أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

انہوں نے کہ ہم تو تم کو بد فال سمجھتے ہیں اور اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کریں گے اور ہماری طرف سے تم کو ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہوں نے کہ ہم تو تم کو بد فال سمجھتے ہیں اور اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کریں گے اور ہماری طرف سے تم کو ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا رسولوں نے کہا تمہاری بدفالی تمہارے ساتھ ہے، کیا تم نصیحت کرنے کو برا سمجھتے ہو ! بلکہ تم حد سے گزرنے والے ہو (یٰسین :18-19)

کفار کا انبیاء (علیہم السلام) کو بدشگون اور منحوس کہنا 

بستی والوں نے رسولوں کے وعظ اور تقریر کے جواب میں کہا ہم تو تم کو بدفال سمجھتے ہی، ان کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے نزدیک منحوس اور بےبرکت ہو ہمیں تمہارے چہروں سیسعادت اور نیک بختی کے آثار نظر نہیں آئے، قتادہ نے کہا ان کے قول کا معنی یہ تھا کہ اگر ہم پر کوئی مصیبت آئی تو وہ تمہاری وجہ سے آئے گی، مجاہد نے کہ کا ان کے قول کا مطلب یہ تھا کہ جب بھی تم جیسا کوئی شخص کسی بستی میں گیا تو اس کی وجہ سے اس بستی والوں پر عذاب آیا اور اور اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سخت سزا دیں گے۔

رسولوں نے بستی والوں کے اس جواب کے بعد ان سے فرمایا : تم جس چیز کو ہماری نحوست کہہ رہے ہو اس کو عنقریب تم پر لوٹا دیا جائے گا، جس طرح اس بستی والوں نے رسولوں کو منحوس اور بےبرکت کہا تھا کفار اسی طرح نبیوں اور رسولوں کے متعلق تبصرے کیا کرتے تھے، چناچہ فرعون کی قوم نے بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اسی طرح تبصرہ کیا تھا، قرآن مجید میں ہے :

عند اللہ ولکن اکثرھم لایعلمون (الاعراف : ١٣١) اصحاب کی نحوست کہتے، سنو اللہ کے نزدیک صرف ان کی نحوست ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اسی طرح حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

قالوا اطیرنا بک وبمن معک قال طیرکم عند اللہ بل انتم قوم تفتون (النمل : ٤٧) انہوں نے کہا ہم تم کو اور تمہارے اصحاب کو بدفال قرار دیتے ہیں، صالح نے کہا تمہاری بدفالی اللہ کے نزدیک ہے، بلکہ تم لوگ فتنہ میں مبتلا ہو۔

اسی طرح منافقین نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی اسی طرح کہا تھا، قرآن مجید میں ہے :

(النسائ : ٧٨) اور اگر ان منافقوں کو، کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ آپ کی طرف سے ہے، آپ کہیے کہ سب چیزیں اللہ کی طرف سے ہیں، ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے یہ کسی بات کو سمجھنے کے قریب بھی نہیں آتے۔

رسولوں نے کہا بلکہ تم لوگ حد سے گزرنے والے ہو، یعنی ہم نے تم کو نصیحت کی اور تم کو یہ حکم دیا کہ تم اللہ کو واحد مانو اور اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرو تو تم نے ایسے سخت جواب دیئے اور ہم کو ڈرایا اور دھمکیاں اور ہمارے متعلق یہ کہا کہ تم بدفال اور منحوس ہو بلکہ تم حد سے بڑھنے والے ہو۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 18