أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قِيۡلَ ادۡخُلِ الۡجَـنَّةَ ؕ قَالَ يٰلَيۡتَ قَوۡمِىۡ يَعۡلَمُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اس سے کہا گیا تم جنت میں داخل ہو جائو، اس نے کہا کاش میری قوم جان لیتی

تفسیر:

قوم کا حبیب نجار کو قتل کردینا اور اس کا اپنی قوم کی بہتری چاہنا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس سے کہا گیا : تم جنت میں داخل ہو جائو، اس نے کہا کاش میری قوم جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت دار لوگوں میں سے بنادیا (یٰسین :26-27)

امام ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی النیشا پوری المتوفی 427 ھلکھتے ہیں :

جب اس نے اپنی قوم سے کہا میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا تو وہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو زد و کو ب کرنا شروع کردیا، حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ اس کی قوم نے اس کو اس قدر مارا کہ اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ سدی نے کہا وہ اس کو سنگسار کر رہے تھے اور وہ اس حال میں بھی ان کے لئے دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے دے، تب اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جنت کو واجب کردیا اور فرمایا : اس سے کہا گیا تم جنت میں داخل ہو جائو، پھر وہ جنت میں داخل کردیا گیا اور اس نے وہاں اپنی عزت اور کرامت دیکھی تو بےساختہ کہا کاش میری قوم جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت دار لوگوں میں سے بنادیا۔

ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے اس کو قتل کر کے رس نامی (رپانے کنویں) میں ڈال دیا اور ان لوگوں کو اصحاب الرس بھی کہا جاتا ہے۔

اس روایت میں ہے کہ انہوں نے تینوں رسولوں کو بھی قتل کردیا تھا، ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھودا اور اس کو گڑھے میں ڈال دیا اور اس کے اوپر گڑھے کا ملبہ ڈال دیا حتیٰ کہ وہ ملے تلے دب کر مرگیا۔ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے اس کو آری سے چیر ڈالا اور اس کی روح اس کے جسم سے نکلتے ہی جنت میں داخل ہوگئی۔

اس نے جنت میں داخل ہونے کے بعد کہا کاش میری قوم جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت دار لوگوں میں سے بنادیا۔

اس نے جو یہ تمنا کی تھی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی قوم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کتنا انعام اور اکرام کیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ تمنا اس لئے کی کہ اس کی قوم بھی اس کی طرح ایمان لے آئے اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح انعام اور اکرام سے نوازے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس نے زندگی میں بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی، امام قشیری نے اس کو مرفوعاً بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : اس نے اپنی زندگی میں بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی۔

دشمنوں اور مخالفوں سے بدلہ لینے کے بجائے ان کو معاف کردینے …اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا افضل ہونا

اس آیت میں اس پر عظیم تنبیہ ہے کہ مخلافوں اور دشمنوں کے ساتھ بھی نیکی اور خیر خواہی کرنی چاہیے اور حتی الامکان غصہ اور غیظ و غضب کو قابو میں رکھنا چاہیے اور جاہلوں کی باتوں کو برداشت کرنا چاہیے اور اگر کوئی نیک اور صالح شخص مخلافوں، باغیوں اور ظالموں میں پھنس جائے تو اس کو چھڑانے کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے اور ظالموں سے انتقام لینے اور ان کے خلاف بد دعا کرنے کے بجائے ان کے حق میں بھی دعائے خیر کرنی چاہیے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ حبیب نجار نے کس طرح اپنے قاتلوں کے لئے جنت کی تمنا کی اور یہ چاہا کہ کس طرح وہ بھی ایمان لے آئیں اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کے انعام و اکرام کے مستحق ہوجائیں اور یہی انبیاء (علیہم السلام) کا طریقہ اور ان کا اسوہ ہے۔

امام محمد بن محمد غزالی متوفی ٥٠٥ ھ لکھتے ہیں :

اگر کسی مسکین کے دین کو ضرر پہنچایا جائے اور اللہ کی راہ میں اس پر سختی کی جائے تو اس کو اپنے دشمنوں کے خلاف بد دعا نہیں کرنی چاہیے اور یوں نہیں کہنا چاہیے کہ اے اللہ ! اس کو ہلاک کر دے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اے اللہ اس کی اصلاح فرما، اے اللہ ! اس کی توجہ قبول فرما، اے اللہ ! اس پر رحم فرما، جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے، اے اللہ میری قوم کو ہدیات دے، کیونکہ یہ (مجھ کو) نہیں جانتے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے جنگ احد کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کا نچلا دانت شہید کردیا تھا اور آپ کا چہرہ زخمی کردیا تھا اور آپ کے چچا سیدنا حمزہ (رض) کو شہید کردیا تھا (حضرت سہل بن سعد الساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے وہ (مجھے) نہیں جانتے۔ دلائل النبوۃ ج ٣ ص 214-215) حرت ابراہیم بن ادھم کا کسی نے سر پھاڑ دیا تو انہوں نے اس کی مغفرت کی دعا کی ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس کی مغفرت کی کیوں دعا کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ مجھجے علم ہے کہ مجھے اس کے لئے دعا کرنے سے اجر ملے گا اور اس کی وجہ سے مجھے آخرت میں اچھی جزا ملے گی، تو میں اس پر راضی نہیں ہوں کہ میری وجہ سے اس کو سزا ملے۔ (احیاء علوم الدین ج ٣ ص 258، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1419 ھ)

حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی نبی کا واقعہ بیان فرمایا کہ قوم نے اپنے نبی کو زد و کو ب کیا اور ان کا چہرہ خون سے رنگین کردیا وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور یہ دعا فرما رہے تھے، اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ (مجھے) نہیں جانتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6929, 3477 صحیح مسلم رقم الحدیث :1792، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4025 سنن دارمی رقم الحدیث :2471، مسند احمد رقم الحدیث :3611 عالم الکتب)

قرآن مجید میں ہے :

(المائدہ : ٢) جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام میں جانے سے روکا تھا ان کی دشمنی تم کو حد سے تجاوز کرنے پر نہ ابھارے، نیکی اور خدا خوفی میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ اور حد سے تجاوز کرنے میں ایک دور سے کی مدد نہ کرو۔

(المائدہ : ٨) کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس کے خلاف بےانصافی پر نہ ابھارے، انصاف کیا کرو وہ خدا خونی کے زیادہ قریب ہے۔

(الشوریٰ : ٤٣) اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے (تو) بیشک یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے، حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

صل من قطعک واحسن الی من اساء الیک و قل الحق ولو علی نفسک۔ جو شخص تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، اور جو تم سے برا سلوک کرے اس سے اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو خواہ وہ تمہارے خلاف ہو۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٥٠٠٤ جمع الجوامع رقم الحدیث :13498، کنز العمال رقم الحدیث :6929 اتحاف ج ٩ ص 25) اور یہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طبعاً فحش کلام کرتے تھے نہ تکلفاً ، نہ بازاروں میں شور کرتے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، لیکن معاف کرتے تھے اور درگزر کرتے تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2016، مسند احمد ج ٦ ص 184، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص 330 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :6409 سنن کبری للبیہقی ج ٧ ص 45)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی اپنے اوپر کئے جانے والے ظلم کا بدلہ لیا ہو، جب تک اللہ کی حدود کو پامال نہ کیا جائے اور اگر اللہ کی حدود کو پامال کیا جائے تو آپ سب سے زیادہ غضب ناک ہوتے تھے اور جب بھی آپ کو دو چیزوں میں اختایر دیا گیا تو آپ اس کو اختیار فرماتے تھے جو زیادہ آسان ہو بہ شرطی کہ وہ گناہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3560، 6106، 6853 صحیح مسلم رقم الحدیث :2327 سنن ابو دائود رقم الحدیث :4785 مسند احمد ج ٦ ص 85، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :17942 مسند ابو یعلی رقم الحدیث :4375 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :6410)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 26