کے کے دن مجھے شرمندہ نہ کرنا، میری عزت رکھنا مجھے سرخرو اٹھانا اور علماء صالحین، مفسرین، محدثین اور فقراء مجتہدین کے زمرہ میں میرا حشر کرنا اور جنت الفردوس عطا کرنا اور مجھے اپنی رضا سے نوازنا !
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبین سیدالمرسلین، قائد الغر المحجدین شفیع المذنبین و علی الہ الطییبین و اصنحابہ الراشدین وعلی ازواجہ الطاھرات امھات المومنین و علی علماء ملتہ واولیاء امتہ و علی سائر السلمین اجمعین۔
القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 45