أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰسٓ ۞

ترجمہ:

یاسین

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یاسین قرآن حکیم کی قسم بیشک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں سیدھے راستے پر قائم ہیں (یٰسین : ٤-١)

بعض سورتوں کی ابتداء میں حروف مقطعات ذکر کرنے کی حکمت 

یٰسین حروف مقطعات میں سے ہے جس طرح قرآن مجید کی دیگر بعض سورتوں کو حروف مقطعات سے شروع کیا گیا ہے اسی طرح اس سورت کو بھی حروف مقطعات سے شروع کیا گیا ہے۔

قرآن مجید کی ان سورتوں کے اوائل میں حروف تہجی کو ذکر فرمایا ہے اور ان کے اوائل میں حروف تہجی کو ذکر فرمانے کی حکمت یہ ہے کہ حکیم جب کسی ایسے شخص سے مخاطب ہو جو غافل ہوسکتا ہو یا اس کا دل کسی اور بات میں مشغول ہو تو وہ اپنے کلام کی ابتداء میں کسی ایسے لفظ کا ذکر کرتا ہے جس کا معنی بادی النظر میں سمجھ میں نہ آئے تاکہ اس کا مخاطب چوکنا ہو اور اس کا ذہن بیدار ہو اور وہ پوری طرح اس کلام کی طرف متوجہ ہوجائے، پھر اس کے بعد وہ حکیم اپنے کلام کے مقصود کو شروع کرتا ہے۔

اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جن سورتوں کی ابتداء میں حروف تہجی کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے بعض سورتوں کے اوائل میں کتاب یا تنزیل یا قرآن کا ذکر ہے، جیسے آلم ذلک الکتب (البقرہ : ٢-١) الٓم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم نزل علیک الکتب (آل عمران : ٣-١) المص کتب انزل الیک (الاعراف : ٢-١) یٰسین والقرآن (یٰسین : ٢-١) ص والقراٰن (ص ١) ق والقرآن (قؔ١) آلم تنزیل الکتب (السجدۃ : ٢-١) حم تنزیل الکتب (الجاثیہ : ٢-١) البتہ تین سورتوں میں حروف تہجی کے بعد قرآن یا کتاب کا ذکر نہیں ہے اور وہ یہ ہیں : کھیعص (مریم : ١) آلم احسیب الناس (العنکبوت : ٢-١) آلم غلبت الروم (الروم : ٢-١)

جن سورتوں کے شروع میں قرآن یا کتاب یا تنزیل کا ذکر ہے ان میں قرآن کے ذکر سے پہلے ان حروف تہجی کا ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ قرآن مجید بہت عظیم کتاب ہے اور اس کے نزل کرنے میں ثقل اور گرانی ہے اس لئے اس کو شروع کرنے سے پہلے ان حروف تہجی کا ذکر کیا تاکہ مخاطب اس عالی قدر کتاب کے ثقل کو ذہن میں بٹھانے سے پہلے متنبہ اور چوکنا ہوجائے کہ اب ایسا لفظ سننے میں آیا ہے جس کا معنی ظاہر اور واضح نہیں ہو تو دیکھے آگے کیا ارشاد ہوتا ہے، اس لئے ارشاد فرمایا :

انا سلفی علیک قولاً ثقیلاً (المزمل : ٥) بیشک ہم آپ پر عنقریب ثقیل کلام نازل فرمائیں گے۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہر سورت قرآن ہے اور اس کا سننا قرآن کا سننا ہے، خواہ اس میں لفظاً قرآن کا ذکر ہو یا نہ ہو، تو اس قاعدہ کے موافق ہر سورت سے پہلے بطور تنبیہ حروف تہجی کو مذکور ہونا چاہیے تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کی ہر سورت قرآن ہے لیکن جس سورت کی ابتداء میں قرآن کا لفظاً ذکر ہے اس کا قرآن ہونا زیادہ مئوکد ہے اس لئے اس کی طرف مخاطب کے ذہن کو حاضر اور متوجہ کرنے کے لئے زیادہ اہتمام فرمایا۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص ص 23-24 ملحضاً مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

حروف مقطعات کے معنی اور مفہوم کے نامعلوم ہونے کی توجیہ 

بعض سورتوں میں ان حروف تہجی میں سے صرف ایک حرف ذکر کیا گیا ہے بعض سورتوں میں دو حرفوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بعض سورتوں میں تین یا تین سے زائد حروف کا ذکر کیا گیا ہے پھر ان حروف کا چنائو بھی مختلف ہے اس تخصیص کی مکمل حکمت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا یا اس کی حکمت وہ شخص جانتا ہے جس کو اللہ نے بہ طور خاص اس حکمت پر مطلع فرمایا ہے ہم یوں سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بعض احکام پر عمل کرتے ہیں اور ہم ان احکام کے فائدہ اور حکمت کو اپنی عقل سے جان لیتے ہیں اور بعض احکام پر عمل کرنے کا کوئی فائدہ ہماری عقل میں نہیں آتا اس کے باوجود ہم دونوں قسم کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں پر وے قرآن پر ایمان لانے اور اس کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس میں حروف مقطعات بھی ہیں جن کا معنی اور مفہوم ہم نہیں جانتے اور ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے نازل کرنے کا کیا فائدہ ہے، لیکن ہم ان کے قرآن ہونے پر ایمان لائیں گے اور ان کی تلاوت کریں گے خواہ ہمیں ان کا معنی اور مطلب معلوم نہ ہو اور ہمیں ان کے نازل کرنے کا فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔

ہم نے جو کہا ہے کہ بعض احکام کی حکمت کو ہم اپنی عقل سے جان لیتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے واحد عالم اور قادر ہونے کا عقیدہ ہے اور اس طرح جنت اور نار کے برحق ہونے کا عقیدہ ہے تو ہم عقل سے جان لیتے ہیں کہ جزاء اور سزا کے لئے کوئی ذریعہ ہونا چاہیے لیکن جنت اور نار کی کیفیات اور تفصیلات کو ہم عقل سے نہیں جان سکتے، اسی طرح ہم عقل سے یہ جان سکتے ہیں کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی رسول ہونا چاہیے لیکن عقل سے یہ نہیں جان سکتے کہ کتنے رسول ہونے چاہئیں، ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے نماز، روزہ اور زکوۃ کی صورت میں اس کی عبادت ہونی چاہیے لیکن نمازوں کے اوقات، ان کی رکعات کی تعداد زکوۃ کی مقدار اور روزے میں وقت کی تعیین کو عقل سے نہیں جاسکتے تھے، اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے ہم اس کی آیات کے معانی کو عقل سے جان سکتے ہیں لیکن حم، یسین، آلم اور طس کے معانی کو ہم عقل سے نہیں جان سکتے۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص 250-251 ملحضاً و موضحاً داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

یٰسین کے اسرار و رموز 

ہر چند کہ یقینی اور حتمی طور پر حروف مقطعات کا معنی اور مفہوم معلوم نہیں ہے تاہم ظنی طور پر بعض مفسرین نے ان کے معانی بیان کئے ہیں اور یہ کہا ہے کہ ان حروف سے اشارۃ یہ معانی معلوم ہوتتے ہیں، سو ہم یٰسین کے متعلق بعض مفسرین کے ذکر کردہ معانی پیش کر رہے ہیں :

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

اب صالح نے حضرت معاویہ، حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یٰسین اللہ کے اسماء میں سے ہے اور اس اسم سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :2220، دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یٰسین کا معنی حبشی زبان میں اے انسان ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22221، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :18024)

قتادہ نے کہا قرآن مجید میں جتنے حروف مقطعات ہیں وہ سب اللہ کے اسماء ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22224)

امام عبدالرحمٰن بن محمد بن ادریس المعروف بابن ابی حاتم متوفی 327 ھ لکھتے ہیں :

اشھب بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک بن انس سے پوچھا : آیا کسی شخص کے لئے یٰسین نام رکھنا جائز ہے ؟ امام مالک نے فرمایا میری رائے میں اس کو یہ نام نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یٰسین والقرآن الحکیم کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرا نام ہے میں نے اپنے نام کے ساتھ اس سورت کا نام رکھا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :18025)

حسن نے اس آیت کی تفسیر میں کہا اللہ تعالیٰ جس چیز کے ساتھ چاہے قسم کھائے، پھر اس سے اعراض کر کے سلم علی ال یاسین (الصفت :130) کے متعلق کہا اللہ نے اپنے رسول پر سلام بھیجا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :18026)

امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری المتوفی 465 ھ لکھتے ہیں :

یٰسین کا معنی یا سید ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یا سے یوم میثاق کی طرف اشارہ ہے، اور سین سے اس کے احباب کے سر (راز) کی طرف اشارہ ہے گویا یوم میثاق کے حق کی قسم اور احباب کے ساتھ راز کی قسم اور قرآن حکیم کی قسم۔ (لطاف الاشارات ج ٣ ص 74 دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

علامہ ابن عباس اور حضرت ابن مسعود (رض) وغیرھم سے روایت ہے کہ یٰسین کا معنی ہے یا انسان اور سلام علی الیاسین کا معنی ہے آل محمد پر سلام ہو اور سعید بن جبیر نے کہا یٰسین سیدنامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسماء میں سے ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا : انک لمن المرسلین ” بیشک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں “ امام مالک نے جو یٰسین نام رکھنے سے منع کیا ہے اس کی توجیہ میں علامہ ابن العربی نے کہا بندہ اپنے رب کا نام اس وقت رکھ سکتا ہے جب اس نام کا کوئی معنی ہو جیسے عالم، قادر، مرید اور متکلم، امام مالک نے یٰسین نام رکھنے سے اس لئے منع فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ان اسماء میں سے ہے جن کا معنی معلوم نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کا معنی ایسا ہو جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہو اور وہ اس اسم کے ساتھ منفرد ہو، پس بندہ کو اس نام کے رکھنے پر جرأت نہیں کرنی چاہیے، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سلام علی الیاسین، اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا کلام اس اسم میں ہ جو حروف تہجی پر مشتمل ہے اور یاسین ان حروف سے مرکب ہے، امام مالک نے یٰسین نام رکھنے سے منع کیا ہے یاسین نام رکھنے سے منع نہیں کیا، پس کوئی اشکال نہ رہا۔

یٰسین کو حدیث میں قرآن کا قلب فرمایا ہے اور قلب پورے جسم کا امیر ہوتا ہے اسی طرح یٰسین بھی تمام سورتو کی امیر ہے اور ابومحمد مکی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے رب کے نزدیک میرے دس اسماء ہیں اور ان اسماء میں طہ اور یٰسین بھی آپ کے اسم ہیں۔

علامہ الماوردی نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں میرے ساتھ اسماء رکھے ہیں (١) محمد (٢) احمد (٣) طہ (٤) یٰسین (٥) المزمل (٦) المدثر (٧) عبداللہ، نیز علامہ الماوردی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یٰسین کا معنی ہے یا محمد اور اس قول کو محمد بن الحنفیہ سے روایت کیا ہے۔ (النکت والعین ج ٥ ص ٥، دارالکتب العلمیہ بیروت)

امام جعفر الصادق سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یٰسین سے یاسید کا ارادہ فرمایا ہے اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس کا معنی ہے یا انسان اور اس سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ فرمایا ہے، الزجاج نے کہا اس کا معنی یا محمد ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص 6-7 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 1