جوائنٹ فیملی سسٹم ؛ نقطہ نظر
جوائنٹ فیملی سسٹم ؛ نقطہ نظر
آج یورپ کو دیکھتے ہوئے؛ دنیا میں جہاں جہاں بھی جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اس پر بہت سی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں..
یورپ سے ہمارا ہرگز کوئی موازنہ نہیں نا اسلامی؛ نہ ریاستی؛ ثقافتی؛ نہ معاشرتی اعتبار سے…
یورپ میں کسی شخص نے پرائیویٹ سیکٹر ؛ یا سرکاری و نیم سرکاری ادارے میں کام کیا ہو،ہر ایک کے لیے علاج معالجہ مکمل طور پر فری ہے؛ اور بڑھاپے میں پینشن بھی ملتی ہے؛ اگر کوئی جوان آدمی کسی وجہ سے معذور ہو جائے اس کو بھی ماہانہ معقول وظیفہ دیا جاتا ہے…
مگر ہمارے ہاں
ریاست بوڑھے اور معذور افراد کی کفالت کی ذمہ داری نہیں لیتی ..
اس لیے بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری اولاد کو ہی لینا ہوتی ہے…
اسلام والدین کو بے یارومددگار چھوڑ نے کی اجازت نہیں دیتا…
ایک نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور اپنے والد کے مال لینے کی شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے…..
ثقافتی اور معاشرتی اعتبار سے بھی ہمارے ہاں اس کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے…
جوائنٹ فیملی سسٹم سے بھاگنے والے افراد عموماً اس بات کو دلیل بناتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے لئے علیحدہ علیحدہ گھر بنائے…
ہاں انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو حسد کا یا رشک کا ہونا ایک عام بات ہے، اس لیے بیویوں کےلیے علیحدہ علیحدہ گھر ہی مناسب ہے..
مگر دوسری طرف …
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اپنی ازواج کے لیے گھر بنائے تھے ان کا نقشہ بھی ذہن میں رکھیے..
جب ہاتھ اوپر اٹھایا جاتا تو چھت کو جا لگتا، مٹی کی دیواریں، کجھور کی شاخوں کی چھتیں، گھر اتنا چھوٹا کہ جب آپ نماز پڑھتے ام المومنین سامنے لیٹی ہوتیں غالباً جگہ کی کمی کی وجہ سے ….
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیملی ممبرز
مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کے بعد ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر منتقل ہوگئے؛ اور تقریبا اٹھائیس سال اس گھر میں رہے؛ جس گھر دارالھجرہ بھی کہا جاتا ہے …
اس گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پرورش کی حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کے بعد علیحدہ مکان کا انتظام کیا گیا..
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی سے آزاد کرکے اپنے بیٹے کی طرح پالا….
حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا جو آپ کے والد گرامی کی خادمہ تھیں اور آپ کو وراثت میں ملی تھی ان کو بھی گھر میں رکھا؛ بعد میں ام ایمن کا نکاح حضرت زید بن حارثہ سے کیا گیا….
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ میں عشاء کی نماز پڑھ رہا ہوتا اور سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہوتا، میری والدہ مجھے آواز دیتی تو میں نماز کو چھوڑ کر اپنی والدہ کی آواز پر لبیک کہتا……..
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی والدہ یا والد حیات ہوتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ ہی ایک ہی گھر میں رہ رہے ہوتے کیونکہ عشاء کی نماز کی بات کی گئی حدیث مبارکہ میں…..
اب تھوڑا سا غور کیجئے جوائنٹ فیملی اور کسے کہتے ہیں….؟
(1) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ چچا زاد بھائی…
(2) حضرت زید بن حارثہ منہ بولے بیٹے…
(3) حضرت ام ایمن والد کی طرف سے وراثت میں ملی خادمہ ….
(4) سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا
(5)اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
(6– تا — 13) سات یا آٹھ عدد آپ کی اولاد
اگر والدین حیات ہوتے تو وہ بھی یقیناً فیملی کا حصہ ہوتے، جس طرح ہم اوپر حدیث مبارکہ پڑھ چکے ہیں..
اس مختصر سی وضاحت کے بعد اب غور کیجئے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم اور کسے کہتے ہیں؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ
(1) مشترکہ خاندانی نظام میں میاں بیوی کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے….
اگر کوئی یورپ میں رہنے والا شخص جوائنٹ فیملی سسٹم پر تنقید کرے تو حیرت ضرور ہوتی ہے کیونکہ یورپ میں ہم جن بلڈنگز میں رہتے ہیں؛ ان میں تھوڑا سا غور کر لیا جائے…
مثال کے طور پر ایک پانچ منزلہ بلڈنگ میں 30 گھر ہیں..
(1)اوپری منزل والا چھت کے اوپر کرسی بھی گھسیٹے تو نیچے والا اوپر والے کو خبردار کرتا ہے..
(2) بلڈنگ میں رہنا ہے تو اپنے فرنیچر کو رات کو نہیں گھسیٹ سکتے…
(3) اونچی آواز سے میوزک یا کوئی پروگرام نہیں لگا سکتے…
(4) رات کو دوستوں کی محفل اونچی آواز سے نہیں کر سکتے…..
(5) اپنے گھر کی بالکونی پر ایسا گیلا کپڑا نہیں ڈال سکتے جس سے پانی کے قطرے نیچے گریں…
میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ جس مہذب انداز سے ہم یورپ کی بلڈنگز میں آکر رہائش پذیر ہوتے ہیں کبھی اس کا آدھا بھی اپنی جوائنٹ فیملی سسٹم میں احتیاط کریں تو کبھی غصہ ناراضگی کی نوبت نہ آئے…
یورپ کی بلڈنگ میں ایک چار دیواری کے اندر 30 گھر؛ وہ بھی غیر لوگوں کے
اور ہمارے جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک چار دیواری میں پانچ گھر؛ وہ بھی اپنے خونی رشتوں کے…
آپ 30 غیر فیملیوں کے ساتھ مطمئن ہیں؛ لیکن پانچ سگے رشتہ دار گھروں پر مطمئن نہیں….
لیکن یہ بھی یاد رہے
علیحدہ گھر بنانا کسی بہن بھائی کے لیے کوئی گناہ کا کام نہیں؛ اگر آپ کے وسائل اجازت دیتے ہو تو ضرور بنائیں لیکن پھر بھی اپنوں کے قریب بنائیں کہ وہ آپ کی طاقت ؛ آپ کا تحفظ؛ آپ نے نگران ہیں؛ بہو بیٹیوں کی شرم و حیا میں ان کا بڑا اہم کردار ہے….
ایک اور زاويے سے دیکھتے ہیں
لیکن میرا کہنا یہ ہے آپ نے فیملی سے علیحدہ اپنا گھر بنا لیا؛ اور دن کو شوہر کام پر چلا گیا؛ بیوی کا پورے دن اکیلا رہنا اس کے کردار کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے؛ جو اسے گناہ پر آمادہ کر سکتا ہے؛ اور ایسا ہوتا بھی ہے….
اور اگر کسی رات شوہر کو کسی کام کے سلسلے میں باہر نکلنا پڑا اکیلی بیوی کس کیفیت سے گزرتی ہوگی…
میرا تجربہ یہ کہتا ہے
جس گھر میں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی گزر رہی ہو عموماً وہاں پر کثرت افراد کی وجہ سے چور چوری کرنے سے ڈرتا ہے……
جوائنٹ فیملی سسٹم والے گھر کی لڑکیوں پر محلے کے لڑکے کے نظر اٹھانے سے ڈرتے ہیں ….
جوائنٹ فیملی سسٹم والے گھر میں عموماً لڑکے نشیئوں کے عادی ہونے سے بچ جاتے ہیں…
جوائنٹ فیملی سسٹم والے گھروں سے گداگر یا فراڈیے کم پیدا ہوتے ہیں …
جوائنٹ فیملی سسٹم میں بوڑھے ماں باپ عموماً ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ہیں..
اولاد میں سے کوئی نہ کوئی بوڑھے ماں باپ کی خدمت کر ہی لیتا ہے؛ االلہ کی رضا کے لئے یا فیملی کے دوسرے افراد کو دکھانے کے لیے…
جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے والا کوئی فرد کیسے ہی حالات میں ہو خود کشی کی طرف مائل نہیں ہوتا؛ کیونکہ کوئی اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے؛ کوئی اس کی مدد کرتا ہے ؛ والدین موجود ہوں تو وہ اس کو بوقت ضرورت ڈانٹ بھی لیتے ہیں..
تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی 15/01/2021