مولانا قوی نازیبا حرکات اورفحش باتیں کرتے تھے،جس پر صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ
مولانا قوی نازیبا حرکات اورفحش باتیں کرتے تھے،جس پر صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ
حریم شاہ کے اس بیان کے بعد مجھے یہ کہانی یاد آگںُی
اندرون لوہاری گیٹ کے محلہ ختایاں والا کی تنگ سی گلی سے گزرتے ہوےُ حاجی صاحب کا بازو اپنے گھر سے نکلتی شنو سے جا ٹکرایا شنو نے کاجل کے بوجھ سے جھکی پلکیں اٹھائی ایک آدائے مستانہ سے پراندہ جھٹکا اور حاجی صاحب سے فرمایا ہور تے گلاں دیاں گلاں تہاڈا جُسا اج وی جھارا پہلوان نوں پراں کرداں اے
حاجی صاحب نے شنو کے منہ سے جیسے ہی امرت دھارا جیسے الفاظ سنے باچھوں سے رال بہہ نکلی حاجی صاحب نے اپنی آستین سے منہ صاف کرتے پوچھا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتانا شنو نے کہا بس زیادہ کُج نئ 5000 ہزار ادھار چاہیدا مہینے بعد واپس کر دوں گی
حاجی صاحب نے آؤ دیکھا نا تاؤ فٹا فٹ جیب سے دکانوں کا کرایہ نکال کر شنو کے ہاتھ پہ رکھ دیا شنو نے 5000 پکڑا ایک آدائے دلبرانہ حاجی صاحب پر ڈالی اور چل پڑی
اگلے دن حاجی صاحب نے الیاس ٹینٹ والے کی کرسی اٹھائی اور لا کے شنو کی نکڑ پر کریانے والی دکان کے سامنے بچھائی اور کرسی پر ایسے چڑھ بیٹھے جیسے بندر سسرال جا بیٹھتا ہے آخر بہت انتظار کے بعد شنو گھر سے نکلی اور تنگ سی گلی سے گزرتے ہوے جب حاجی صاحب کے قریب سے گزری حاجی صاحب نے جھٹ ہاتھ پکڑ لیا
شنو نے مسکراتے ہوے ہاتھ چھڑایا اور کہا حاجی صاحب 500 کٹے گئے اور چل پڑی
حاجی صاحب بھی بار بار اپنے ہاتھ کو چومتے محبوب کی زیارت پا کر شاداں و فرحاں گھر کی جانب چل دئیے
دوسرے دن پھر شنو کی گلی میں جا نکلے اور شنو کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے اپنی پسلی کی پوری ہی سائیڈ مار دی شنو مسکرائی آدائے ناز سے دیکھا اور کہا حاجی صاب ہزار روپیہ کٹیا گیا جے
غرض کے حاجی صاحب ہاتھ سیکتے رہے اور کٹوتیاں ہوتی رہیں آخر کار 5000 پورے ہو گئے
اور حاجی صاحب نے پھر ٹینٹ والے کی کرسی اٹھائے شنو کی گلی کی نکڑ پر کریانے والے کی دکان پر جا بیٹھے تھوڑی دیر گزری شنو ایک ہاتھ سے پراندہ گھوماتی حاجی صاحب کے پاس سے گزرنے لگی تو حاجی صاحب نے کہا سوہنیو تکو تے سہی
اور شنو نے اپنی غلافی آنکھیں پوری کھولتے ہوئے الٹے ہاتھ کا تھپڑ حاجی صاحب کے منہ پہ دے مارا کہا اوئے مفتئیا
بے حیا تجھے گند بکتے اور نازیبا حرکات کرتے شرم نہیں آتی
حاجی صاحب نے ایک نظر دکان پہ کھڑے تماشہ دیکھتے گاہکوں کو دیکھا دوسری نظر شنو پہ ڈالی اور کہا کدی کدی ادھار وی چل جاندا ےُ جے آج ادھار اچ ہی کھاتہ لکھ لیندی
مفتی قوی کا بھی آج ادھار نہیں چل سکا
ذلت اور رسواںُی بحرحال زلالت کا مقدر ہوتا ہوتی ہے
ترتیب !محمد افتخار غزالی
یہ تحریر حجاب رندھاوا کی ہے
جہاں سے میں نے کاپی پیسٹ کی وہاں اسی طرح جیسی یہاں ہے
محمد افتخار غزالی
آپ جیسا چیٹر میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، نام. بڑا لکھنا یعنی تین الفاظ میں اور کام. گھٹیا
، خدا کا خوف کرو اور اس تحریر کو ڈیلیٹ کرو ورنہ جسکی نے یہ تحریر لکھی ہے اس سے اجازت لیکر اسکے نام سے شائع کرو،
یہ تحریر نامور دانشور، ریسرچر اور بلاگر محترمہ حجاب رندھاوا صاحبہ کی ہے
انہوں نے یہ پوسٹ 18 جنوری کی رات اپنی فیس بک آئی ڈی Hijab randhawa پرپوسٹ کی
لنک بھیج رہا ہوں بہتر ہے اپنی توصیح کیجئےhttps://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1533773193493651&id=100005829543375
تین نام لکھ کر نام بڑا نہیں ہوتا بلکہ محنت کرنے سے نام بڑا ہوتا چاہے وہ وہ نام ایک لفظ کا کیوں نہ ہو