وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَيۡتَةُ ۖۚ اَحۡيَيۡنٰهَا وَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهَا حَبًّا فَمِنۡهُ يَاۡكُلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 33
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَيۡتَةُ ۖۚ اَحۡيَيۡنٰهَا وَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهَا حَبًّا فَمِنۡهُ يَاۡكُلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ان کے لئے ایک نشانی مردہ زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کردیا اور ہم نے اس سے غلہ پیدا کیا جس سے وہ کھاتے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان کے لئے ایک نشانی مردہ زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کردیا اور ہم نے اس سے غلہ پیدا کیا جس سے وہ کھاتے ہیں اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کئے اور ان میں ہم نے کچھ چشمے جاری کردیئے تاکہ لوگ اس کے پھلوں سے کھائیں اور ان کے ہاتھوں نے اس کی پیدائش میں کوئی عمل نہیں کیا تو وہ کیوں شکر ادا نہیں کرتے پاک ہے وہ ذدات جس نے ان چیزوں سے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے ‘ جن کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کے نفسوں سے اور ان چیزوں سے جن کو وہ نہیں جانتے (یٰس ٓ ٦٣۔ ٣٣)
آیات سابقہ سے ارتباط
ان آیتوں کا پچھلی آیتوں سے ربط اس طرح ہے کہ یٰس ٓ : 32 میں حشر کی طرف اشارہ فرمایا تھا کیونکہ اس میں ارشاد فرمایا تھا : اور وہ سب ہمارے ہی سامنے پیش کئے جائیں گے اور حشر کے دن سب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر کیا جائے گا اور زیر تفسیر آیت میں حشر کی دلیل کی طرف اشارہ فرمایا ہے کیونکہ اس میں ارشاد ہے کہ ہم نے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔
مردہ زمین سے مراد ہے خشک اور بنجر زمین ‘ یہاں فرمایا ہے جس کو ہم نے زندہ کردیا ‘ زندہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ ہم نے اس کو حیات عطا کردی اور حیات ‘ حس اور حرکت ارادیہ کا تقاضا کرتی ہے اور یہاں مراد یہ ہے کہ ہم نے اس میں نشو و نما کی قوتیں پیدا کردیں اور اس میں دریائوں اور چشموں کے پانی سے ترو تازہ سبزہ اور غلہ اور دانے پیدا کردیئے۔ سو جس طرح ہم خشک اور بنجر زمین کو پانی سے سرسبز بنا دیتے ہیں ‘ اسی طرح ہم مردہ اجسام کو دوبارہ زندہ کردیں گے اور فرمایا : ہم نے اس سے غلہ پیدا کیا جس سے وہ کھاتے ہیں۔ غلہ اور دانے ‘ گندم ‘ جو ‘ باجرہ ‘ مکئی ‘ چنا اور دالوں کی دیگر اجناس شامل ہے ‘ جس سے لوگ روٹی پکا کر کھاتے ہیں ‘ اللہ کا یہ بھی کرم اور اس کا فضل ہے کہ اس نے متعدد اجناس کا غلہ پیدا کیا ہے۔ اگر صرف ایک ہی قسم کا غلہ ہوتا اور لوگ کسی مرض کی وجہ سے اس کو نہ کھا سکتے تو بھوک سے مرجاتے۔ مثلاً ذیابیطس کے مریضوں کے لئے گندم نقصان دہ ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ نشاستہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے چنا بھی پیدا کردیا۔ چنے میں گندم کی بہ نسبت آدھا نشاستہ ہوتا ہے۔ سو جن کی شوگر بہت زیادہ ہو وہ چنے کی روٹی کھالیتے ہیں۔
روٹی کی تعظیم اور تکریم کے متعلق احادیث
اللہ تعالیٰ نے روٹی کی شکل میں ہم کو عظیم نعمت عطا فرمائی ہے اور غلہ اور دانے کی تفسیر میں چونکہ روٹی کا ذکر آگیا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ روٹی کی تعظیم اور تکریم اور روٹی کھانے کے آداب کے متعلق چند احادیث اور ان کی تشریح پیش کریں۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ روٹی کی تعظیم کرو۔(المستد رک ج ٤ ص ٢٢١‘ شعب الایمان رقم الحدیث ٩٦٨٥‘ حاکم نے لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے)
حضرت ابو سکینہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : روٹی کی تعظیم کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عزت دی ہے جس شخص نے روٹی کی تعظیم کی اللہ تعالیٰ اس کو عزت عطا فرمائے گا۔ (المعجم الکبیر ج ٢٢ رقم الحدیث ٠٤٨‘ مجمع الزوائد ص ٤٣‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث ٤٢٤١‘ حافظ الہیشمی اور حافظ سیوطی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ )
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : روٹی کی تعظیم کرو کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی برکتوں سے نازل فرمایا ہے اور اس کو زمین کی برکتوں سے نکالا ہے۔(الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٤٢٤١ )
حضرت عبداللہ بن ام حرام (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ‘ روٹی کی تعظیم کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روٹی کو آسمان کی برکتوں کے ساتھ نازل کیا ہے اور اس کے لئے زمین کی برکتیں مسخر کردی ہیں اور جس نے دسترخوان پر گرنے والی روٹی کا ٹکڑا تلاش کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٧٧٨٢‘ مجمع الزوائد ج ٥ ص ٥٣‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٦٢٤١‘ حافظ الہیشمی اور حافظ السیوطی نے کہا کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ )
حضرت حسن بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ وضو کرنے کی جگہ میں گئے وہاں انہوں نے نالی میں ایک لقمہ یا روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا ‘ انہوں نے اس سے گندگی صاف کرکے اس کو اچھی طرح دھویا ‘ پھر اپنے غلام کو وہ روٹی کا ٹکڑا دے دیا اور فرمایا جب میں وضو کروں تو مجھے یہ لقمہ یاد دلانا۔ جب آپ نے وضو کیا تو اس غلام سے فرمایا لائوں مجھے وہ روٹی کا ٹکڑا دے دو ‘ اس غلام نے کہا اے میرے آقا ! میں نے تو اس ٹکڑے کو کھالیا ہے۔ آپ نے فرمایا جائو تم اللہ کی رضا کے لئے آزاد ہو۔ اس غلام نے پوچھا ‘ اے میرے آقا ! آپ نے کس سبب سے مجھے آزاد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیونکہ میں نے حضرت فاطمہ بن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی خراب جگہ سے کوئی لقمہ یا روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور اس سے گندگی کو دور کیا اور اس کو اچھی طرح صاف کرلیا ‘ پھر اس کو کھالیا تو اس کے پیٹ میں پہنچنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا۔ پھر حضرت حسن نے کہا اور میں کسی جنتی شخص سے خدمت لینا نہیں چاہتا۔ اس حدیث کو امام ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث ٠٥٧٦‘ مجمع الزوائد ج ٥ ص ٤٣ )
علامہ شمس الدین محمد عبدالرئوف المناوی المتوفی ٣٠٠١ ھ لکھتے ہیں :
علامہ ابن جوزی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے ‘ اس کی سند میں ایک روای غیاث بن ابراہیم ہے اور وہ وضاع ہے۔ عبدالملک بن عبدالرحمان شافعی نے اس کی متابعت کی ہے اور وہ کذاب ہے۔ علامہ مناوی نے اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حافظ عراقی نے کہا کہ یہ حدیث شدید عیف ہے ‘ موضوع نہیں ہے۔(فیض القدیر ج ٣ ص ٠٠٣١‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ٨١٤١ ھ)
میں کہتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث لفظاً شدید ضعیف ہو لیکن یہ حدیث معنی ثابت ہے اور احادیث صحیحہ میں اس کی تائید موجود ہے۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے اور اس کا لقمہ گرجائے تو لقمہ پر جس چیز کے لگنے کی وجہ سے اس کو شک ہے اس کو گرا دے پھر اس کو کھالے اور اس کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث ٢٠٨١‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٤٣٢١‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٠٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٠٧٢٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٣٥٢٥‘ المستدرک ج ٤ ص ٨١١‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٧ ص ٢٧٢)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنی انگلیوں کو تین مرتبہ چاٹ لے اور آپ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کا لقمہ گرجائے تو وہ اس سے گندگی کو صاف کردے اور اس کو کھالے اور اس کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور آپ نے ہمیں یہ حکم دیا کہ ہم برتن کو صاف کرلیا کریں اور آپ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے کون سے طعام میں برکت ہے۔(سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٠٨١‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٤٩٢‘ مسند احمد ج ٣ ص ٧٧١‘ سنن الداری رقم الحدیث ٤٣٠٢‘ سنن ابودائود رقم الحدیث ٥٤٨٢‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث ٢١٣٣‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٧ ص ٨٧٢‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٣٧٨٢)
روٹی کی تکریم میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے اوپر کوئی نامناسب چیز نہ رکھی جائے ‘ سفیان ثوری اس کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ روٹی پیالہ کے نیچے رکھی جائے۔ (سنن الترمذی ج ٣ ص ٦٢٤‘ دارالجیل بیروت ٨٩٩١ ئ)
روٹی کی تکریم میں سے یہ بھی ہے کہ آٹا چھانے بغیر روٹی پکائی جائے۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر بھیجا ہے ‘ جب سے اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھلنی نہیں دیکھی اور نہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھائی۔
احادیث مذکورہ کی تشریح
علامہ محمد عبدالرئوف المناوی المتوفی ٣٠٠١ ھ لکھتے ہیں :
روٹی کی تکریم کا محمل یہ ہے کہ روٹی کی تمام انواع اور اقسام کی قدر کی جائے ‘ کیونکہ انسان کو جس غلہ کی روٹی بھی جب میسر ہو وہ اس کو کھالے اور کسی اور جنس کی روٹی کی طلب اور جستجو نہ کرے ‘ تو یہ اس کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق پر راضی ہے اور لذت اور ذائقہ کے حصول کی کوشش نہیں کرتا۔ غالب القطان نے یہ کہا ہے کہ روٹی کی تکریم میں سے یہ بھی ہے کہ روٹی ملنے کے بعد سالن کا انتظار نہ کرے ‘ تاہم اس پر یہ اعتراض ہے کہ اگر روٹی سالن کے ساتھ کھائی تو وہ صحت کے لئے زیادہ مفید ہے۔ بعض متقدمین نے روٹی کے اوپر گوشت یا بوٹی رکھنے سے بھی منع کیا ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پھل کو روٹی پر رکھا اور یہ فرمایا یہ اس کا سالن ہے۔
روٹی کی تکریم میں سے یہ بھی ہے کہ اس کو کسی گندگی ‘ ناپاک یا بےوقعت جگہ پر نہ ڈالا جائے یا روٹی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ امام غزالی نے ذکر کیا ہے کہ ایک عابد کے دوست کے پاس چند روٹیاں لائی گئیں ‘ وہ ان کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا کہ ان میں جو سب سے اچھی روٹی ہو اس کو نکال کر کھائے۔ عابد نے اس سے کہا یہ تم کیا کررہے ہو ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ جس روٹی سے تم نے اعراض کیا ہے اس میں کتنی حکمتیں ہیں اور اس روٹی کو وجود میں لانے میں کتنی چیزوں کے عمل کا دخل ہے۔ اس روٹی کے حصول کے لئے اللہ نے بادلوں سے پانی اتارا ‘ زمین کو سیراب کیا ‘ زمین میں بیج ڈالا گیا ‘ پھر اس سے غلہ پیدا ہوا اور زمین میں معدنیات رکھے گئے۔ ان سے لوہا نکالا گیا ‘ پھر اس لوہے سے مشینیں بنائی گئیں ‘ ان مشینوں میں اس غلہ کو پیسا گیا اور درختوں ‘ کوئلوں ‘ تیل اور قدرتی گیس سے ایندھن تیار کیا گیا پھر اس آٹے کی روٹی پکائی گئی تو سوچو کہ اس ایک روٹی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے کتنی چیزیں پیدا کیں۔ یہ زمین ‘ آسمان ‘ ہوائیں ‘ سورج کی حرارت ‘ چاند کی کرنیں ‘ دریائوں کا پانی سب اس روٹی کو تم تک پہنچانے کے لئے اپنا اپنا رول ادا کررہے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
ترجمہ (النحل : ٨١) … اگر تم اللہ کی نعمت کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔
امام طبرانی نے حضرت عبداللہ بن حرام (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس نے دسترخوان پر گرے ہوئے روٹی کے ٹکڑے کو کھالیا اس کی مغفرت کردی جائے گی۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث ٦١٤١ )
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اس کے صغیرہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے کیونکہ کبیرہ گناہ صرف توبہ یا شفاعت یا اللہ کے فضل محض سے معاف ہوتے ہیں۔ (فیض القدیر ج ٣ ص ٩٩٢١‘ مع التوضیح ‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرہ ٨١٤١ ھ)
گندم کی روٹی کا عظیم نعمت ہونا
یوں تو ہر قسم کے اناج کی روٹی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن گندم کی روٹی میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے ‘ اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کی عیادت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا ‘ تمہارا کیا کھانے کو دل چاہتا ہے ؟ اس نے کہا ‘ گندم کی روٹی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جس شخص کے پاس گندم کی روٹی ہو وہ اپنے بھائی کے پاس بھیج دے ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بج تمہارا بیمار کسی چیز کو کھانے کی خواہش کرے تو اس کو وہ چیز کھلا دو ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ١٤٤٣۔ ٠٤٤١‘ اس حدیث کی سند ضعیف ہے)
یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ مریض کے لئے وہ چیز نقصان دہ نہ ہو ‘ کیونکہ حدیث میں ہے :
حضرت ام المنذر بن قیس الانصاریہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب (رض) بھی تھے اور حضرت علی بیماری سے کمزور تھے اور ہماری ادھ کچی اور ترش کھجوروں کے خوشے لٹکے ہوئے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کھجوروں سے کھا رہے تھے ‘ حضرت علی نے بھی ان کھجوروں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : اے علی ! ٹھہرو ‘ تم کمزور ہو ‘ حضرت ام المنذر کہتی ہیں ‘ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے چقندر اور جو کا کھانا تیار کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے فرمایا : اے علی ! تم اس سے کھائو یہ تمہارے لئے نفع بخش ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٤٣‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٦٥٨٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٣٠٢‘ المستدرک ج ٤ ص ٧٠٤‘ مسند احمد ج ٦ ص ٤٦٣۔ ٣٦٣ )
امام مالک بن انس بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) یہ فرماتے تھے ‘ اے بنی اسرائیل تم تازہ پانی اور خشکی کی سبزیاں اور جو کی روٹی کھایا کرو اور تم گندم کی روٹی سے اجتناب کرو کیونکہ تم اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ٩٧٧١)
گندم بہترین اناج ہے ‘ نصف دنیا کی بنیادی غذا ہے ‘ اس کا مزاج گرم درجہ اول اور مائل بہ اعتدال ہے۔ گندم خون اور گوشت پیدا کرتا ہے۔ ہڈیاں بناتا ہے ‘ قبض کو دور کرتا ہے اور بدن کو فربہ کرتا ہے۔ اس میں ٠٩۔ ٠٦ فیصد نشاستہ ہوتا۔ (اس لئے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے مضر ہے۔ ) اس کے غذائی اور کیمیاوی اجزاء کی تفصیل حسب ذیل ہے :۔
سو گرام آٹا جس سے میدہ اور سوجی وغیرہ نہ نکالی گئی ہو ‘ اس میں ٨١٣ حرارے ‘ ٢.٣١ گرام پروٹین ‘ ٢ گرام چکنائی ‘ ٦.٩ گرام ریشہ ‘ ٥٣ ملی گرام کیلشیم ‘ ٤ ملی گرام جست ‘ ٠٤٣ ملی گرام فاسفورس ‘ ٦٤ . وٹامن ب ‘ ٨. ملی گرام وٹامن ب ٢‘ ٠٥. ملی گرام ب ٦‘ ١ ملی گرام وٹامن ای ہوتا ہے۔
دماغ کی طاقت کے لئے فاسفورس اور گولوکوز بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور سب سے زیادہ فاسفورس اور گلوکوز گندم سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے دماغ کی توانائی کے لئے گندم سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہے اور یہ سب چیزوں سے زیادہ ارزاں اور سہل الحصول ہے۔ سو گندم کی روٹی کھانا سب سے عظیم نعمت ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم اس نعمت کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہو اور گندم کے یہ فوائد اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب اس سے بھوسی نہ نکالی جائے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان چھانے آٹے کی روٹی تناول فرماتے تھے۔ یٰس ٓ ٥٣‘ ٤٣ میں کھجور اور انگور کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے پیدا کرنے سے وجود باری پر استدلال فرمایا ہے ‘ ہم الانعام : ٩٩ میں کھجور اور انگور کے خواص ان کے غذائی اور کیمیائی فوائد کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں اور یہ بھی تفصیل سے بیان کرچکے ہیں کہ ان چیزوں کے پیدا کرنے میں وجود باری پر کس طرح کے دلائل ہیں۔ اس کے لئے تبیان القرآن ج ٣ ص ١١٦۔ ٥٠٦ کا مطالعہ فرمائیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 33
[…] اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یٰس ٓ: ٣٣ میں اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا تھا : اور ان کے لئے ایک […]