قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ ۞
ترجمہ:
ان لوگوں نے کہا تم تو صرف ہماری مثل بشر ہو اور رحمٰن نے کچھ نازل نہیں کیا تم محض جھوٹ بولتے ہو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان لوگوں نے کہا تم تو صرف ہماری مثل بشر ہو اور رحمٰن نے کچھ نازل نہیں کیا تم محض جھوٹ بولتے ہو ان رسولوں نے کہا ہمارا رب خوب جانتا ہے کہ بیشک ہم تمہاری طرف ضرور بھیجے گئے ہیں اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دیتا ہے (یٰسین :15-17)
جس بستی کی طرف پہلے دو رسولوں کو بھیجا گیا تھا اس بستی کے لوگوں نے ان رسولوں پر یہ اعتراض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر وحی کیسے نازل کی حالانکہ تم ہماری ہی طرح بشر ہو، اگر کسی کے بشر ہونے کے باوجود اس پر وحی نازل ہوسکتی ہے تو پھر ہم پر وحی کیوں نہیں نازل ہوئی اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول کیوں نہیں بنایا، ہر دور میں مشرکین نے رسولوں پر یہی اعتراض کیا تھا، ان کا خیال یہ تھا کہ رسول کسی فرشتے کو ہونا چاہیے، حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح اور دیگر تمام انبیاء (علیہم السلام) کے زمانہ کے کافروں نے ان کے دعویٰ نبوت اور رسالت پر یہی اعتراض کیا تھا۔
(التغابن : ٦) اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہا کیا بشر ہم کو ہدیات دیں گے، انہوں نے کفر کیا اور اعراض کیا، اور اللہ نے استغناء فرمایا اور اللہ بہت مستغنی ہے بےحد حمد کیا ہوا ہے۔
کفار اس کو بہت بعید قرار دیتے تھے کہ کسی بشر پر وحی نازل ہوسکتی ہے اور اس کو رسول بنایا جاسکتا ہے اس لئے وہ ہر زمانہ میں رسولوں کا انکار کردیتے تھے وہ کہتے تھے :
(ابراہیم :10) انہوں نے کہا تم تو صرف ہماری مثل بشر ہو اور تم یہ چاہتے ہو کہ تم ہمیں ان خدائوں کی عبادت سے روک دو جن کی ہمارے آبائو اجداد عبادات کرتے رہے تھے پس تم ہمارے سامنے کوئی واضح دلیل پیش کرو۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ومامنع الناس ان یومنوآ اذ جآء ھم الھدی الا ان قالوا ابعث اللہ بشراً رسولاً (بنی اسرائیل : ٩٤) جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے صرف یہ چیز مانع ہوئی کہ انہوں یہ اعتراض کیا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنایا ہے۔
سو پچھلی قوموں کے کافروں نے اپنے اپنے زمانہ کے رسولوں پر یہ اعتراض کیا تھا کہ تم تو ہماری مثل بشر ہو یعنی فرشتے نہیں ہو تو اللہ تمہیں رسول کس طرح بنا سکتا ہے، سو اسی طرح قدیم زمانہ کی اس بستی میں جب رسول بھیجے گئے تو اس بستی کے لوگوں نے بھی ان پر اسی طرح اعتراض کیا اور ہا تم تو صرف ہماری مثل بشر ہو اور رحمن نے کچھ نازل نہیں کیا، تم محض جھوٹ بولتے ہو، ان رسولوں نے کہا ہمارا رب خوب جانتا ہے کہ بیشک ہم تمہاری طرف ضرور بھیجے گئے ہیں اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔
تم ہمارے متعلق کہہ رہے ہو کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں، اگر ہم نے دعویٰ رسالت میں اللہ پر جھوٹ باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہم سے زبردست انتقام لیتا، لیکن وہ عنقریب ہم کو تم پر غلبہ عطا فرمائے گا اور تمہارے خلاف ہماری مدد کرے گا اور عنقریب تمہیں ملعوم ہوجائے گا کہ آخرت میں اچھی جزا اور نیک انجام کا کون مستحق ہوتا ہے اور ہم پر تو صرف یہ فرض کیا گیا ہے کہ ہمیں جو پیغام دے کر تمہارے پاس بھیجا گیا ہے، ہم تم تک وہ پیغام پہنچا دیں، اگر تم نے ہماری اطاعت کی تو تم کو دنیا میں سرخ روئی اور آخرت میں دائمی فلاح حاصل ہوگی اور اگر تم نے ہماری مخالفت کی اور ہماری اطاعت نہ کی تو آخرت میں تم کو سخت عذاب ہوگا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 15
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]