حضرت عبداللہ ابن عباس کے نزدیک حکومت کے لیے حضرت امیر معاویہ سے بہتر کوئی نہ تھا
حضرت عبداللہ بن عباس کے نزدیک حکومت کے لیے حضرت امیر معاویہ سے بہتر کوئی نہ تھا
از قلم: اسد الطحاوی الحنفی
امام عبدالرزاق اپنی سند صحیح سے روایت بیان کرتے ہیں :
أنا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ رَجُلًا كَانَ أَخْلَقَ لِلْمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ كَانَ النَّاسُ يَرِدُونَ مِنْهُ عَلَى أَرْجَاءِ وَادٍ رَحْبٍ لَيْسَ كَالضَّيِّقِ الْحَصِرِ الْمُتَغَضِّبِ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ
(الأمالي في آثار الصحابة للحافظ الصنعاني، برقم:۹۷)
اس روایت کےسارے رجال ثقہ ہیں اور انکی تفصیل آگے پیش کرینگے
امام عبدالرزاق کی متابعت امام عبداللہ بن مبارک نے بھی کر رکھی ہے معمر سے
جیسا کہ امام ابو بکر الخلال اپنی السنہ تصنیف میں اپنی سند سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں :
أخبرني عبد الملك الميموني، قال: ثنا أبو سلمة، قال: ثنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن همام بن منبه، قال: سمعت ابن عباس، يقول: «ما رأيت رجلا كان أخلق للملك من معاوية، إن كان الناس ليردون منه على وادي الرحب ولم يكن كالضيق الحصيص، الضجر المتغضب
(السنہ ابو ابکر الخلال ، برقم :۶۷۷)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ حکومت کے بہتر کسی کو نہیں پایا، آپؓ کو تمام لوگوں نے حد درجہ سخی اور کشادہ دل پایا، آپ تنگ نظر ،تنگ دل اور متعصب نہ تھے
عبد الملك بن عبد الحميد بن عبد الحميد بن ميمون بن مهران الميمونى أبو الحسن الرقى
روى عنه ابي.
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ، برقم: 1690)
الميموني أبو الحسن عبد الملك بن عبد الحميد
الإمام، العلامة، الحافظ، الفقيه، أبو الحسن، عبد الملك بن عبد الحميد بن عبد الحميد بن شيخ الجزيرة ميمون بن مهران، الميموني، الرقي، تلميذ الإمام أحمد، ومن كبار الأئمة.
حدث عنه: النسائي في (سننه) ووثقه،
وكان عالم الرقة، ومفتيها في زمانه.
(سیر اعلام النبلاء، جلد13 ، ص 89)
التبوذكي أبو سلمة موسى بن إسماعيل
الحافظ، الإمام، الحجة، شيخ الإسلام، أبو سلمة موسى بن إسماعيل المنقري مولاهم، البصري، التبوذكي.
(سیر اعلام النبلاء، جلد 10 ، ص 360)
عبد الله بن المبارك
(امیر المومنین فی حدیث)
معمر بن راشد أبو عروة الأزدي مولاهم
الإمام، الحافظ، شيخ الإسلام، أبو عروة بن أبي عمرو الأزدي مولاهم، البصري، نزيل اليمن.
(سیر اعلام النبلاء)
اما م ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
معمر ابن راشد الأزدي مولاهم أبو عروة البصري نزيل اليمن ثقة ثبت فاضل إلا أن في روايته عن ثابت والأعمش وعاصم بن أبي النجود وهشام ابن عروة شيئا وكذا فيما حدث به بالبصرة
معمر بن راشد بصری یہ یمن میں رہائش پزیر ہوئے ، ثقہ اور ثبت فاضل تھے سوائے جب یہ ثابت ، الاعمش، عاصم بن ابی النجود ، ھشام بن عروہ سے روایت کریں اور جو انہوں نے بصرہ میں روایت کیا
(تقریب التہذیب ، 6809)
یعنی جب یہ مذکورہ شیوخ سے روایت کریں یا بصرہ میں جو روایت کیا اس میں انکی روایات میں غلطی ہوتی تھی انکے علاوہ باقیوں سے روایت کرنے میں ثقہ ہیں
جیسا کہ امام ابو حاتم فرماتے ہیں : قال أبو حاتم: صالح الحديث، وما حدث به بالبصرة ففيه أغاليط.
کہ یہ صالح الحدیث ہیں سوائے جب ان سے بصرہ میں جو بیان ہوا اس میں اغلاط ہیں
(سیر اعلام النبلاء،)
اور مذکورہ روایت امام عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا جو کوفہ میں تھے ۔ اور یہ روایت وہ جن شیوں سے فرمایا ہے ان سے انکی روایت صحیح ہوتی ہے
اور معمر کی رواہت ھمام سے اصح ہوتی ہے جیسا کہ آگے بیان آئے گا
همام بن منبه بن كامل بن سيج الأبناوي
الصنعاني، المحدث، المتقن، أبو عقبة، صاحب تلك الصحيفة الصحيحة التي كتبها عن أبي هريرة، وهي: نحو من مائة وأربعين حديثا.
ھ
حدث بها عنه: معمر بن راشد.
وقد حفظ أيضا عن: معاوية، وابن عباس، وطائفة.
مام بن منبہ جو متقن محدث تھے ، جو کہ صاحب صحیح الصحیفہ ہیں جو ابو ھریرہ سے لکھا جو کہ تقریبا ۱۴۰ احادیث پر مبنی ہے
جو کہ معمر بن راشد ان سے روایت کرتے ہیں
اور انہوں نے حضرت معاویہ ، حضرت ابن عباس اور طائفہ سے حفظ کیا ہے
(سیر اعلام النبلاء، جلد 5 ،ص 311)
جس سے ثابت ہو ا کہ امام ھمام کے مقدم تلامذہ میں امام معمر تھے
اور حضرت ابن عباس سے سند صحیح سے ثابت ہے کہ مولا علی کو حضرت ابن عباس سے خلافت سنبھالنے کے لیے صبر کی تلقین کی تھی اور یہ بھی کہا کہ امیر معاویہ کا حق ہے قرآن کے مطابق کے وہ قصاص لیں اور اور ضرور امیر معاویہ مولا علی کی آل پر حکومت کرینگے جیسا کہ اس روایت کو سند صحیح سے امام طبرانی نے بیان کیا ہے
جسکو امام ذھبی نے سیر میں نقل کیا ہے :
حدثنا يحيى بن عبد الباقي الأذني، ثنا أبو عمير بن النحاس، ثنا ضمرة بن ربيعة، عن ابن شوذب، عن مطر الوراق، عن زهدم الجرمي قال: كنا في سمر ابن عباس، فقال: ” إني محدثكم بحديث ليس بسر ولا علانية: إنه لما كان من أمر هذا الرجل ما كان – يعني عثمان – قلت لعلي: اعتزل؛ فلو كنت في جحر طلبت حتى تستخرج، فعصاني، وايم الله ليتأمرن عليكم معاوية، وذلك أن الله عز وجل يقول {ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا فلا يسرف في القتل إنه كان منصورا} [الإسراء: 33] ، ولتحملنكم قريش على سنة فارس والروم، وليتمنن عليكم النصارى واليهود والمجوس، فمن أخذ منكم يومئذ بما يعرف نجا، ومن ترك، وأنتم تاركون، كنتم كقرن من القرون فيمن هلك “
ثقہ تابعی ابومسلم زھدم بن مضرب جرمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’ہم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی محفل میں شریک ہوئے۔انہوں نے فرمایا : میں تمہیں ایسی بات بیان کرنے والا ہوں جو نہ مخفی ہے نہ ظاہر۔جب عثمان(کی شہادت) کا معاملہ ہوا تو میں نے علی سے کہا : اس معاملے سے دُور رہیں، اگر آپ کسی بِل میں بھی ہوں گے تو (خلافت کے لیے)آپ کو تلاش کر کے نکال لیا جائے گا، لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی۔اللہ کی قسم!معاویہ ضرور تمہارے حکمران بنیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ إِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا}(الإسرائ17: 33)(اور جو شخص ظلم سے قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے،وہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کرے، اس کی ضرور مدد کی جائے گی) ضرور قریش تم پر سوار ہوجائیں گے فارس اور روم کی طریقے پرضرور تم پر نصاری یہود،مجوس احسان جتلائیں گے پس تم میں سے جس اس سے اس دن وہ چیز لے کی جس کو وہ پہچانتا ہے تو اس نے نجات پالی اور جس نے چھوڑ دی اور تم چھوڑنے والے ہی ہوتو تم اس امت کی طرح ہوگے جو ھلاک ہونے والے ہیں ‘‘
(المعجم الکبیر برقم: 10613)
اس روایت کو امام ذھبی نے سیر اعلام میں حضرت امیر معاویہ کے ترجمے میں ذکر کیا ہے
عن زهدم الجرمي، قال:
كنا في سمر ابن عباس، فقال: لما كان من أمر هذا الرجل ما كان -يعني: عثمان – قلت لعلي: اعتزل الناس، فلو كنت في جحر (1) ، لطلبت حتى تستخرج.
فعصاني، وايم الله ليتأمرن عليكم معاوية، وذلك أن الله يقول: {ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا، فلا يسرف في القتل، إنه كان منصورا (2) } [الإسراء: 33]
اس روایت کے حاشیہ میں محدث علامہ شعیب الارنووط لکھتے ہیں :
(1) تحرفت في المطبوع إلى ” حجر “.
(2)*** أخرجه الطبراني في ” الكبير ” برقم (1063) من طريق يحيى بن عبدا لباقي الاذني، حدثنا أبو عمير بن النحاس، حدثنا ضمرة بن ربيعة بهذا الإسناد.
ويحيى وأبو عمير لم أجد لهما ترجمة، وباقي رجله ثقات، وأورده في ” المجمع ” 7 / 236، وقال: رواه الطبراني وفيه من لم أعرفهم، وذكره ابن كثير في ” تفسيره ” 3 / 39 عن الطبراني، وسكت عنه.
اس روایت کی تخریج کی ہے امام طبرانی نے الکبیر میں برقم: 1063 پر یحییٰ بن عبد الباقی کے طریق سے جو وہ ابو عمیر بن الحناس سے بیان کرتے ہیں ضمرہ کے طریق سے
اور یحییٰ (شیخ طبرانی) اور ابو عمیر (ابن النحاس) میں ان دونوں کے ترجمہ پر مطلع نہ ہو سکا ، اور باقی رجال اس روایت کے ثقہ ہیں
اس روایت کو امام ہیثمی نے المجمع میں درج کرےت ہوئے فراما اس (سند میں ایسے راوی ہیں ) جنکو میں نہیں جانتا
(سیر اعلام النبلاء، جلد 3 ، ص139)
شیخ طبرانی : امام يحيى بن عبد الباقي الأذني کی توثیق :
7480- يحيى بن عبد الباقي بن يحيى بن يزيد بن إبراهيم بن عبد الله أبو القاسم الثغري من أهل أذنة،
قدم بغداد، وحدث بها عن: محمد بن سليمان لوين، وإبراهيم بن سعيد الجوهري، وسعيد بن عمرو السكوني الحمصي، وأبي عمير ابن النحاس الرملي، وإسماعيل بن أبي خالد المقدسي، وأحمد بن عبد الرحمن بن المفضل الحراني، ومحمد بن وزير الدمشقي، والمسيب بن واضح السلمي، ويحيى بن عثمان الحمصي.
روى عنه: يحيى بن محمد بن صاعد، وأبو الحسين ابن المنادي، وأحمد بن إسحاق بن وهب البندار، وأبو عمرو ابن السماك، وإسماعيل بن علي الخطبي، وعبد الباقي بن قانع القاضي.
وكان ثقة.
امام خطیب نے یحییٰ بن الباقی کے شیوخ میں ابو عمیر بن النحاس الرملی کو درج کیا ہوا ہے
(تاریخ بغداد برقم:7480)
ابو عمیر بن النحاس کی توثیق:
انکا ترجمہ خود سیر اعلام ہی میں موجود ہے لیکن اس کتاب کے محقق علامہ شعیب اس ترجمہ پر مطلع نہ ہو سکے معلوم نہیں کیسے لیکن اسکی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ کنیت سے مشہور تھے لیکن انکا مکمل نام بالکل اور ہے کتب احادیث میں
جیسا کہ امام ذھبی انکا مکمل نام اور کنیت لکھتے ہیں :
11 – أبو عمير ابن النحاس، عيسى بن محمد * (د، س)
الإمام، الحافظ، العابد، القدوة، أبو عمير عيسى بن محمد بن إسحاق بن النحاس الرملي.
سمع: الوليد بن مسلم لما قدم الرملة، وضمرة بن ربيعة، وأيوب بن سويد، وزيد بن أبي الزرقاء، وجماعة.
حدث عنه: أبو داود، والنسائي، ويحيى بن معين – مع تقدمه، وأثنى عليه، وقال: ثقة، من أحفظ الناس لحديث ضمرة – وأبو زرعة الرازي، وأبو حاتم، وجعفر الفريابي، وعمر بن محمد بن بجير ، وأبو بكر بن أبي داود، وابن جوصا، وخلق كثير.
قال أبو الحسن بن جوصا: سمعت أبا عمير يقول:
قدم علينا الوليد في سنة أربع وتسعين ومائة، فاستقرض له أبي دنانير، فحج من الرملة، فمات منصرفه من الحج بذي المروة (2) ، فمضى أبي إلى دمشق حتى أبيع منزل الوليد، وقضى دينه.
قال أبو زرعة: حدثنا أبو عمير الرملي، وكان ثقة رضى
(سیر اعلام النبلاء برقم: 11)
ابو عمیر بن الںحاس عیسی بن محمد
اور کتب حدیث میں انکا نام عیسیٰ بن محمد بھی آتا ہے اور ابو عمیر بن نحاس بھی آتا ہے شاید اسی وجہ سے تسامح ہوا ہو کیونکہ جب یہ اس راوی سے انجان تھے وہ بات انہوں نے سیر اعلام کی تیسری جلد میں کی اور بارویں جلد میں اس راوی کا نام آیا تو انہوں نے اپنی تصحیح نہ کی تیسری جلد میں یہ بھی ہو سکتا ہے
تو اس روایت کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں
اور جن دو راویان پر علامہ شعیب نے ترجمے پر مطلع نہ ہونے کا ذکر کیا اسکی توثیق ہم نے پیش کر دی
اس روایت سے حاصل کیا ہوتا ہے ؟
کہ حضرت ابن عباس جو اہل بیت سے تعلق رکھنے والے کبیر صحابی تھے
اور نبی کریمﷺ نے انکو قرآن کا بڑا عالم (مفسر )قرار دیا تھا
تو معلوم ہوا قصاص حضرت عثمان کے حق میں یہ آٰیت سب سے پہلے نبی کریم کی سند یافتہ مفسر اعظم جو خود اہلبیت سے ہیں انہوں نے خود یہ دلیل قرار دی
اب جو امیر معاویہ کے اس استدلال پر ان پر طعن کریگا در حقیقت وہ حضرت ابن عباس کے فہم پر طعن کر رہا ہے
تحقیق:دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی