اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 12
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ۞
ترجمہ:
بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم ان کے وہ عمل لکھ رہے ہیں جو انہوں نے پہلے بھیج دیئے اور وہ عمل (بھی) جو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیئے اور ہم نے ہر چیز کا احاطہ کر کے لوح محفوظ میں منضبط کردیا ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم ان کے وہ عمل لکھ رہے ہیں جو انہوں نے پہلے بھیج دیئے اور وہ عمل (بھی) جو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیئے اور ہم نے ہر چیز کا احاطہ کرکے لوح محفوظ میں منضبط کردیا ہے (یٰس :12)
انسان کے اچھے یا برے اعمال کا لکھا ہوا محفوظ ہونا
اس آیت میں مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر ہے اور اس میں ان کافروں کا رد ہے جو اس کے قائل نہیں تھے کہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کیا جائے گا اور اس آیت میں یہ بھی ذکر ہے کہ انسان جو کچھ عمل کرتا ہے اس کو لکھ لیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق انسان کو آخرت میں جزا یا سزا دی جائے گی۔ انسان سب سے پہلے اللہ کو واحد ماننے کا مکلف ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکلف ہے اور پھر آخرت پر ایمان لانے کا مکلف ہے، اس سے پہللی آیتوں میں توحید اور رسالت کا ذکر فرمایا تھا اور اب اس آیت میں آخرت کا ذکر فرمایا ہے۔
اس آیت میں فرمایا ہے : اور ہم ان کے وہ عمل بھی لکھ رہے ہیں جو انہوں نے پہلے بھیج دیئے اور وہ عمل (بھی) جو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیئے۔
درج ذیل آیتوں میں بھی انسان کے پہلے اور بعد کے بھیجے ہوئے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے :
(قیامت کے دن) ہر شخص اپنے پہلے بھیجے ہوئے اور بعد میں بھیجے ہوئے اعمال کو جان لے گا۔
(الانفطار :5)
اس دن انسان کو اس کے پہلے بھیجے ہوئے اعمال کو جان لے گا۔
اس دن انسان کو اس کے پہلے بھیجے ہوئے اور بعد میں بھیجے ہوئے اعمال کی خبر دی جائے گی۔
(القیامۃ :13)
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص غور کرے کہ وہ کل قیامت کے لئے کیا عمل بھیج رہا ہے۔
الحشر :18)
آثار سے مراد انسان کے وہ عمل ہیں جو اس کے مرنے کے بعد بعد باقی رہ جاتے ہیں اور دنیا میں انسان کے اعمال کا اچھائی یا برائی کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے اور آخرت میں اعمال کی جزا یا سزا دی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی کو دین کا علم پڑھاتا ہے اور پھر اس کے شاگرد اس علم کی اشاعت کرتے رہتے ہیں یا وہ کسی دینی موضوع پر کتاب تصنیف کرتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد وہ کتاب شائع ہوتی رہی ہے، وہ کوئی مسجد بنا دیتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس میں نماز پڑھی جاتی ہے یا وہ کوئی دینی مدرسہ بنا دیتا ہے یالائبریری بنا دیتا ہے، کوئی کنواں کھدوا دیتا ہے، غریبوں کے علاج کے لئے کوئی ہسپتال قائم کردیتا ہے علی ہذا القیاس وہ کوئی بھی ایسا نیک کام کرجاتا ہے جس کا فیض اس کے بعد بھی جاری رہتا ہے، یہ نیک کاموں کی مثالیں ہیں۔
اور برے کاموں کی مثالیں یہ ہیں : جیسے کوئی انسان شراب خانہ یا قحبہ خانہ بنا کر مرجاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد وہ بدکاری کے اڈے قائم رہتے ہیں اور ان میں بدکاری ہوتی رہتی ہے یا کوئی انسان مندر بنا کر مرجاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی اس میں بتوں کی پوجا ہوتی رہتی ہے یا کوئی انسان ریس کورس یا جوئے خانہ بنا کر مرجاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی وہاں جوئے کا کھیل اور گھوڑ دوڑ پر بازیاں لگائی جاتی رہتی ہیں، اسی طرح کوئی شخص فلم سٹوڈیو یا سنیما یا وڈیو شاپ یا میوزک ہائوس بنا جاتا ہے یا کوئی بھی ایسا برا کام کرکے چلا جاتا ہے جہاں اس کے مرنے کے بعد بھی برائی ہوتی رہتی ہے، نیکی اور برائی کے عمل بعد میں جاری رہنے کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
نیکی اور برائی کے عمل مرنے کے بعد بھی جاری رہنے کے متعلق احادیث اور آثار
حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں کوئی نیک عمل ایجاد کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے ان کا اجر بھی ملے گا اور ان کے اجروں میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جو شخص اسلام میں کسی برے طریقہ کو ایجاد کرے گا تو اس کو اس برے طریقہ کا گناہ ہوگا اور اس کے بعد جو لوگ اس برے طریقہ پر عمل کریں گے اسے ان کا بھی گناہ ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث :1017، سنن النسائی رقم الحدیث : 2554، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 203)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخض بھی (قیامت تک) قتل کیا جائے گا تو پہلے ابن آدم کو اس کے قتل کی سزا سے حصہ ملے گا کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : 3335، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1677، سنن الترمذی رقم الحدیث :2673، سنن النسائی رقم الحدیث : 3985، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : 11142، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2616)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب انسان مرجاتا ہے تو تین عملوں کے سوا اس کے باقی اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے یا نیک بیٹ اجو اس کے لئے دعائے خیر کرے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :1631، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1376، سنن ابو دائود رقم الحدیث 2880، مسند احمد ج 2 ص 372، السنن الکبریٰ للبیہقی ج 6 ص 278، شرح السنہ ج 1 ص 220، کنز العمال رقم الحدیث :43655)
سعید بن جبیر نے کہا لوگ جس کام کی بنیاد رکھتے ہیں اور ان کے بعد اس پر عمل کیا جاتا ہے اس کو لکھ لیا جاتا ہے۔
مجاہد نے کہا انہوں نے جو برا کام ایجاد کیا ہو اس کو بھی لکھ لیا جاتا ہے۔
(تفسیر امام ابن ابی حاتم ج 10 ص 3190، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ 1417 ھ)
زیادہ دور سے آکر مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت میں احادیث
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو سلمہ نے یہ شکایت کی کہ ان کے گھر مسجد سے دور ہیں تو اللہ عزو جل نے یہ آیتنازل فرمائی و نکتب ما قدموا واثارھم ایک قوم نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ جتنے قدم مسجد میں چل کر جاتے ہیں ان کو لکھ لیا جاتا ہے۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : 3226، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 1982، المستدرک ج 2 ص 428، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :785)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو سلمہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب منتقل ہوجائیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے خاکلی کئے جانے کو ناپسند فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا : اے بنو سلمہ ! تم اپنے قدموں کے نشانات میں ثواب کی نیت کیوں نہیں کرتے ! سو وہ اپنے گھروں میں برقرار رہے۔ (شرح السنہ رقم الحدیث :470، صحیح البخاری رقم الحدیث :1887، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :784، مسجد احمد ج 3 ص 106، صحیح مسلم رقم الحدیث 665، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :2042)
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز پڑھنے کا سب سے زیادہ اجر اس شخص کو ملتا ہے جو سب سے زیادہ دور سے نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتا ہے، پھر اس کے بعد اس کو زیادہ اجر ملتا ہے جو اس کے بعد زیادہ دور سے ماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتا ہے اور جو نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے، اس کو اس شخص سے زیادہ نماز پڑھنے کا اجر ملتا ہے جو اپنی نماز پڑھ کر سو جاتا ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث :651، صحیح مسلم رقم الحدیث : 664، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : 7294، سنن کبریٰ للبیہقی ج 3 ص 64)
جو شخض زیادہ دور سے نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتا ہے اس کو زیادہ اجر اس لئے ملتا ہے کہ وہ زیادہ قدم چل کر مسجد میں آتا ہے۔ اور زیادہ قدم چلنے کا اجر وثواب لکھ لیا جاتا ہے۔
حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ میں سے ایک شخص تھا جس کا گھر سب سے زیادہ مسجد سے دور تھا وہ تمام نمازیں مسجد میں آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پڑھتا تھا، میں نے اس سے کہا کاش تم ایک دراز گوش خری دلو اور سخت گرمی میں اور اندھیری راتوں میں اس پر سوار ہو کر آیاکرو، اس نے کہا اللہ کی قسم مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرا گھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد سے متصل ہو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اس کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا یا نبی اللہ ! تاکہ میرے گھر سے مسجد آنے اور مسجد سے واپس گھر جانے کا اجر وثواب لکھا جائے، آپ نے فرمایا : تم نے جو نیت کی ہے اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا ثواب عطا فرما دیا۔
(مسند احمد ج 5 ص 133، مسند احمد رقم الحدیث : 21274، دارالکتب العلمیہ، رقم الحدیث 20711، داراحیاء التراث العربی بیروت)
امام ابن مردویہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمای اجب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر سے دوسرے گھر تک (کسی نیک مقصد کے لئے) چل کرجاتا ہے تو ہر قدم پر اللہ ایک نیکی لکھتا ہے۔ اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ (الدر المثو رج 7 ص 44، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1421 ھ)
امام مبین کے متعدد معانی اور محال
اس کے بعد فرمایا : اور ہم نے ہر چیز کا احاطہ کرکے لوح محفوظ میں منضبط کردیا ہے (یٰس 21)
یس 12 کے اس حصہ کے حسب ذیل معانی ہیں :
اس میں یہ بتایا ہے کہ ہم نے انسانوں کے جو اعمال لکھے ہیں اس سے پہلے بھی ان کے اعمال لکھے ہوئے تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ وہ انسانوں کو اختیار عطا کرے گا تو وہ اپنے اختیار سے کیا کیا عمل کریں گے اور پھر اس نے بندوں کے ان اعمال کو لوح محفوظ میں لکھ کر محفوظ کردیا جیسا کہ یس کی اس آیت میں ہے اور ایک اور آیت میں بھی ہے :
اور ہر وہ کام جو انہوں نے کیا ہے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور ہر چھوٹی اور بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔
(القمر :53-52)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہر چیز کی تقدیر مقرر کردی تھی۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث :2156، مسند احمد ج 2 ص 169، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 6138، کتاب الاسماء والصفات ص 374-375)
حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھو، اس نے کہا میں کیا لکھوں ؟ فرمایا تقدیر لکھو جو کچھ ہوچکا ہے اور ابد تک جو کچھ ہونے والا ہے۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : 2155، سنن ابودائود رقم الحدیث : 4700)
سو ازل میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے، پھر جب بندے عمل کرتے ہیں تو کراماً کاتبین ان کے اعمال کو دوبارہ لکھتے ہیں اور اسی لکھے وہئے کو حشر کے دن ان پر پیش کیا جائے گا، ان کے لکھنے کا ذکر یس 12 میں بھی ہے کہ ہم ان کے وہ عمل لکھ رہے ہیں جو انہوں نے پہلے بھیج دیئے اور حسب ذیل آیت میں بھی ہے :
بے شک تم پر نگران ہیں معزز لکھنے والے وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے حو۔
لوح محفوظ میں منضبط کرنے کا یہ معنی بھی ہے کہ جس چیز کو لکھا جاتا ہے بعض اوقات وہ منتشر ہوجاتی ہے اور وقت پر نہیں ملتی، اللہ تعالیٰ نے اس وہم کا ازالہ کردیا اور بتایا کہ ہم جو کچھ لکھتے ہیں وہ لوح محفوط میں منضبط ہے جیسا کہ فرمایا ہے :
موسیٰ نے کہا ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب (لوح محفوط) میں ہے، میرا رب نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔
اور لوح محفوظ میں منضبط کرنے کا تیسرا معنی یہ ہے کہ پہلے فرمایا تھا کہ ہم ان کے وہ عمل لکھ رہے ہیں جو انہوں نے پہلے بھیج دیئے، اس کے بعد یہ واضح فرمایا کہ ہم صرف بندوں کے اعمال ہی نہیں لکھتے بلکہ ہم نے ہر چیز کا احاطہ کرکے اس کو لوح محفوظ میں منضبط کردیا ہے۔
لوح محفوظ کو امام اس لئے فرمایا ہے کہ امام وہ ہوتا ہے جس کی اتباع اور اقتداء کی جاتی ہے اور فرشتے احکام کو نافذ کرنے میں لوح محفوظ کی ابتاع کرتے ہیں، لوح محفوظ میں جس شخص کی جتنی عمر لکھی ہوتی ہے اور جتنا رزق لکھا ہوتا ہے اس کی ابتاع کرکے اس کو اتنا رزق دیتے ہیں اور اتنے عرصہ کے عبد اس کی روح قبض کرتے ہیں، اس کی جتنی اولاد لکھی ہوئی ہوتی ہے اور جتنے اس کے حوادث اور نوازل لکھے ہوئے ہوتے ہیں ان تمام امور میں وہ لوح محفوظ کی ابتاع کرتے ہیں۔
ماکان ومایکون غیر متناہی ہیں لوح محفوظ ان کا محل کس طرح بن سکتی ہے۔
اس آیت کے شروع میں فرمایا ہے بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں “ مردہ اس کو کہتے ہیں کہ کسی جسم سے اس کی روہ نکال لی جائے اور زندہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ کسی چیز میں حس اور حرکت ارادیہ کو نافذ کردیا جائے، یہ ظاہری زندگی اور موت کا معنی ہے اور ایک باطنی موت ہے اور وہ ہے دل کا مردہ ہوجانا، انسان گناہ پر گناہ کرتا رہے اور توبہ نہ کرے تو اس سے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے، اسی طرح زیادہ ہنسنے سے بھی دل مردہ ہوجاتا ہے اور گناہوں پر نادم ہونے اور رونے سے اور نیکی کی باتوں کو کرنے سے دل زندہ ہوتا ہے۔
اس جگہ یہ اشکال ہوتا ہے کہ حوادث کونیہ غیر متناہی ہیں، جنت کی نعمتیں غیر متناہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معلومات غیر متناہی ہیں اور اس آیت میں فرمایا ہے ہم نے ہر چیز کا لوح محفوظ میں احاطہ کردیا ہے تو غیر متناہی امور کا کس طرح احاطہ کیا جاسکتا ہے، علامہ آلوسی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ تمام حوادث کا لوح محفوظ میں دفعۃ واحدۃ اور یک بارگی ذکر نہیں ہے، بلکہ متعدد دفعات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً پہلے اس میں ایک ہزار سال کے حوادث کا ذکر کیا گیا، پھر جب وہ حوادث گزر گئے تو ان کو مٹا کر اگلے ایک ہزار سال کے حوادث ذکر کردیئے پھر ان کو مٹا کر اور ایک ہزار سال کے حوادث کا ذکر کردیا، اور یہ تاویل کرنا اس لئے ضروری ہے کہ متناہی چیز عیر متناہی امور کے لئے محل نہیں بن سکتی یا پھر یہ جواب دیا جائے کہ لوح محفوظ میں صرف اس دنیا کے حوادث اور بندوں کے افعال کا ذکر لکھا ہوا ہے اور اس دنیا کے احوال اور بندوں کے افعال متناہی ہیں اور غیر متناہی آخرت کے احوال اور جنت کی نعمتیں اور اللہ تعالیٰ کی معلومات ہیں اور ان کا لوح محفوظ میں ذکر نہیں ہے۔
علامہ آلوسی نے کہا ہے کہ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ لوح محفوظ میں قیامت تک کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور وہ متناہی ہیں اور لوح محفوظ بہرحال متناہی ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 12