Bip اپلیکیشن
واٹس ایپ کی نئی پالیسی سے پریشان واٹس ایپ صارفین کے لیے، ہر محاذ پر رہنمائی کرنے والے مسلمانوں کے عالمی لیڈر عالی جناب طیب اردگان صاحب کی جانب سے تحفہ،، واٹس ایپ کا متبادل
(واٹس ایپ کی جگہ Bip اپلیکیشنhttps://play.google.com/store/apps/details?id=com.turkcell.bip کواستعمال کریں ۔۔۔۔۔کیونiکہ یہ ترکی کاپروڈکٹ ہے۔۔۔۔۔طیب اردگان نےاس کوکیریٹ کروایاہے۔۔۔۔۔۔۔باقی اپلیکیشنزتویہودیوں کاہے۔۔۔۔۔۔۔یہ مسیحاےقوم جوکہ پوری دنیامیں تنہاملک ہےجوکھل کردشمنان اسلام سےمقابلہ کررہاہے۔۔۔۔۔
اور۔۔۔۔ایک دن میں پانچ ملین سےزائدلوگ اسکوڈاؤن لوڈ کئےہیں۔۔۔۔۔۔۔ہمیں چاہیےکہ bip کااستعمال کریں۔۔۔۔۔۔کم ازکم ہمارےہمدردکوتوفائدہ ہوگا)
بپ BiP مسینجر آئی او ایس اور اینڈرائیڈ دونوں کے صارفین کے لیے دستیاب ہے اور ایپل کے ایپ اسٹور، گوگل پلے سے بآسانی نصب کیا جا سکتا ہے۔
ایپ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ ہمارے ترک بھائیوں کا بنایا ہوا ہے، اس کے بعد اگر کچھ سہولتیں میسر نہ بھی ہوں تو بھی قابل برداشت ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایپ میں سہولتیں نہیں ہیں۔ آپ اس ایپ پر ایک ہزار افراد پر مشتمل گروپ بناسکتے ہیں، ٹیلی گرام کی طرح، چینل بناسکتے ہیں اور واٹس ایپ کی طرح براڈ کاسٹ کرسکتے ہیں، نیز اسکائپ کی طرح بیک وقت گروپ کے دس لوگوں سے ویڈیو کانفرنسنگ کرسکتے ہیں۔
آپ چاہیں تو ہر بھیجیے ہوے میسج کو اسنیپ چیٹ کی طرح خود کار طریقے سے ڈیلیٹ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی پرائیویسی بہت اہمیت رکھتی ہے، تو ان کے لیے بھی یہ ایپ “ستر” کا کام کرتی ہے۔ یہ ایپ گلف (عرب) ممالک میں ویڈیو کال کی بھی سہولت دیتی ہے، سعودی عرب میں مقیم ایک صاحب سے ویڈیو گفتگو ہوئی اور بغیر کسی روک ٹوک کے ہوئی، خدا کرے کہ کسی “صاحب سمو” کی نظر بد اس کو نہ لگے۔ اس کے علاوہ بہت سی خصوصیات کا پتہ استعمال کے بعد ہی لگ سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایپ اپنی جامعیت اور مسلم کمپنی کی طرف سے لانچ کیے جانے کی بناء پر ہماری توجہ کی مستحق ہے۔ ہمیں اپنی پسماندگی کی شکایت خوب رہتی ہے، لیکن جب موقع آتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی کمپنیوں کو آگے بڑھائیں، تو ہم فعال نہیں ہوپاتے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ واٹس ایپ گروپس کے ایڈمن حضرات ٹرائل کے طور پر بی آئی پی ایپ پر بھی گروپس بنائیں اور ٹرائل کے کامیاب ہونے کے بعد واٹس ایپ سے تدریجاً منتقل ہوں۔
یہ ترکی ایپ ہے اِس کی تحقیق کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں۔
Aljazeera.com (Arabian News Agency)