أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيۡلُ ۖۚ نَسۡلَخُ مِنۡهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَۙ‏ ۞

ترجمہ:

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے ‘ ہم اس سے دن کھینچ لیتے ہیں تو یکایک وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں

تفسیر:

نسلخ کا بیان

اس آیت میں نسلخ کا لفظ ہے ‘ اس کا معنی ہے ہم کھینچ لیتے ہیں یا اتار لیتے ہیں ‘ سلخ کا معنی ہے حیوان کی کھال اتارنا ‘ بہ طور استعارہ زرہ اتارنے کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا معنی گزر جانا بھی ہے ‘ قرآن مجید میں ہے۔

ترجمہ (التوبہ : ٥) … جب حرمت والے مہینے گزر جائیں۔

ترجمہ (یٰس ٓ : ٧٣) … ہم رات سے دن کھینچ کر نکال لیتے ہیں۔

سانپ کے کینچلی سے باہر آنے کو بھی انسلاخ کہتے ہیں۔ (المفردات ج ١ ص ٤١٣‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ٨١٤١ ھ)

ظلمت کا اصل اور نور کا عارض ہونا

آیت کا معنی علامت ‘ نشانی اور دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید ‘ اس کی قدرت اور اس کی الوہیت کے وجوب پر رات میں دلیل ہے۔ فرمایا : ہم دن کی روشنی کو رات سے کھینچ لیتے ہیں۔ ہوا اور فضا میں جو سورج کی شعاعیں ہوتی ہیں ‘ جب ان کو کھینچ لیا جاتا ہے تو پھر رات کی سیاہی اور اس کا اندھیرا باقی رہ جاتا ہے جس طرح حیوان کے جسم سے کھال اتار لی جائے تو پھر اس کا اندرونی جسم باقی رہ جاتا ہے اور اس میں یہ ارشارہ ہے کہ اصل ظلمت ہے اور نور عارض ہے جو شورج کی شعاعوں کی صورت میں ہوا میں متداخل ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نور کے ان باریک ذرات کو فضا سے کھینچ کر نکال لیتا ہے تو پھر رات باقی رہ جاتی ہے اور ظلمت کے اصل ہونے اور نور کے عارض ہونے پر یہ حدیث دلیل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) ایک طویل حدیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل نے اپنی مخلوق کو ظلمت میں پیدا کیا پھر اس دن ان پر اپنا نور ڈالا ‘ پھر جس نے اس نور کو پا لیا وہ ہدایت یافتہ ہوگیا اور جو اس نور کو نہ پاسکا وہ گمراہی پر برقرار رہا۔ اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم کے موافق لکھ کر خشک ہوچکا ہے۔

(مسند احمدج ٢ ص ٦٧١‘ رقم الحدیث : ٢٥٦٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٣١٤١ ھ ‘ المستدرک ج ١ ص ٠٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢١٨١‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٩١‘ مشکوۃ رقم الحدیث : ١٠١‘ کنزل العمال رقم الحدیث : ٢٨٥‘ ٣١٤١ )

زمان اور مکان کے دلائل کی باہمی مناسبت

اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے زمین کے احوال سے اپنے وجود ‘ اپنی قدرت اور اپنی توحید پر استدلال فرمایا تھا اور اس آیت میں رات کے وجود سے اپنی قدرت پر استدلال فرمایا ہے اور ان دلیلوں میں مناسبت یہ ہے کہ زمین مکان ہے اور رات زمان ہے اور زمان اور مکان باہم متناسب ہیں۔ ہر مخلوق زمان اور مکان میں ہے اور جوہر ہو یا عرض کوئی چیز زمان اور مکان کی قید سے باہر نہیں ہے اور انسان کا زیادہ تعلق مکان سے ہوتا ہے اور وہ اسی سے زیادہ متعارف اور واقف ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود ‘ قدرت اور توحید پر پہلے زمین کے احوال سے استدلال فرمایا اور پھر اس نے رات کے احوال سے اپنے وجود اور قدرت پر استدلال فرمایا۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب مقصود زمان سے استدلال کرنا ہے تو زمانہ تو دن اور رات دونوں کو شامل ہے تو پھر رات کو دن پر کیوں اختیار فرمایا اور فرمایا ” اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے۔ “ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ عموماً رات میں شورو شغب نہیں ہوتا اور رات میں لوگ پرسکون ہوتے ہیں اور سو جاتے ہیں اور نیند موت کی مثل ہے اور رات کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے اور لوگ بیدار ہو کر پھر زندگی کی دوڑ دھوپ میں مشغول ہوجاتے ہیں اور سورج کا طلوع ہونا ایسا ہے جیسے قیامت کے روز صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور چونکہ یہاں موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر استدلال کرنا مقصود تھا ‘ اس لئے رات سے استدلال فرمایا تاکہ رات سے نیند کی طرف اور نیند سے موت کی طرف ذہن منتقل ہو اور رات کے بعد پھر دن آتا ہے اور نیند کے بعد بیداری آتی ہے تو اس سے موت کے بعد پھر حیات کی طرف ذہن منتقل ہو۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب اصل استدلال رات سے ہی ہے تو پھر دن کا ذکر کیوں فرمایا اور یہ کہا : اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے ہم اس سے دن کھینچ لیتے ہیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے اور ہر چیز کے منافع اور محاسن اس کی ضد سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے رات سے استدلال کرتے ہوئے دن کا بھی ذکر فرمایا۔

اللہ تعالیٰ نے دیگر آیات میں بھی رات اور دن سے استدلال فرمایا ہے ‘ ارشاد ہے :وَ مِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَ النَّهَارُ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُؕ حم السجدہ 54 اور اس کی نشانیوں میں دن اور رات اور سورج اور چاند ہیں 

دن اور رات کے توارد میں وجود باری ‘ اس کی توحید اور حشر اجساد پر دلائل

اس سے پہلی آیت میں زمین کی روئیدگی اور اس کی پیداوار سے اللہ تعالیٰ نے اپ نے وجود ‘ اپنی قدرت ‘ اپنی نوعیت اور اپنی توحید پر استدلال فرمایا تھا کیونکہ زمین کے احوال ہر شخص کو معلوم ہیں اور اس کی پیداوار کا ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے سو یہ بتایا کہ یہ غلہ اور پھل ‘ یہ سبزہ اور یہ تناور درخت یونہی خود بہ خود نہیں کھڑے ہوگئے ‘ ان کا ضرور کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے اور زمین کا بار بار مردہ اور بےآب وگیاہ ہونا اور پھر سبزہ اور پھلوں سے لد کر زندہ ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے ‘ اسی طرح وہ قیامت کے بعد مردہ انسانوں کو بھی زندہ فرما دے گا۔

پھر انسان جس طرح زمین کی روئیدگی کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے ‘ اسی طرح انسان دن اور رات کے توارد کا بھی مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ رات کے بعد دن آجاتا ہے اور دن کے بعد رات آجاتی ہے اور یہ گردش لیل و نہار ‘ سورج کے طلوع اور غروب پر موقوف ہے ‘ جو ایک مقرر اور لگے بندھے معمول اور نظام کے مطابق طلوع ہوتا ہے اور پھر غروب ہوجاتا ہے۔ یہ سب کچھ اتفاق سے تو نہیں ہو رہا۔ ورنہ اس میں باقاعدگی اور تسلسل نہ ہوتا اور نہ یہ خود بخود ہو رہا ہے کیونکہ جو چیزیں ظاہری اسباب کے بغیر خودبخود ہوجاتی ہے وہ خودبخود ختم بھی ہوجاتی ہیں جیسے کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ جنگلوں میں قدرتی گھاس اور پودے خودبخود پیدا ہوتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں ‘ پھر یہ نظام اس قدر عظیم حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے کہ انسان کی غقل مبہوت ہوجاتی ہے۔ سورج اور زمین کے درمیان حکیمانہ فاصلہ رکھا گیا ہے۔ سورج اگر اس فاصلہ سے زیادہ فاصلہ پر ہوتا تو انسان سردی سے منجمد ہوجاتے اور اگر اس سے کم فاصلہ پر ہوتا تو شدت حرارت اور تمازت سے انسان جھلس جاتے اور مرجاتے۔ سو یہ فاصلہ وہی مقرر کرسکتا ہے جس کو یہ علم ہو کہ انسان کتنی سردی اور گرمی برداشت کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر سورج زمین سے زیادہ فاصلہ پر ہوتا تو زمین پر غلہ اور پھل پک نہیں سکتا تھا اور اگر کم فاصلہ پر ہوتا تو تمام کھیت اور باغات جل کر راکھ ہوجاتے۔ غرض سورج کو اس مخصوص فاصلہ پر وہی رکھ سکتا ہے جو نہ صرف انسانوں اور دیگر جانداروں کی موسمی قوت برداشت کا علم رکھتا ہو بلکہ وہ تمام نباتات کی موسمی برداشت کا جاننے والا ہو اور تمام انسانوں ‘ حیوانوں اور درختوں اور سبزہ زاروں کے مزاجوں کو جاننے والا وہی ہوسکتا ہے جو ان سب کا پیدا کرنے والا ہو اور جب انسان سورج کے طلوع اور غروب اور رات اور دن کے توارد میں غور کرے گا تو وہ یہ بھی جان لے گا بلکہ یقین کرلے گا کہ اس نظام کا ناظم بھی واحد ہے کیونکہ اگر نظام بنانے والے متعدد ہوتے تو نظم بھی متعدد ہوتے اور جب نظم واحد ہے تو ماننا پڑے گا کہ اس کا ناظم اور خالق بھی واحد ہے۔ نیز ہم نے اس سے پہلے یہ بتایا ہے کہ رات موت کے مشابہ ہے اور دن حیات کے مشابہ ہے اور رات کے بعد دن کو وجود میں لانا اس پر دلیل ہے کہ جس طرح وہ رات کے بعد دن لے آتا ہے اسی طرح وہ موت کے بعد حیات لانے پر بھی قادر ہے۔

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم !

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 37