لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 7
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ ۞
ترجمہ:
ان میں سے اکثر کے متعق ہماری خبر ثابت ہوچکی ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان میں سے اکثر کے متعلق ہماری خبر ثابت ہوچکی ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے ان کے سر اوپر اٹھے ہوئے ہیں (یٰسین :7-8)
کفار کی گردنوں میں طوق ڈالنے کا محمل
یعنی اکثر اہل مکہ پر عذاب واجب ہوچکا ہے سو آپ کی تبلیغ سے وہ ایمان نہیں لائیں گے، کیونکہ ازل میں اللہ تعالیٰ کا ان کے متعلق یہ علم تھا کہ وہ اپنے اختیار سے تاحیات ایمان نہیں لائیں گے اور کفر پر ہی مریں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان نہ لانے اور کفر پر اصرار کرنے کا سبب بیان کیا اور فرمایا : ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے ان کے سر اوپر اٹھے ہوئے ہیں
ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوجہل بن ہشام اور اس کی دو مخرومی ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوجہل نے قسم کھائی کہ اگر اس نے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو پتھر سے آپ کا سر پھاڑ دے گا، جب اس نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو پتھر اٹھا کر آپ کی طرف بڑھا جب اس نے پتھر اٹھا کر آپ کی طرف اشارہ کیا تو اس کا ہاتھ اس کے گلے کی طرف لوٹ آیا اور پتھر اس کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ گیا، اس کو حضرت ابن عباس (رض) اور عکرمہ وغیرہ نے بیان کیا ہے اور اس مثال میں ابوجہل اس شخص کی مثل ہے جس کا ہاتھ اس کی گردن تک باندھا وا ہو، پھر ابوجہل اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان کو بتایا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے، تو اس کے دو ساتھیوں میں سے ولید بن مغیرہ نے کہا میں اس کا سر پھاڑ کر آتا ہوں، وہ آپ کے پاس پہنچا آپ اسی طرح نماز پڑھ رہے تھے اس نے پتھر مارنے کے لئے اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے آپ کی آواز تو سن رہا تھا لیکن وہ آپ کا سر نہیں دیکھ رہا تھا، وہ بھی اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ آیا اور اس نے کہا اللہ کی قسم ! میں ان کو نہیں دیکھ سکا میں ان کی آواز تو سن رہا تھا لیکن مجھے ان کا سر نظر نہیں آ رہا تھا، تب ابوجہل کے تیسرے ساتھی نے کہا میں جا کر ان کا سرپھاڑ کر آئوں گا، وہ پتھر اٹھا کر چل پڑا پھر الٹے پیر پلٹ آیا اور پیٹھ کے بل بےہوش ہو کر گرپڑا، اس سے اس کے ساتھیوں نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ؟ اس نے کہا جب میں ان کے قریب ہوا تو میں نے دیکھا ایک بہت بڑا سانڈ (بیل) ہے جو اپنی دم ہلا رہا ہے میں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا سانڈ نہیں دیکھا تھا، وہ میرے اور ان کے درمیان حائل ہوگیا، لات اور عزی کی قسم ! اگر میں ان کے قریب جاتا تو وہ مجھے کھا جاتا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : م نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں، جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے ان کے سراوپر اٹھے ہوئے ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ٥١ ص ٩ زاد المسیر ج ٧ ص ٦ معالم التنزیل ج ٤ ص ٦، روح المعانی جز ٢٢ ص ٣٢٣ )
ابوجہل کا واقعہ بعض کتب حدیث میں اس طرح ہے :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو جہل نے کہا اگر میں نے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو میں ان کی گردن کو پیروں سے روندوں گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اس کو ظاہراً پکڑ لیتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4958، سنن الترمذی رقم الحدیث :3348 مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٤ ص 298 مسند احمد ج ١ ص 248، مسند البزار رقم الحدیث :2189 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :11061، مسند ابویعلی رقم الحدیث :2604 دلائل النبوۃ لابی نعیم ج ١ ص 206 رقم الحدیث :157)
مقمحون کا معنی
مقمحون کا مادہ قمح ہے اس کا معنی ہے گردن پھنسنے کی وجہ سے سرکا اوپر اٹھا ہوا ہونا، اقماح کا معنی ہے سر اٹھا کر آنکھیں بند کرلینا، مقمح اس شخص کو کہتے ہیں جو اسر اٹھا لے اور آنکھیں بند کرلے، بعیر قامح اس اونٹ کو کہتے ہیں جو پانی پینے کے بعد آنکھیں بند کر کے سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔
ازہری نے کہا دوزخیوں کی گردنوں میں طوق پھنسے ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے ٹھوڑیاں اوپر کو اٹھ جائیں گی، پھر لامحالہ سر بھی اوپر کو اٹھ جائیں گے علامہ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ اس آیت میں تمثیل اور تشبیہ ہے، حقیقت مراد نہیں ہے، کفار سرکشی کرتے تھے، حق کو قبول کرنے سے تکبر کرتے تھے، راہ خدا میں خرچ کرتے وقت گردن اکڑاتے تھے، اس لئے ان کی شکل اس شخص کی طرح ہوگئی جس کی ٹھوڑی اوپر کو اٹھی ہوئی ہو۔ خلیل نے کہا اگر گندم پکنے کے بعد سے لے کر گودام میں رکھنے کے وقت تک اس گندم کو خوشوں میں ہی رکھا جائے تو اس گندم کو قمح اور اس سے بنائے ہوئے ستوکو قمیح کہتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص 532-533 لسان العرب ج ٢ ص 565-567 ملحضا و موضحا)
کفار کی گردنوں میں طوق ڈالنا ان کے ایمان نہ لانے کو کس طرح مستلزم ہے
اس کا معنی ہے ان کی گردنوں اور ان کے ہاتھوں میں ہم نے طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں کیونکہ جب گردن سے ٹھوڑی تک طوق ہوگا تو اس نے ہاتھوں کو بھی جکڑا ہوا ہوگا، ان کے سر اوپر اٹھے ہوئے ہوں گے وہ اپنے سروں کو جکھا نہیں سکیں گے کیونکہ جس کے ہاتھ ٹھوڑی تک باندھ دیئے گئے ہوں اس کا سر اوپر اٹھ جاتا ہے، عبد اللہ بن یحییٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی نے اپنے دونوں ہاتھ داڑھی کے نیچے رکھ کر ان کو ملایا اور سر کو اوپر اٹھا کر دکھایا کہ اس طرح اقماح ہوتا ہے۔
نیز قرآن مجید میں ہے :
ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک (الاسرائ :29) اور اپنا ہاتھ اپنی گردن کے ساتھ بندھا ہوا نہ رکھ۔
ایک قول یہ ہے کہ یہ کفار حق کو قبول کرنے سے اس طرح تکبر کرتے ہیں اور اپنی گردن اکڑاتے ہیں جس طرح کسی شخص کے ہاتھوں میں طوقل ڈال کر اس کی گردن کے ساتھ جکڑ دیا ہو جس کے باعث اس کا سر اس طرح اوپر اٹھا ہوا ہو کہ وہ اس کو نیچے جھکانہ سکے اور اس کی آنکھیں اس طرح بند ہوں کہ وہ ان کو کھول نہ سکے اور ازہری نے کہا جب ان کے ہاتھوں کو ان کی گردن کے ساتھ طوق میں جکڑ دیا گیا تو طوق نے ان کی ٹھوڑی اور ان کے سر کو اس طرح اوپر اٹھا دیا جس طرح اونٹ اپنا سر اوپر اٹھاتا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے اختیار کی وجہ سے ان کے دلوں میں کفر پیدا کردیا گیا ہے اور اس کا یہ بھی معنی ہے کہ انکی ضد اور ان کے عناد کی وجہ سے ان کو یہ سزا دی گئی کہ ان سے ایمان لانے کی توفیق کو سلب کرلیا گیا، اور ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ آخرت میں ان کو جب دوزخ میں ڈالا جائے گا تو ان کو زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا جائے گا اور ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر ان کو جکڑ دیا جائے گا، جیسا کہ ان آیتوں میں ہے :
(المومن :71-72) جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجیریں ہوں گی، ان کو کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا، پھر ان کو دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا۔
مجاہد نے مقمحون کی تفسیر میں کہا ہے ان سے ہر خیر کو روک دیا جائے گا۔
اس جگہ پر اعتراض ہوتا ہے کہ جس شخص کے ہاتھوں کو اس کی گردن کے ساتھ باندھنے کی وجہ سے اس کا سر اوپر کو اٹھا ہو اس سے یہ معنی کس طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ وہ ہدایت کو قبول نہیں کرے گا اور وہ ایمان نہیں لائے گا ! اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کا سر اوپر اٹھا ہوا ہو اور وہ نیچے نہ دیکھ سکتا ہو اور اس کی آنکھیں بند ہوں جن کو وہ کھول نہ سکتا ہو تو اس کو ظاہری اور حسی راستہ نظر نہیں آئے گا، اس کو اپنے قدموں کے نیچے کی جگہ نظر نہیں آئے گی اگر وہ کسی راستہ پر چلے گا تو وہ کسی گڑھے میں یا کسی کنوئیں میں گر سکتا ہے اور کسی وقت بھی ہلاک ہوسکتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ضدی، متکبر اور معاند کافر کو ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس طرح اس شخص کو حسی راستہ دکھائی نہیں دیتا اسی طرح جس شخص کی تکبر سے گردن اکڑی ہوئی ہو اس کو دین کا معنوی راستہ نظر نہیں آتا، اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ جو ان کو اللہ کے عذاب ڈراتے ہیں اور ہدایت دیتے ہیں اس کو یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ضرور ہدایت کو قبول کرلیں اور ایمان لے آئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ اکثر کفار اپنی ضد، عناد اور تکبر کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ثابت ہوچکا ہے کہ ان میں سے اکثر کفار ایمان نہیں لائیں گے اور اس کے قول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 7
[…] تفسیر گزشتہ آیت کے ساتھ […]