حدیث نمبر 591

روایت ہے حضرت اوس ابن اوس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تمہارے بہترین دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم پیدا ہوئے اور اسی میں وفات دیئے گئے اور اسی میں صور پھونکنا ہے اور اسی میں بے ہوشی ہے لہذا اس دن میں مجھ پر درود زیادہ پڑھو ۱؎ کیونکہ تمہارے درود مجھ پر پیش ہوتے ہیں ۲؎ لوگ بولے یارسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درود آپ پر کیسے پیش ہوں گے آپ تو رمیم ہوچکے ہوں گے(یعنی گلی ہڈی)۳؎ فرمایا کہ اﷲنے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کردیئے ۴؎(ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،دارمی۔بیہقی،دعوات کبیر)۵؎

شرح

۱؎ اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ جس تاریخ اور جس دن میں کوئی ہم واقعہ کبھی ہوجائے وہ دن اور تاریخ تاقیامت اہم بن جاتی ہے۔دوسرے یہ کہ اس دن اور اس تاریخ میں ان واقعات کی یادگار یں قائم کرنا بہتر ہے۔تیسرے یہ کہ وہ یادگاریں عبادات سے قائم کی جائیں نہ کہ لہو اور کھیل کود سے،یعنی اس دن زیادہ عبادتیں کی جائیں۔میلاد شریف،گیارھویں شریف،عید معراج،عرس بزرگاں کا یہی مقصد ہے اور ان سب کی اصل یہ حدیث اور قرآن شریف کی یہ آیتیں ہیں،دیکھو “جاءالحق”حصہ اول۔

۲؎ یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل کہ اس میں ایک نیکی کا ثواب ستر۷۰ گناہے اور درود دوسری عبادتوں سے افضل،لہذا افضل دن میں افضل عبادت کروکیونکہ اس دن کا درود خصوصی طور پر ہماری بارگاہ میں پیش ہوتا ہے اور ہم قبول فرماتے ہیں۔خیال رہے کہ ہمیشہ ہی درود شریف حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتاہے مگر جمعہ کے دن خصوصی پیشی ہوتی ہے،خصوصی قبولیت۔(مرقاۃ)

۳؎ یہ سوال انکار کے لیئے نہیں بلکہ کیفیت پوچھنے کے لیئے ہے،یعنی آپ کی وفات کے بعد ہمارے درودوں کی پیشی فقط آپ کی روح شریف پر ہوگی یا روح مع الجسم پر جیسے زکریا علیہ السلام نے رب تعالٰی کی طرف سے بیٹے کی خوش خبری پاکر عرض کیا تھا خدایا میرے بیٹا کیسے ہوگا؟میں بوڑھا ہوں،میری بیوی بانجھ۔یہ سوال بھی کیفیت پوچھنے کے لیئے ہے نہ کہ انکارًا،لہذا اس پر روافض کوئی اعتراض نہیں کرسکتے۔خیال رہے کہ اولاد کے اعمال ماں باپ پر پیش ہوتے ہیں،مرید کے شیخ پر مگر وہاں پیشی کبھی کبھی ہوتی ہے وہ بھی فقط روح پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ پیشی ہر وقت ہوتی ہے اور روح مع الجسم پر۔(مرقاۃ)

۴؎ لہذا ان کے اجسام زمین کھا سکتی ہی نہیں اور وہ گلنے سے محفوظ ہیں۔قرآن کریم فرمارہا ہے کہ حضرت سلیمان بعد وفات چھ ماہ یا ایک سال نماز کی ہیئت پر لکڑی کے سہارے کھڑے رہے پھر دیمک نے آپ کی لاٹھی تو کھائی لیکن آپ کا پاؤں شریف نہ کھایا۔اس حدیث کی بنا پربعض علماءفرماتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام کے زخموں پر جراثیم نہ تھے اور نہ انہوں نے آپ کا گوشت کھایا کوئی اور بیماری تھی کیونکہ پیغمبرکا جسم کیڑا نہیں کھا سکتا۔جنہوں نے یہ واقعہ درست مانا ہے وہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم بعد وفات ہے،زندگی میں امتحانًایہ ہوسکتا ہے جیسے تلوار جادو اور ڈنگ ان پر اثر کردیتے ہیں۔شیخ نے فرمایا اس جملہ کے معنی ہیں کہ انبیاءعلیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں،وہ زندگی بھی دنیاوی جسمانی اور حقیقی ہے نہ کہ شہیدوں کی طرح صرف معنوی اور روحانی۔اس کی پوری تحقیق جَذْبُ الْقُلُوْب اور تَارِیْخ مَدِیْنَہْ میں ملاحظہ کیجئے۔(اشعۃ)اور علامہ جلالی الدین سیوطی نے اپنی کتاب شَرْحُ الصُّدُوْرِفِیْ اَحْوَالِ الْقُبُوْرِ میں حیات انبیاء پر بہت ہی نفیس بحث فرمائی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ یہ حضرات اپنی قبروں میں فرشتوں کی طرح کھانے پینے سے بے نیاز ہیں مگر نمازیں پڑھتے ہیں،قرآن کی تلاوت کرتے ہیں،ذکر اﷲ کی لذت پاتے ہیں۔(مرقاۃ)

۵؎ اس روایت کو ابن حبان،ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا،حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے،علی شرط بخاری ہے،نووی کہتے ہیں کہ اس کی اسنادصحیح ہیں۔