أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَمِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَمِمَّا لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

پاک ہے وہ ذات جس نے ان چیزوں سے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے ‘ جن کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کے نفسوں سے اور ان چیزوں سے جن کو وہ نہیں جانتے

لفظ سبحان اور تسبیح کا معنی

اس کے بعد فرمایا سبحان (پاک) ہے وہ ذات جس نے ان چیزوں سے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے۔ جن کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کے نفسوں سے اور ان چیزوں سے جن کو وہ نہیں جانتے (یٰس ٓ: 36 )

لفظ سبحان اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کے لئے علم ہے اور تسبیح کا معنی ہے اپنے اعتقاد اور قول کے ذریعہ کسی چیز کو چیب سے دور کرنا ‘ اور اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں اور اس کی قدرت کے عجیب و غریب آثار کر اس کی عظمت وکبریائی پر حیران ہونا اور اس کی جلالت کا اعتراف کرنا اور اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ‘ عبادت کو صرف اسی کے ساتھ مخصوص قرار دینا اور اس پر تعجب کرنا کہ کفار دن رات اس کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں اس کے باجود اس کی الوہیت اور توحید کا انکار کرتے ہیں یا اس کی عبادت میں دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں اور اس آیت میں تسبیح کا معنی یہ ہے کہ میں اس ذات کی شرک کے عیب سے برأت بیان کرتا ہوں جس نے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا کئے۔ میں دل میں بھی اس بات کو مانتا ہوں کے وہ واحد ہے اور شریک کا محتاج ہونے کے عیب سے پاک ہے اور زبان سے بھی اس کی برأت کو بیان کرتا ہوں ‘ وہ ہر اس چیز سے بری اور منزہ ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے اور کفار اور مشرکین جن چیزوں سے اس کا موصوف ہونا بیان کرتے ہیں وہ ان سے پاک اور بری ہے۔ یہ تسبیح اعتقاد سے بھی ہے زبان سے بھی ہے اور عمل سے بھی۔ بایں طور کہ یہ انسان اپنا سر صرف اللہ تعالیٰ کے آگے خم کرے اور صرف اسی کی اطاعت کرے۔

زمین کی روئیدگی سے وجود باری اور اس کی توحید پر استدلال

اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ان چیزوں سے جن کو وہ نہیں جانتے ‘ یعنی اس نے زمین سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا کئے اور ان کے نفسوں سے مرد اور عورت پیدا کئے اور جن چیزوں کو وہ نہیں جانتے کیونکہ وہ ان جوڑوں کی خصوصیات کو نہیں جانتے۔ ان کو نہیں معلوم کہ ان میں کیا دینی اور دنیاوی مصلحتیں ہیں۔ ان کے کیا خواص ہیں ‘ ان کے کیا فوائد اور نقصانات ہیں۔ اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ انسان ان کی تفصیلات کو نہیں جانتے اور فرشتے ان کی تفصیلات کو جانتے ہیں اور اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ان کی تفصیلات کو نہیں جانتا۔

اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت کو جو ثواب عطا فرمائے گا اس کی کنہہ اور حقیقت کو کوئی نہیں جانتا اسی طرح اہل دوزخ کو جس عذاب میں مبتلا کرے گا اس کی کیفیت کا بھی کسی کو ادراک نہیں ہے اور اس سے روح کا بھی ارادہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی حقیقت کو بھی کوئی نہیں جانتا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ‘ جن چیزوں کو زمین اگاتی ہے اس میں تمام نباتات اور معدنیات داخل ہیں اور حیوانات بھی داخل ہیں کیونکہ حیوانات کا وجود بھی زمین اور اس کے اجزاء سے حاصل ہوتا ہے اور جو چیزیں ان کے نفسوں میں ہیں اس سے مراد وہ دلائل ہیں جو انسان کے مشاعر اور ان کے نفسوں میں ہیں اور جن چیزوں کو وہ نہیں جانتے اس سے مراد اللہ کی وہ مخلوق ہے جو انسان کے علم اور اس کے ادراک سے باہر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تین قسم کی مخلوقات ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کا خالق ہر قسم کے نقص اور عیب سے بری ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ بھی ہے کہ بعضٗ مخلوقات کو تم جانتے ہو اور بعضٗ کو تم نہیں جانتے۔ سو تم اللہ کا شریک نہ ان کو قرار دو جن کو تم جانتے ہو اور نہ اللہ کا شریک ان کو قرار دو جن کو تم نہیں جانتے کیونکہ مخلوق بہر حال مخلوق ہے وہ خالق نہیں ہوسکتی۔

اس آیت میں زمین کا ذکر کرکے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمت کے ساتھ زمین میں روئیدگی کا نظام ودیعت فرمایا ہے اس نے زمین میں ایسے مادے رکھے جو نباتات کی نشو و نما کی صلاحیت رکھتے تھے اور اس کی تہہ کو اس قابل بنایا کہ نپلوں اور پودوں کی جڑیں اس میں نفوذ کرسکیں اور اپنی نباتاتی غذا کر اس سے جذب کرسکیں اور بارشوں ‘ دریائوں اور نہروں کے پانی سے اس کی آبیاری کا نظام بنایا تاکہ نباتات کو ان کی غذا فراہم ہوسکے ‘ زمین کے اوپر فضا میں ہوا کو پیدا کیا جس سے پودوں کو آکسیجن حاصل ہوتی ہے ‘ سورج کی شعائیں زمین تک پہنچائیں جن کی حرارت سے غلہ اور پھل پکتے ہیں اور چاند کی کرنیں مہیا کیں جن سے غلہ اور پھلوں میں ذائقہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات کی روئیدگی کا جو یہ نظام بنایا ہے ‘ جب انسان اس پر غور کرے گا تو اس کو یہ کہنا پڑے گا کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ اگر محض بخت و اتفاق سے کھیت لہلہا رہے ہوتے اور باغوں میں پھل لگ رہے ہوتے اور پھول مہک رہے ہوتے تو ان میں یہ ضبط اور تسلسل نہ ہوتا کیونکہ جو چیز اتفاق سے ہو وہ کبھی کبھی ہوتی ہے ‘ اس میں دوام اور تسلسل نہیں ہوتا نیز اس کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زمین کی پیدا وار کا نظام خود بہ خود نہیں بن گیا ہے کیونکہ اس نظام میں اس قدر باریکیاں ‘ مصلحتیں اور حکمتیں ہیں کہ بغیر کسی عظیم مدبر کے اس کے وجود کو فرض نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ چند ہستیاں اس نظام کی خالق ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز حادث اور فانی ہے اور جس چیز کو خود کسی بنانے والے کی احتیاج ہو وہ کسی دوسرے کو وجود میں لانے کا سبب کیسے بن سکتی ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے :

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے ‘ ہم اس سے دن کھینچ لیتے ہیں تو یکایک وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج اپنی مقرر شدہ منزل تک چلتا رہتا ہے ‘ یہ بہت غالب ‘ بےحد علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کی ہیں حتیٰ کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے نہ سورج چاند کو پکڑ سکتا ہے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور ہر سیارہ اپنے مدار میں تیر رہا ہے (یٰس ٓ٠٤۔ ٧٣)

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 36