اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّهُمۡ اِلَيۡهِمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَؕ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّهُمۡ اِلَيۡهِمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَؕ ۞
ترجمہ:
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا تھا جواب ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گی
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا تھا جو اب ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گی۔ (یٰس ٓ : 31)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار پر حسرت کا سبب بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے نمائندے اور رسول بھیجے اور انہوں نے ان رسولوں کی قدر نہیں کی اور ان کے پیغام کا مثبت جواب نہیں دیا اور یہی ان کی پہلے ندامت اور بعد میں ان کی حسرت کا سبب بن گیا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس بادشاہ آئے اور بتائے کہ وہ بادشاہ ہے اور اس سے کوئی آسان چیز طلب کرے اور وہ شخص اس کو جھٹلائے اور اس کی طلب کردہ چیز اس کو نہ دے۔ پھر بعد میں وہی شخص بادشاہ کے پاس جائے جبکہ وہ اپنے تخت پر بیٹھا ہو اور وہ شخص اس بادشاہ کو پہچان لے کہ یہی شخص میرے پاس آیا تھا اور میں نے اس کی مطلوبہ چیز اس کو نہیں دی تھی تو اس وقت وہ کس قدر نادم اور شرمندہ ہوگا اور کس قدر غم ‘ افسوس اور حسرت ہوگی کہ کاش میں نے اس کو وہ چیز دے دی ہوتی !
اسی طرح اللہ کے رسول بہ منزلہ بادشاہ ہیں ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو چزت دی ہے اور ان کو اپنا نائب اور قائم مقام قرار دیا ہے اس اعتبار سے وہ بادشاہ سے بھی بڑھ کر ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
ترجمہ :۔ (آل عمران ١٣)آپ کہئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو ‘ اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اس آیت میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ مرتبہ بتایا ہے کہ جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنا لے گا۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کے محبوب کا اللہ کے نزدیک کیا مرتبہ اور کیا مقام ہے۔ جب دنیا میں رسول آئے اور انہوں نے لوگوں سے اپنا تعارف کرایا اس وقت انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی عظمت کا نشان ظاہر نہیں کیا ‘ اس لئے لوگوں نے ان کی قدر نہیں کی ‘ لیکن جب قیامت کے دن رسول ‘ اللہ تعالیٰ کے حضور گنہ گاروں کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت سے اللہ تعالیٰ لوگوں کے بڑے بڑے گناہوں کو معاف فرما دے گا اس وقت لوگوں کے سامنے رسولوں کی عزت اور وجاہت ظاہر ہوگی اور دنیا میں رسولوں نے لوگوں کو جس چیز پر عمل کرنے کی دعوت دی تھی وہ کوئی مشکل کام نہیں تھا جبکہ وہ اس پیغام پہنچانے کا کوئی اجر اور صلہ بھی نہیں مانگ رہے تھے اور جب وہ ان چیزوں پر غور کریں گے تو ان کو اور شدید ندامت ہوگی ‘ خصوصاً اس لئے کہ انہوں نے صرف رسولوں کے پیغام سے اعراض کرنے اور اس پیغام کو مسترد کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ ان کا مذاق اڑایا ‘ ان کو حقیر قرار دیا اور ان کی توہین کی اور اس پر بھی بس نہیں کی حتیٰ کہ ان کو زدوکوب کیا اور ان کو قتل کردیا۔ سو یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے کفار اپنے ایمان نہ لانے اور رسولوں کے ساتھ زیادتی کرنے پر جس قدر بھی افسوس کریں وہ کم ہے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے بستی والوں سے ان کے پیش رو کافروں کا حال بیان فرمایا : کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا تھا جو اب ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گی۔ یعنی ان سے پہلے بھی کتنے رسولوں کے مکذبین ‘ ْ مخالفین اور ان کا مذاق اڑانے والے اور ان پر زیادتی کرنے والے تھے ہم ان سب کو ہلاک کرچکے ہیں۔ وہ اب دینا میں لوٹ کر آئیں گے نہ اس بستی میں لوٹ کر آئیں گے۔ ان کی نسل منقطع ہوچکی ہے اور اب ان کا کوئی اثر اور نشان باقی نہیں ہے۔ کیا یہ کفار ان کے انجام سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔
القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 31