وَمَالِىَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 22
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا لِىَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور (اس نے کہا کہ) مجھے کیا ہوا کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم بھی لوٹائے جائو گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اس نے کہا کہ) مجھے کیا ہوا کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور ان کی طرف تم بھی لوٹا جائو گے کیا میں اس کو چھوڑ کر ان کو معبود قرار دوں کہ اگر رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفاعت میرے کسی کام نہ آسکے اور نہ وہ مجھے نجات دے سکیں بیشک اس وقت تو میں کھلی ہوئی گمراہی میں ہوں گا بیشک میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا سو تم میری بات سنو (یٰسین :22-25)
اپنے لیے فطرنی اور قوم کے لئے والیہ ترجعون فرمانے کی پہلی وجہ
قتادہ نے کہا کہ حبیب نجار کی قوم نے اس سے پوچھا کیا تم ان رسولوں کے دین پر ہو ؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ مجھے کیا ہوا کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے، بہ ظاہر یوں کہنا چاہیے تھا کہ تم کو کیا ہوا ہے کہ تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس نے تم کو پیدا کیا ہے، کیونکہ حبیب نجار خود تو رسلووں کی تلقین سے اللہ عزوجل پر ایمان لا چکے تھے اور ان کی قوم بت پرستی میں گرفتار تھی اور رسولوں کی مخالفت کر رہی تھی، لیکن اگر وہ ابتداء اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہتے کہ تم کو کیا ہوا ہے کہ تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی قوم کو فکری غلطی اور اعتقادی خطاء پر قرار دے رہے ہیں اور جب کوئی شخص کسی کو گم راہ اور خطا کار قرار دے تو وہ شخص اس کہنے والے کا مخالف ہوجاتا ہے اور جب کوئی شخص کسی کا مخالف ہو تو وہ اس کی باتوں کو توجہ اور غور سے نہیں سنتا، اس لئے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ تم کو کیا ہوا ہے کہ تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس نے تم کو پیدا کیا ہے بلکہ یہ کہا کہ مجھے کیا ہوا کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے، یعنی اگر میں اللہ عچزوجل کو واحد نہ مانوں اور اس کی عبادت نہ کروں تو یہ میری تقصیر اور میری خطاء ہے، اور میری ناشکری اور احسان ناشناسی ہے، اس لئے ہدایت اور رشد اور استقامت کا طریقہ یہ ہے کہ میں اللہ کو واحد مستحق عبادت مانوں اور صرف اس کی عبادت کروں، گویا انہوں نے بہ راہ راست اپنے نفس کو نصیحت کی اور اس کو ہدایت دی تاکہ ان کی قوم اس پر غور کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو واحد مستحق عبادت ماننا غلط طریقہ ہوتا تو یہ شخص اس کو اپنے لئے اتخیار نہ کرتا کیونکہ انسان اپنے لئے ہمیشہ صحیح چیز کو اختیار کرتا ہے تو ضرور اللہ کو واحد ماننا ہی صحیح دین ہے، اس طرح انہوں نے پہلے اپنے آپ کو سرزنش اور نصیحت کی کہ مجھے صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے اور اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہیں کرنا چاہیے، پھر نہایت لطیف طریقہ سے قوم کو اس کی گم راہی اور غلط روش پر متنبہ کیا اور کہا اور اس کی طرف تم بھی لوٹائے جائو گے، یعنی جب تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائو گے تو تم کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور تم سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیوں کرتے تھے اور اس کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کیوں کرتے تھے، پھر اپنی قوم کو سمجھانے کے لئے حبیب نجار نے دوبارہ اپنے آپ کو وعظ کنے کے لئے کہا : کیا میں اس کو چھوڑ کر ان کو معبود قرار دوں کہ اگر رحمان مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفاعت میرے کسی کام نہ آسکے اور نہ وہ مجھے نجات دے سکیں بیشک اس وقت تو میں کھلی گمراہی میں ہوں گا
اپنے لئے فطرنی اور قوم کے لئے والیہ ترجعون فرمانے کی دوسری وجہ
ہر چند کہ مومن اور کافر دونوں کو قیامت کے دن زندہ کر کے اٹھایا جائے گا لیکن حبیب نجار نے صرف کافر کے حشر کا ذکر کیا تاکہ ان کی قوم کے خلاف بات زیادہ پر اثر ہو اور کہا اگر میں دنیا میں کسی بیماری میں مبتلا ہو جائوں تو یہ بت تو مجھے اس بیماری سے نجات نہیں دلا سکتے اور نہ مجھے کسی افٓت اور مصیب سے بچا سکتے ہیں اور اگر پھر بھی میں نے شرک اور بت پرستی کو نہ چھوڑا تو میں کھلی ہوئی گمراہی میں ہوں گا۔
حبیب نجار نے کہا، میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے، اس میں یہ اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی علت یہ ہے کہ اس نے مجھے پیدا کیا ہے اور یہ جو کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرنے سے مجھے کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں ہے اور فعل اس وقت وجود میں آتا ہے جب اس فعل سے کوئی رکاوٹ نہ ہوا اور اس فعل کے کرنے کی علت موجود ہو، اور یہاں علت یہ ہے کہ نص
مالک ہے اور بندے اس کے مملوک ہیں اور مملوک پر واجب ہے کہ وہ مالک کی تکریم اور اسکی تعظیم کرے، نیز اللہ تعالیٰ نے بندوں کے وجود اور ان کی بقاء کے لئے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انواع و اقسام کی نعمتیں عطا کی ہیں اور منعم کا اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا واجب ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں ایک وہ ہیں جو اللہ کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان کا مالک ہے او وہ اس کے مملوک ہیں اور مملوک پر واجب ہے کہ وہ مالک کی اطاعت کرے خواہ وہ اس کو انعام دے یا نہ دے، اور دوسری قسم وہ ہے جو اس کی اس لئیاطاعت کریں کہ اس نے ان کو نعمتیں دی ہیں، کرے خواہ وہ اس کو انعام دے یا نہ دے، اور دوسری قسم وہ ہے جو اس کی اس لئے اطاعت کریں کہ اس نے ان کو نعمتیں دی ہیں، اور تیسری قسم وہ ہے جو سزا اور عذاب کے ڈر سے اس کی اطاعت کرے، حبیب نجار نے اپنے آپ کو عبادت گزاروں کی پہلی قسم میں شامل کیا کہ میں اس کی اس لئے عبادت کرتا ہوں کہ اس نے مجھے پیدا کیا ہے میں اس کا بندہ اور مملوک ہوں اور مملوک پر واجب ہے کہ وہ مالک کی اطاعت کرے، اور اپنیق وم سے کہا والیہ ترجعون اور اسی کی طرف تم بھی لوٹائے جائو گے اور جب بندے اس کی طرف لوٹائے جائیں گے تو نیکو کاروں کو وہ انعام اور اچھی جزاء دے گا اور بدکاروں کو وہ سزا اور عذاب دے گا، مومنوں کو جنت میں داخل کرے گا اور مشرکوں کو وہ دوزخ میں داخل کرے گا سو تم اللہ پر ایما نلائو اور اس کی عبادت کرو، جنت مومنوں کو نت میں داخل کرے گا اور مشرکوں کو وہ دوزخ میں داخل کرے گا، سو تم اللہ پر ایمان لائو اور اس کی عبادت کرو، جنت مومنوں کو جنت میں داخل کرے گا اور مشرکوں کو وہ دوزخ میں داخل کرے گا، سو تم اللہ پر ایمان لائو اور اس کی عبادت کرو، جنت کے شوق سے یا دوزخ کے خوف سے، سو انہوں نے یہ بتایا کہ میں اللہ کی اس لئے بعادت کرتا ہوں کہ مجھ کو اس نے پیدا کیا ہے میں اس کا مملوک ہوں اور وہ میرا مالک ہے اور تم اس لئے اللہ کی عبادت کرو تاکہ وہ تم کو دوزخ سے نجات دے یا جنت عطا فرمائے اس لئے اپنے متعلق فطرنی اور ان کے متعلق والیہ ترجعون فرمایا۔
اس کے بعد حبیب نجار نے فرمایا : بیشک میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا سو تم میری بات سنو !
حبیب نجار کے اس قول کے دو محمل ہیں، ایک یہ کہ اس نے یہ بات انبیاء (علیہم السلام) سے کہی کہ بیشک میں آپ کے رب پر ایمان لایا ہوں سو آپ میرے ایمان لانے کے اقرار کو غور سے سن کر اس پر گواہ ہوجائیں اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات اپنی قوم سے کہی کہ بیشک میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا سو تم میری بات غور سے سنو، اور اس میں یہ بتایا کہ جس ذات پر میں ایمان لایا ہوں وہ صرف میرا اور ان نبیوں کا رب نہیں ہے بلکہ وہ تمہارا بھی رب ہے اور ساری کائنات کا رب ہے، سو میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں تم میرا یہ اقرار غور سے سن لو اور تم بھی ایمان لے آئو اور اگر تم میرے ایمان لانے کی وجہ سے مجھے کوئی نقصان پہنچائو تو میں اللہ کی راہ میں اس کے لئے بھی تایر ہوں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 22
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]