{تراویح کی نماز کا بیان}

تراویح بیس رکعت سنتِ موکدہ ہیں جو رمضان شریف میں پڑھی جاتی ہیں۔

حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک سرکارِ اعظم ﷺرمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے ۔ (بحوالہ : بیہقی ، کتاب برھان الصلوٰۃ)

مسئلہ : تراویح کا وقت عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سے لے کر صبح صادق کے نکلنے تک ہے ۔ (ہدایہ )

مسئلہ : تراویح میںجماعت سنتِ کفایہ ہے کہ اگر مسجد کے سب لوگوں نے چھوڑ دی تو سب گنہگار ہوئے اوراگر کسی ایک نے گھر میں تنہا پڑھ لی توگنہگار نہیں ۔

مسئلہ : تراویح جس طرح مردوں پر سنّتِ مؤکدّہ ہے اِسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنّتِ مؤکدّہ ہے اس کا چھوڑنا جائز نہیں۔

مسئلہ : جس نے عشاء کی فرض نہیںپڑھی وہ نہ تراویح پڑھ سکتاہے نہ وتر جب تک فرض ادا نہ کرے ۔

مسئلہ : جس نے عشاء کی نماز بغیر جماعت کے پڑھی اورتراویح جماعت سے پڑھی تووہ وتر بغیر جماعت کے پڑھے۔

مسئلہ : مہینہ بھر کی کل تراویح میں ایک بار قرآن مجید ختم کرنا سنّت مؤکدّہ ہے اوردو مرتبہ فضیلت اورتین مرتبہ افضل ہے ۔ لوگوں کی سُستی کی وجہ سے ختم کونہ چھوڑے۔ (درمختار)

مسئلہ : حافظ کو اُجرت دے کر تراویح پڑھوانا ناجائز ہے ۔ دینے والا اورلینے والا دونوں گنہگار ہیں ۔ اُجر ت صرف یہی نہیں ہے کہ پیشتر سے مقرر کرلیں کہ یہ لیں گے یہ دیں گے بلکہ اگر یہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگر چہ اس سے طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے ۔ المعروف کا لمشروط (معروف مشروط کی مانند ہوتاہے)ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا پھر پڑھے اورلوگ حافظ کو کچھ بطور خدمت ومدد کے دیں تواس میںکچھ حرج نہیںکہ الصریح یفوق الدلالۃ ۔(قانونِ شریعت)

مسئلہ : تراویح میںقرآن اتنی جلدی نہ پڑھا جائے کہ الفاظ سمجھ میں نہ آئیں اورمخارج صحیح ادا نہ ہوں ۔