فکر فردا
sulemansubhani نے Tuesday، 2 February 2021 کو شائع کیا.
فکر فردا ۔
ایک ایسی دھن ہے جس میں ہر معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان اور حیوان پورے شعور سے مصروف عمل ہے ۔
کسی بھی الہامی مذہب کے پیرو انسان اور دیگر انسانوں اور حیوانوں میں آسمان اور زمین کے مابین جتنا ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ مذہب کا پابند انسان اپنے اللہ تبارک و تعالی کے بکثرت ارشادات کی روشنی میں اس دنیا کی تمام زندگی کو آج اور آخرت کو کل سمجھتا ہے ۔ اور اس آج کو اس کل کی کامیابی کا مقدمہ گردانتے ہوئے اپنے ہر پل کو کام میں لاتا ہے ۔
چند ارشادات ملاحظہ کریں ۔
سورة البقرة کی آیت نمبر 110 میں ارشاد ہوا ۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ( سورة البقرة 110)
اور قائم کرو نماز اور ادا کرو زکوة اور جو کچھ بھی خیر میں سے اپنے لیئے آگے بھیجو گے ، اسے اپنے رب کے پاس موجود پاؤ گے ۔ بے شک اللہ تمہارے تمام کاموں سے ہر وقت بخوبی آگاہ ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی نے ادایگی نماز کا حکم جہاں بھی فرمایا اسے اقامت کے ساتھ فرمایا ہے یعنی نماز کو اس کے تمام ارکان، سنن، شرائط اور ظاہری و باطنی تمام آداب و حدود کے ساتھ ادا کرنا اور پورے معاشرہ میں اسے رائج کرنا ۔
اسی طرح زکات کے حکم کو ایتاء کے بعد ذکر کیا ہے یعنی اللہ عز و جل کی رضاء کے حصول کے لیئے حلال مال میں سے دل کی اتھاہ گہرائیوں کی رغبت و خوشی کے ساتھ دینا ۔
خیر سے مراد ہے ۔
فرائض کے علاوہ نوافل ( بدنی و مالی ) صدقہ ( قولی و مالی ) صلہ رحمی، مہمان نوازی مختصر یہ کہ ہر وہ کام جس سے اللہ راضی ہوتا ہے
وہ سب کا سب خیر ہے اور اس میں سے جو بھی ممکن ہو اپنے کل کے بھلے کے لیئے آج ہی آگے بھیج دو ۔

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔


آیات میں ان تمام امور خیر کا ذکر کچھ کوتاہیوں کے بیان کے بعد ہے تو گویا کہ آیات کا سباق یہ بتا رہا ہے کہ یہ حکم بھی در اصل ہمارے ہی دنیوی و اخروی فوائد کے لیئے کچھ یوں بن جاتا ہے کہ اقامت صلوات گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔ زکات کی ادائیگی سے اموال کی پاکیزگی کے حصول کے ساتھ نفوس و ابدان سے گناہوں کی میل کچیل اتر جاتی ہے ۔ اور دیگر امور خیر کی تقدیم سے اللہ کی رضاء نصیب ہو جاتی ہے۔
اور سورة المزمل کی اس آیت میں دل کو خوب لبھانے والی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صدقات و خیرات کو اپنے ذمہ اچھا قرض قرار دیا ہے ۔
کوئی بھی سلیم الفطرت اور کریم الطبع قرض اٹھانے سے مقدور بھر اجتناب کرتا ہے ۔ یوں علی الاعلان قرض مانگتا نہیں اور بالفرض لے بھی لیا ہے تو اسے اولین فرصت میں واپس کرنا لازم سمجھتا ہے اور بوقت واپسی کچھ تحفہ، کوئی کلمات تشکر بھی کہتا ہے ۔



.
في سبيل الله کا ہر خرچ .


: ( من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له أضعافا كثيرة )
[ سورة البقرة : 245 )
ہے کوئی جو ( آج ) اللہ کو قرض حسن دے تو وہ ( کل ) اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس لوٹائے گا ۔
کچھ احادیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایک پھل ، ایک کھجور ، ایک لقمہ أحد پہاڑ کے برابر لگے گا ۔

و اسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ }
مذکورہ امور خیر و اطاعت کے بعد
استغفار کا حکم ہمارے لیئے ایک بہت عظیم فائدہ لیئے ہوئے ہے ۔
کہ کوئی بھی عبادت ، اطاعت ، خیر و ثواب کا کام کرنے کے بعد بھی استغفار کرو تو پتہ چلا کہ استغفار صرف گناہوں کے بعد ہی نہیں بلکہ نماز و زکات و صدقات جیسی اعلی عبادات کی بجا آوری کے بعد بھی مطلوب ربانی ہے ۔
اس فقیر کی طرح کے کچھ لوگوں کی عبادات و اطاعات بھی کئی کمزوریاں لیئے ہوتی ہیں سو ہمارے لیئے اس استغفار کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ بارگاہ ربوبیت میں قبولیت کے قابل ہو جائیں گی ۔
ٹیگز:-
مفتی خالد محمود