الفصل الثانی

دوسری فصل

حدیث نمبر 589

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں میں طور کی طرف گیا ۱؎ تو کعب احبار ۲؎ سے ملا ان کے پاس بیٹھا انہوں نے مجھے تورات کی باتیں سنائیں اور میں نے انہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں۳؎ جو حدیثیں میں نے انہیں سنائیں ان میں یہ بھی تھا کہ میں نے کہا فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین وہ دن جس پر سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے،اسی میں اتارے گئے،اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی،اسی میں وفات پائی،اسی میں قیامت قائم ہوگی۴؎ ایسا کوئی جانور نہیں جو جمعہ کے دن صبح سے آفتاب نکلنے تک قیامت کا ڈرتے ہوئے منتظر نہ ہو ۵؎ جن و انس کے سواءاور اس میں ایک ایسی ساعت ہے جسے کوئی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے نہیں پاتا کہ اﷲ سے کچھ مانگ لے مگر رب اسے دیتا ہے کعب بولے کہ یہ ہر سال میں ایک بار ہے میں نے کہا بلکہ ہر جمعہ میں ہے تو کعب نے توریت پڑھی تو بولے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ۶؎ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں عبداﷲ ابن سلام سے ملا تو میں نے انہیں کعب کے پاس بیٹھنے اور جو کچھ میں نے ان سے جمعہ کے بارے میں گفتگو کی سنائی میں نے کہا کہ کعب بولے یہ ہر سال میں ایک دن ہے تو عبداﷲ ابن سلام نے فرمایا کہ کعب نے غلط کہا ۷؎ تب میں نے ان سے کہا پھر کعب نے توریت پڑھی تو فرمایا بلکہ وہ ہر جمعہ میں ہے تب عبداﷲ ابن سلام بولے کہ کعب نے سچ کہا ۸؎ پھر عبداﷲ ابن سلام نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ وہ کون سی ساعت ہے ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا وہ مجھے بتادیجئے اور بخل نہ کیجئے ۹؎ عبداﷲ ابن سلام نے فرمایا کہ وہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے ۱۰؎ ابوہریرہ فرماتے ہیں میں بولا کہ وہ جمعہ کی آخری ساعت کیسے ہوسکتی ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان بندہ اسے نماز پڑھتے ہوئے پائے ۱۱؎ عبدا ﷲ ابن سلام بولے کہ کیا رسول ا ﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو کسی جگہ نماز کے انتظار میں بیٹھے تو وہ نماز پڑھنے تک نماز ہی میں ہے ابوہریرہ فرماتے ہیں میں نے کہا ہاں فرمایا وہ یہی ہے ۱۲؎(مالک،ابوداؤد،ترمذی،نسائی)اور احمد نے صدق کعب تک روایت کی۔

شرح

۱؎ ظاہر یہ ہے کہ طور سے مراد وہ مشہور طور پہاڑہی ہے جہاں موسیٰ علیہ السلام رب تعالٰی سے ہم کلام ہوتے تھے۔

۲؎ آپ کا نام کعب ابن مانع،کنیت ابو اسحاق،قبیلہ حمیر سے ہیں،یہود کے بڑے مشہور عالم تھے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا مگر ملاقات نہ کرسکے،عہد فارقی میں ایمان لائے اور خلافت عثمانی ۳۲ھ؁ مقام حمص میں وفات پائی لہذا آپ تابعین میں سے ہیں۔

۳؎ صحابہ کرام مؤمنین علمائے بنی اسرائیل سے توریت شریف کی وہ آیات سنا کرتے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں ہیں تاکہ ان سے ایمان تازہ اور دل روشن ہو۔جن احادیث میں توریت پڑھنے سے حضرت عمر کو منع فرمایا گیا وہ توریت کی وہ ایات مراد ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں یا اس سے ہدایت لینے کے لیئے پڑھنا مراد ہے،اب ہدایت صرف قرآن و حدیث میں ہے لہذا یہ حدیث اس کے خلاف نہیں۔

۴؎ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم دیا۔دوسری روایت میں ہے کہ عاشورہ کے دن ہوگی مگر اس کا سنہ بتانے کی اجازت نہ تھی۔

۵؎ یعنی جمعہ کے دن ہر جانور منتظر ہوتا ہے کہ شاید آج قیامت ہو،جب بخیریت سور ج نکل آتا ہی تب سمجھتا ہے کہ آج قیامت نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جانوروں کوبھی یہ معلوم ہے کہ قیامت جمعہ کو آوے گی اور انہیں ہمارے دنوں کی بہت خبر رہتی ہے کہ آج فلاں دن ہے۔

۶؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بگڑی ہوئی توریت میں بھی جمعہ کے فضائل اور اس میں قبولیت کی ساعت کا ذکر تھا مگر حضرت کعب کی یاد نے غلطی کی کہ وہ سمجھے توریت میں یہ ہے کہ سال کے ایک جمعہ میں قبولیت کی ساعت ہوتی ہے،یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا معجزہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیزوں کی خبر دی تو جو توریت کے چوٹی کے عالم پر چھپی رہیں اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے بتادیں۔

۷؎ یہاں کذب بمعنی جھوٹ نہیں بلکہ بمعنی بھول جانا یا غلطی کرنا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ ایک عالم کے غلط فتوے کو دوسرا عالم درست کرکے سائل کو بتاسکتا ہے کہ وہ غلط تھا۔

۸؎ سبحان اﷲ! یہ حضرات بالکل بے نفس تھے انہیں کسی کی ذات سے عناد نہ تھا اصل مسئلے سے بحث تھی۔امام بخاری نے بخاری شریف میں جو امام ابوحنیفہ پرسخت لہجہ میں اعتراضات کیئے ہیں انہیں بھی امام اعظم سے عناد نہ تھا وہ سمجھے کہ یہ مسائل غلط ہیں اور حدیث کے خلاف ہیں اسی لئے اس طرح اعتراضات کرگئے،ان کا ماخذ یہ حدیث ہے لہذا اب ہم امام بخاری کو برا نہیں کہہ سکتے۔

۹؎ تَضَنَّ ضَنٌ سے بنا،بمعنی بخل،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَمَاہُوَعَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ”۔خیال رہے کہ مال کے بخل سے علم کا بخل زیادہ برا کیونکہ علم خرچ کرنے سے گھٹتا نہیں،ہاں یہ ضروری ہے کہ نااہل سے علم کے اسرار چھپاؤ کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے گا۔

۱۰؎ غالب یہ ہے کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یہ فرمایا ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ توریت میں دیکھ کر یا اپنے بزرگوں سے سن کر فرمایا ہو مگر پہلا احتمال زیادہ قوی ہے کیونکہ آپ کو اسلام لانے کے بعد توریت پر اعتماد نہ رہا تھا۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ایسا جرم کرسکتے تھے۔

۱۱؎ یعنی اس وقت نماز مکروہ ہے کہ نہ فرض جائز نہ نفل اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ اسے نماز پڑھتا ہوا پاتاہےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت نماز کا ہے،لہذا آپ کا قول اس حدیث کے مخالف معلوم ہوتا ہے۔

۱۲؎ یعنی تمہاری حدیث میں نماز سے حقیقی نماز مراد نہیں بلکہ حکمی نماز مراد ہے،چونکہ اس وقت مغرب قریب ہوتی ہے،لوگ مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھتے ہیں تو نماز ہی میں ہوتے ہیں،اب اگر دعا مانگ لیں تو نماز میں بھی ہیں اور دعا بھی مانگ رہے ہیں۔خیال رہے کہ اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ یہ ساعت مغرب کے قریب ہوتی ہے۔بہتر یہ ہے کہ دو خطبوں کے درمیان بھی دعا مانگ لے اور خطبہ اور نماز کے درمیان بھی اور اس وقت بھی۔ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اس ساعت کے بارے میں چالیس قول ہیں۔